ڈاکٹر ابوالحسن الازہری
1نومبر،2019
جب ہم اس کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کواس کا ئنات میں بڑی مرکزی اہمیت حاصل ہے اور اس کا ئنات کی ہر چیز اس کے لئے مسخر ہے او ریہ انسان اپنی عقل کی بناء پر ہر شئے کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے۔ یوں انسان اس کائنات کا بادشاہ او رشہنشاہ دکھائی دیتا ہے۔ اتنی زیادہ قوت و طاقت کی بنا ء پر اس کے پھسلنے کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ان سے بچانے کے لئے انسان کو باری تعالیٰ نے اپنی اپنا کلام قرآن مجید عطا کیا ہے اور بلاشبہ انسان اور قرآن اس کا ئنات کی دو مسلمہ حقیقتیں ہیں ا ور ان دونوں میں سے قرآن نے انسان کے بارے میں بتادیا ہے کہ وہ انسان کیا ہے، اب انسان کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ قرآن کوپڑھے سمجھے اور بار بار اس میں غور و فکر کرے تاکہ وہ اپنی انسانیت کی حقیقت کو پا جائے اور قرآن کے نزول سے لے کر اور ہدایت کی فراہمی اور رسانی تک سارے امور قرآن کو بخوبی جان لے اور دوسروں کو اس قرآن کی آفاقی تعلیمات سے صحیح معنوں میں آگاہ کرے۔ انسان کو بندہ رحمن بننے کے لئے قرآن سے بہتر کوئی چیز راہنمائی نہیں دے سکتی۔ اب ہم قرآن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ یہ کب نازل ہوا اور اس کے نازل کرنے کا مقصد رب کے نزدیک کیا ہے اور انسان نے اس قرآن کے بارے میں کیا نقطہ نظر اپنایا ہے؟ سورۃ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں“ (البقرۃ: 195)
قرآن کا نزول ہدایت کے لئے ہے:
اس آیت کریمہ میں ”ہدی للناس“ کے الفاظ ہمیں پکار پکار کر یہ دعوت دے رہے ہیں کہ قرآن کے نزول کامقصد کیا ہے۔ قرآن ہمیں کیوں عطا کیا گیا اور قرآن کو ہمارے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیوں کیا گیا۔ قرآن کے پڑھنے کی ہمیں ترغیب کیوں دی گئی۔ قرآن کے ایک ایک حروف کو پڑھنے پر دس دس نیکیوں کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس شخص نے قرآن حکیم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا الم ایک حروف ہے بلکہ اس میں الف الگ حروف ہے لام الگ حروف ہے او رمیم الگ حروف ہے۔ ہر ایک حروف پر ثواب دس نیکیوں کا ہے۔“ (جامع ترمذی، فضائل القرآن)
قرآن کے الفاظ و کلمات کو پڑھنے پر اتنا زیادہ ثواب عطا کرنے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ ان ساری ترغیبات کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھنے کی طرف راغب ہوجائیں اور قرآن پڑھتے پڑھتے اس سے ہدایت اخذ کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے دین کو سیکھ لیں۔ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولیٰ کو پالیں اورقرآن کے ذریعے اس کی توحید کی معرفت حاصل کرلیں اور قرآن کے ذریعے ہم اس کی بندگی کی حقیقت کو پالیں۔ حتیٰ کہ قرآن کے ذریعے ہم اپنے مولیٰ کی رضا کو پالیں۔
الہامی کتابوں کے نزول کامقصد ہدایت ہے:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ باری تعالیٰ نے جتنی بھی کتابیں آج تک انبیاء علیہم السلام پر نازل کی ہیں۔ ان سب کا مقصد انسانوں کی ہدایت رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو یہ صحائف او ریہ کتب اس لئے دی گئیں تاکہ ان کے ماننے والے اور ان پر ایمان لانے والے ان کتب اور صحائف سے ہدایت حاصل کریں۔ چنانچہ اس حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی کتاب تورات کے بارے میں باری تعالیٰ سورۃ البقرہ اور سورۃ المومن میں ارشاد فرماتا ہے:
”او رہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق باطل میں فرق کرنے والا (معجزہ) عطا کیا تاکہ تم راہ ہدات پاؤ“۔ (البقرۃ:53)
سورۃ المومنون میں یوں ارشاد فرمایا:
”اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ ہدایت پا جائیں۔“ (المومنون:49)
ان دونوں آیات میں یہ الفاظ ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب تورات عطا کی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کتاب باری تعالیٰ نے انہیں کیونکر عطا کی؟ کس مقصد کے لئے دی؟اس کتاب کے اور دیگر کتب سماوی کے نازل کرنے کامقصدرب کے نزدیک کیا ہے؟ ان ہی آیات کے اگلے الفاظ ان کتابوں کے نزول کے مقصد کو واضح کررہے ہیں کہ وہ الفاظ یہ ہیں تاکہ وہ ہدایت پائیں او ر تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ گویا کتب سماوی اور ہدایت لازم و ملزوم ہے۔ انبیاء علیہم السلام او ران کی کتب کے بغیر ہدایت کونہیں پایا جاسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورقرآن ہدایت ہیں:
حضرت امام مالک اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اوردوسری تمہارے نبی کی سنت۔“ (رواہ مالک و الحاکم عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
یہ حدیث مبارکہ بھی ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمسک میں ہی ہدایت ہے۔ جس نے کتاب اللہ کو اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے پکڑ لیا وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ کتاب اللہ یعنی قرآن کا تمسک کیسے کیا جائے، قرآن کو مضبوطی سے کیسے پکڑا جائے، قرآن سے اپناتعلق کیسے قائم کیا جائے اور قرآن کو اپنی زندگی میں کس طرح اختیار کیا جائے۔ قرآن کے ساتھ ہمارا ربط کیا ہو او رقرآن ہماری زندگیوں میں کیسے نظر آئے۔ ہمارا عمل قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا قول قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہمارا خلق قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہماری سیرت او رہماری شخصیت قرآن کے مطابق کیسے ہو۔ ہم کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن کے ساتھ ہمارا وہ تعلق قائم ہوگیا ہے جس کاحکم اللہ اور رسول نے دیا ہے اور یوں ہماری ساری زندگی قرآن کے مطابق ہو او رہم قرآن سے باہر نہ ہوں تاکہ ہمیں قرآن کے نزول کامقصد (ہدایت عظمیٰ) حاصل ہوجائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری:
باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر تم قرآن کو بھی اور میرے نبی کی سنت کوبھی ایک ہی جگہ او رایک شخص میں دیکھنا چاہتے ہو تو وہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات (مبارکہ) ہے جس نے تمہیں قرآن بھی پہنچایا او راپنی سنت بھی تمہیں سکھائی ہے۔ اس لئے اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی ذمہ داری تھی۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف حکم پہنچادیں“۔ (النور:54)
گویا اس رسول معظم نے اللہ کے احکام کو اور اللہ کے دین کو قرآن اوراپنی سنت کے ذریعے ”البلٰغ المبین“ یعنی واضح طور پر پہنچادیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فرض نبوت بہ تمام وکمال ادا کردیا ہے۔ اللہ کا دین تم تک پہنچا دیا ہے او راس دین کے پہنچانے پر تم بھی خطبہ حجۃ الوداع کی صورت میں اقرار کر چکے ہو او راللہ بھی تمہارے اس اقرار پر گواہ و شاہد ہے۔
ہدایت کی عملی صورت اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
اب تمہاری فقط یہی ذمہ داری ہے:
”اگر تم ان کی (رسول کی) اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤگے“۔ (النور:54)
گویا رسول کی اطاعت میں تمہارے لئے ہدایت کا سامان رکھ دیا گیا ہے۔ اب رسول کی اطاعت تمہیں کیسے اختیار کرنی ہے۔ اس اطاعت کی عملی صورت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہی ہوئی ہر بات کو، ہر حدیث کو، ہر فرمان کو اپناعمل بنا لو۔ تم اپنی گفتار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتار پر استوار کرو۔ تم اپنے قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے روشنی دو۔ تم اپنے فعل کو فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہنمائی دو۔ تم اپنے خلق کو خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آشنا کرو۔ تم اپنی ذات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اطاعت کے باب میں فنا کردو۔”تھتدوا“ تم ہدایت پا جاؤگے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خود اللہ کی اطاعت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کا حکم مانابے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔“ (النساء:80)
گویاقرآن اس مقام پر واضح کررہا ہے کہ تمہیں ہدایت اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک تم خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ڈھال نہ لو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے اطاعت کا پیکر مجسم نہ بن جاؤ۔ گویا ہدایت عطا کئے جانے کی ضمانت اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نتیجہ صراط مستقیم ہے:
قرآن ہدایت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ لازم و ملزوم کرتا ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سراپا ہدایت ہے او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باری تعالیٰ نے ساری کائنات کے لئے ہادی بنا یا ہے۔
اس لئے ارشاد فرمایا:
”اوربے شک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں“۔ (الشوریٰ:52)
اس آیت کریمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف ہی صراط مستقیم کی ہدایت عطا کرنے والا کرایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے وابستہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی او رانسان کو وہ ہدایت مل گئی جو اس کی زندگی کا حاصل ہے۔ جواس کی زندگی کامقصود ہے۔ (جاری)
1نومبر،2019 بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-purpose-revelation-quran-guidance-part-1/d/120307
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism