ڈاکٹر عبد البرکات
27 ستمبر ، 2020
فرد اور معاشرہ فنونِ لطیفہ سے مربوط رشتہ رکھتے ہیں بلکہ فنونِ لطیفہ اور زندگی و معاشرتی نظام لازم و ملزوم ہیں۔ فنونِ لطیفہ بشمول شعر و ادب گاہے ان سے متحرک ہوتے ہیں، گاہے فرد و معاشرہ کی رہنمائی کرتے ہیں۔ دورِ جمہور جن میلانات و رجحانات کے ساتھ رواں دواں ہے اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ فنونِ لطیفہ اور دیگر تمام تخلیقات و معروضات عوامی خیالات و جذبات اور محسوسات کی ترجمانی سے نئی انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ آج فنونِ لطیفہ کے حصار، خواص سے پھیلتے ہوئے عوام تک پہنچ گئے ہیں لہٰذا تخلیقات کے موضوعات اور تکنیک متنوع ہونے کے ساتھ انقلابی تبدیلیوں سے ہمکنار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب نابغہ روزگار فنکار و قلم کار اور ناقدین نظریہ سازی کے عمل سے گزرتے ہیں تو ماحولیاتِ انسانی فلاح و بہبود پاتے ہیں اور معاشرتی نظام ترقی پسندانہ اقدام کے حامل بنتے ہیں جن کے دائمی اثرات فرد و معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ظاہر ہے ایسے ذہین اور شائستہ و ارفع دماغ افراد معدودے چند ہوتے ہیں جن کے تصورات و افکار خواص و عوام سے بالاتر ہوتے ہیں اور ان ہی کی کاوشوں سے پوری انسانی برادری اور سماج (چاہے وہ جس میدان میں کارنامہ انجام دیں) مستفیض ہوتے ہیں۔ نتیجتاً جب بھی معاشرتی نظام ایک نئی کروٹ لیتے ہیں تو نیا منظر نامہ اُبھرکر سامنے آتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک آزاد معاشرتی نظام میں ہی جذبات و خیالات اور تصورات کو نشو ونما پانے اور اس پر عمل درآمد کے بہترین مواقع میسر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے نئے نئے تصورات کی توسیع ہوئی ، عوام میں نئی بصیرت کا ظہور ہوا اور دھیرے دھیرے نظامِ شاہی اپنا بستر لپیٹنے لگا جو شخصیت پرستی، خودغرضی اور استحصال پر مبنی تھا اور جمہوری نظام کا سورج نصف النہار پر جلوہ فگن ہوا۔ پھر نابغۂ روزگار ہستیوں کے افکار و تصورات کے جوہر کھل کر سامنے آگئے۔ نئے نئے ایجادات، افکار و نظریات نے پوری دنیا کو نئی تہذیب کا چولا پہنایا اور ایک ہی صف میں محمود و ایاز آراستہ نظر آنے لگے۔
معاشرتی نظام، جغرافیائی حالات اور معاشی و سیاسی صورتِ حال کے اثرات؛ نہ صرف انسان کے جسمانی ساخت، حالات و معاملات پر پڑتے ہیں جس سے طرزِ زندگی کا تعیّن ہوتا ہے بلکہ انسانی خصائل بھی متاثر ہوتے ہیں اور آدمی کے اشکال، لسان اور لباس و اطوار میں نمایاں تفریق رونماہوتا ہے۔تاہم انسانی اقدار اور انسانیت آمیز امور میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔کیوںکہ انسانیت بھی روح کی طرح لطیف و شفاف ہوتی ہے جس پر خارجی دباؤ کے اثرات بہت کم ہوتے ہیں اور اس کی بنیادی قدروں میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ طرزِ فکر، اندازِ احساس و جذبات، دکھ، غم، خوشی یکساں اور بھوک و پیاس کی شدت میں مماثلت بنیادی انسانی اقدار ہیں۔ چاہے انسان زمین کے کسی بھی خطہ میں رہے اور کسی بھی حالت میں رہے، ہر علاقہ، نسل اور مذہب کے افراد میں یہ قدریںموجود ہوتی ہیں۔ ترحم، خوشی، غم، افسوس، مسرت وغیرہ لطیف جذبات و محسوسات ایک آدمی کو دوسرے آدمی سے جوڑتے ہیں۔ خواجہ میردردؔ کا کہنا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں
اس تناظر میں علاقائی ادب اور عوامی ادب جمہوری دَور کا مقتضی ہے کیوںکہ ہر خطہ یا علاقہ اپنی بولی اور زبان کا متحمل ہوتا ہے جس میں ان کی تہذیب و ثقافت جلوہ گر ہوتی ہے اور اس علاقہ کے افراد کی سوچ ، طرزِ زندگی اور اندازِ فکر کی بہتات ہوتی ہے جو اُن کی تحریروں میں نمایاں ہوتی ہے۔ غالباً اسی لیے مابعد جدیدیت نے علاقائیت کو اساس بنایا ہے اور فرد کی اہمیت و افادیت کو اپنی فکر کا محور گردانا ہے کہ انسان خواہ کسی خطہ، علاقہ اور قوم و نسل کا ہو، اس کی انفرادیت اور اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب جمہوری نظام کا نفاذ مکمل طور پر ہو، کیوںکہ جمہوریت ختم ہونے کے بعد دہشت کا راج قائم ہوجاتا ہے لہٰذا انسانیت کی بقا کے لیے اس زمین پر جمہوری نظام ناگزیر ہے۔ اس صورتِ حال میںہی انصاف ممکن ہے۔
ادبِ عالیہ کی تخلیق اس وقت ممکن ہوتی ہے جب منجملہ انسان کی مسرت و انبساط، محبت و الفت، غم و الم، دکھ درد، کامیابی و ناکامی الغرض نیز سماج کے مجبور سے مجبور انسان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ آدمیوں کے دمیان کی تفریق ختم کی جاسکے اور ان میں ایک دوسرے کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہو؛ کیوں کہ ادب کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داریاں بھی عظیم ہیں۔ درحقیقت ادبِ عالیہ اعلیٰ ترین دماغ کی کاوش ہوتا ہے ، غالباً اسی لیے ۱۹۵۰ء کے نوبل انعام کی ایک تقریب میں ولیم فالکنر نے اپنی تقریر میں کہا تھا جس کا اردو ترجمہ محمد اسلم نے کیا ہے:
’’یہ اعزاز شاعر و ادیب کا ہے کہ وہ انسان کے حوصلے بڑھاکر اُسے دکھ برداشت کرلینے میں مدد دے اور اس کے دِل میں جرأت اور احترام اور امید اور پندار اور احساس اور رحم اور ایثار کی یاد تازہ کرتا رہے۔ یہی تو وہ چیزیں ہیں جن کی بدولت اس کا ماضی اب بھی تابناک ہے۔ شاعر کی آواز کے لیے یہ چنداں ضروری نہیں کہ وہ انسان کی محض روداد ہو بلکہ یہ آواز تو انسان تحمل و برداشت کے علاوہ مشکلات پر غالب آنے پر بھی اُبھار سکتی ہے۔‘‘(ترجمہ محمد اسلم)
(بحوالہ روزنامہ’انقلاب‘ ۱۹؍اپریل ۲۰۲۰ء، سنڈے، ص ۶)
دراصل ۱۹۱۷ء کے انقلابِ روس نے زارشاہی کا تختہ پلٹ کر سارے ایشیا کی محکوم قوموںمیں عوامی جمہوریت کی نئی لہر دوڑا دی اور پوری دنیا کے لیے ایک جمہوری طرزِ حکومت کے دروازے کھول دیئے۔ رفتہ رفتہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں بالواسطہ یا بلاواسطہ جمہوری طرزِ حکومت قائم ہوگئی جس کے تناظر میں ادب اور فنونِ لطیفہ کے مقاصد اور افادیت پر از سرِ نو غور و فکر کیا جانے لگا اور ترقی پسندانہ رجحان عام ہونے لگا۔ ادب میں بھی خرد افروزی اور معروضی طریقۂ کار فروغ پانے لگا۔ شعرا، ادبا؛ عوامی مسائل اور ان کی کشمکشِ حیات میں ’حسن کی معراج‘ دیکھنے لگے۔ معاشرتی زندگی میں آپسی ہم آہنگی پروان چڑھنے لگا۔ لہٰذا رابندر ناتھ ٹیگور نے قلم کاروںکو پیغام دیا کہ:
’’ادیبوںکو انسانوں سے مل کر انھیں پہچاننا چاہیے۔میری طرح گوشہ نشیں رہ کر ان کا کام نہیں چل سکتا۔میں ایک مدت تک سماج سے الگ رہ کر اپنی ریاضت میں جو غلطی کی ہے اَب میں اسے سمجھ گیا ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج یہ نصیحت کر رہا ہوں۔ میرے شعور کا تقاضہ ہے کہ انسانیت اور سماج سے محبت کرنا چاہیے۔ اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہوا تو وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ یہ حقیقت میرے دل میں چراغ کی طرح روشن ہے اور کوئی استدلال اسے بجھا نہیں سکتا۔‘‘(بحوالہ’’ ترقی پسند تحریک اور اردو کا ظریفانہ ادب‘‘ڈاکٹر عبد البرکات، ص۴۵، ۲۰۱۹ء)
اس طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ادبا، شعرا اور قلمکاروں نے اپنی توجہ عوامی زندگی اور معاشرتی معاملات و مسائل کی طرف مبذول کی جس سے ادب کا کینوس وسیع ہوتا گیا۔ ترقی پسند تحریک کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ادب کا رُخ خواص کے ساتھ عوام کی طرف بھی موڑ دیا جس کے طفیل فرد و معاشرے کے مسائل ضبطِ تحریر میں آنے لگے۔ اسی طرح مابعد جدیدیت نے ادب کو علاقائی معاملات و مسائل اور علاقائی زبان و تحریر کی طرف توجہ مبذول کرائی جس کی وجہ سے علاقائی زبانوں کے بہت سارے معتبر الفاظ اور ایسے محاورے و ضرب الامثال مرکزی ادب سے روبرو ہوئے جس سے انسان کے فکری میلان اور طرزِ زندگی کی صحیح عکاسی ہوتی ہے۔ نیز علاقائی تاریخ، تہذیب اور ثقافت؛ ادبی منظرنامہ پر اُبھرکر سامنے آنے لگے۔آج ہر علاقہ سے شاعر، ادیب اور قلم کار علاقائی زبان اور لب ولہجہ کے ساتھ ادبی افق پر نمودار ہورہے ہیں۔ ابتدائی ادب، رؤسا اور مخصوص افراد کے معاملات و مسائل اور طرزِ زندگی تک محدود تھا جس کو ترقی پسند تحریک نے خواص سے عوام تک وسیع کردیا جب کہ جمہوری ادب خواص سے عوام تک کے قلم کاروں اور فنکاروں کو اپنی حصہ داری کا متقاضی ہے جس سے مرکزی ادب کا دامن وسیع و متنوع ہوگا اور ادب کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوجائے گا لہٰذا سماج کے ترقی یافتہ افراد کے ساتھ عام عوام کے امور اور رموزِ معاملات جب ادب کے سانچے میں ڈھل جائیں تو میرے خیال سے ایسی تحریروںکو جمہوری ادب سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ حقیقتاً کسی نظریہ کے تحت تخلیق ادب کی جستجو ممکن نہیں کیوںکہ انسانی دماغ سیمابی ہوتا ہے۔ بہت دنوں تک وہ ایک ہی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ وہ نئے نئے شاخسانے نکالتا رہتا ہے جو فرد و معاشرے کے لیے تغیر و تبدل کا موجب بنتا ہے اور نظامِ زندگی کے ساتھ معاشرتی نظام پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
’’…انسان زیادہ لمبے عرصے تک یکسانیت اور یک رنگی کو قبول نہیں کرسکتا اور اس کے داخل میں تغیر کی آرزو خود بخود کلبلانے لگتی ہے۔ تغیر کی یہ خواہش بذاتِ خود اتنا بڑا محرک ہے کہ ارتقائے کائنات کے بیشتر زاویے اسی کے مرہونِ منت نظر آتے ہیں۔‘‘(’’اردو ادب کی تحریکیں: ڈاکٹر انور سدید۔ ص ۲۷، اشاعت ہشتم ۲۰۱۳ء، انجمن ترقی اردو پاکستان)
اس تناظر میں ادبی نظریہ کا متاثر ہونا بھی لازمی ہے لیکن بہرصورت انسان اور انسانیت کی بقا سے قطعی انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے کیوںکہ سنسار میں انسان ہی مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور مرکز سے قطع تعلق کرکے کوئی بھی رجحان یا تحریک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی، وہ کٹی پتنگ بن جائے گی جس کا زمیں بوس ہونا طے ہے۔ اسی اصول کے تحت بہت سارے رجحانات اور تحریکات مثلاً علی گڑھ تحریک، رومانی تحریک، ترقی پسند تحریک، ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی، وجودیت، جدیدیت، تعمیریت، مابعد جدیدیت وغیرہ معرضِ وجود میں آتی رہی ہیں اور ان میں وہی تحریک مقبول و عزیز رہی ہے جس میں انسان اور اس کی بقا کو محور بنایا گیا ہے۔
اکیسویں صدی کے دوسرے عشرہ کی ابتدا میں ہی ایک عالمی مہلک وبامنظرِ عام پر آگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مہاماری نے تقریباً پوری دنیا پر اپنے سیاہ آنچل پھیلا دیئے۔ خواہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، ہر ملک سے اموات کی خبریں ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے توسط سے موصول ہونے لگیں۔خوف، ڈر، وحشت اور افسردگی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ تمام ممالک کی حکومتوں نے اپنے ملک کے شہریوں اور اپنے یہاں مقیم افراد کے تحفظ کے پیشِ نظر گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کردی کیوںکہ اس مہلک وبا جس کو ’کروناوائرس‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، لاعلاج ثابت ہورہا ہے۔ اس سے بچنے کا واحد راستہ اس وبا سے متاثر افراد سے دوری اختیار کرنے کو قرار دیا گیا۔ پھر پوری دنیا نے اپنے اپنے ملک میں ایک ایک آدمی کو بچانے کی مہم شروع کردی۔ مذہب، ذات، جنس،نسل، علاقہ،غریب، امیر، مزدور، کسان، محنت کش یعنی ایک ایک فرد کی جان بلاتفریق بچانے کے لیے ہر ملک کی حکومتیںکوشاںہوگئیں۔ پھر ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کے نعرہ سے انسان جی اُٹھا، انسانیت کی بقا ہوئی اور آدمی کی اہمیت، افادیت، برتری، عظمت اور وقار عود کر آئی۔ یہ احساس عام ہوا کہ انسان سے بڑھ کر اس کرۂ ارض پر کوئی مخلوق یا اِزم نہیں ہے۔صدیوں پرانی سماجی بناوٹ چرمراگئی۔ نظامِ زندگی میں غیرمعمولی تغیر رونما ہوا، جس کی وجہ سے ایک نئی فضا تشکیل ہوئی اور ایک نیا سماجی منظرنامہ اُبھرکر سامنے آنے لگا جس کی واضح خط و خال ممکن ہے کچھ برسوں بعد اپنی شناخت قائم کرسکے۔اس وبا نے تقریباً پوری دنیا کو اپنی ترجیحات طے کرنے پر مجبور کردیا اس لیے ممتاز سیاستداں بھی علاقائیت، انفرادیت اور مقامیت پر ارتکاز کرنے کا اعلان کیا۔ ملک و قوم کی تعمیر میں سب کی حصہ داری پر زور دیا جانے لگا۔اس صورتِ حال میں جمہوری ادب کے تصور کا امکان مزید قوی ہوجاتا ہے۔ جمہوری ادب میں مندرجہ ذیل نکات کی جستجو کی جاسکتی ہے:۔
(۱) ایسی تخلیقات جن میں عوام کے جذبات، خیالات اور ان کی ترجیحات کو محور بنایا گیا ہو۔
(۲) انسان اور انسانیت کو بہرحال مقدم رکھا گیا ہو۔
(۳) دنیا کا سب سے بڑا عجوبہ انسان ہے کیوںکہ وہ دنیاوی عجوبات کا خالق ہے اس لیے انسانی امکانات کو سائنٹفک نقطۂ نظر سے دیکھا گیا ہو اور آدمی میں پوشیدہ قدرتی عطیات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
(۴) طبقاتی تفریق کے خاتمہ اور اعلیٰ سے ادنیٰ افراد تک کے معاملات ، مسائل اور نفسیات کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔
(۵) مزدور، کسان اور محنت کش طبقہ تک ایسے افکار، خیالات اور مثالیں پہنچانے کی کوشش کی گئی ہو جس سے ان کی زندگی میں بھی خوشحالی آئے اور اس طبقہ کے ذہین افراد قومی دھارے سے جڑجائیں اور ان کی بستی اور سماج میں ترقی کی کرن پہنچ جائے۔
(۶)علاقائی ادب اور عام عوام کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو مرکزی ادب سے ہم آہنگ کرنے کی سعی ہو جس سے ادب کے دائرۂ کار میں اضافہ ہوگا، نیز نئے افکار و خیال سے ادب وقیع ہوگا۔
(۷) مزدور، کسان اور محنت کش طبقے کی بول چال کی زبان، الفاظ اور محاورے کو ادبی انداز میں سلیقے سے برتا گیا ہو جس سے لسانی سطح پر ان طبقات کی اصلاح ہوسکے اور وہ تخلیقات سے محظوظ بھی ہوں۔ان کے یہاں بعض ایسے الفاظ ہیں جن کا بدل نہیں ہے مثلاً’اوٹ‘ کسی سواری یا ڈھلکتی ہوئی کسی چیز میں کوئی ٹکڑا لگاکر روک دینا۔
فنکار و قلم کار معاشرے کے حساس ترین افراد ہوتے ہیں، اس لیے تمام انسانوں سے ان کی وابستگی لازمی ہے۔ لوگوںکے چہرے اور معاشرتی نظام پر اُبھرنے والی لکیریں پڑھنا انھیں آتا ہے اس لیے ہر کس و ناکس کے جذبات و کیفیات کو وہ محسوس کرلیتے ہیں اور اپنی تخلیقات کا محور بناتے ہیں ۔ جمہور کا معنی عوام اور جمہوری ادب کا مطلب عوامی ادب، لیکن جمہوری ادب میں جو بلاغت اور معنویت مضمر ہے، وہ عوامی اور دلت ادب میں مفقود ہے۔لہٰذا اس سمت قلم کاروں و فنکاروںکو متوجہ ہونا چاہیے۔
27 ستمبر ، 2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-concept-democratic-literature-/d/122977
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism