ڈاکٹر اے کیو خان
15 جولائی، 2013
( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)
لفظ ' بہار' فوری طور پر ذہن میں نئی ترقی، سبز درخت، پھول پودوں، سر سبز و شاداب باغ اور خوشگوار ہوا کے جھونکے کا تصور پیدا کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ پرندوں کا گیت بھی ۔ نفسیاتی طور پر، آپ فرحت محسوس کرتے ہیں۔ ا س کے بجائے لفظ ' خزاں' دلگیر موسم، بغیر پھولوں کے سوکھے درخت ، مختصراً مایوسی کا ماحول کے موسم کا تصور پیدا کرتا ہے۔ موسم بہار کے مقابلے میں، موسم خزاں عام طور پر زیادہ لمبا ہوتا ہے خاص طور پر ایسے ممالک میں جہاں کا موسم سرد ہو ۔
یہ دونوں موسمی تبدیلیاں عرب ممالک میں سیاسی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ مغرب نے فوری طور پر اس تازہ ہوا کو' بہار عرب ' کا نام دے دیا اور بہت سے لوگ اس فریب میں تھے کہ عرب دنیا بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ لیکن معاملہ ایسا نہیں تھا۔ ہم اس پر ایک گہری نظر ڈالتے ہیں ۔
عرب (مسلم) بہار کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ موسم بہار کی طرح، یہ بہت چھوٹا تھا۔ یہ ایک لمبے مستقل موسم خزاں کے بعد آتا ہے اور ایسی بہت سی امیدوں کو جنم دیتا ہے جو جلد ہی پاش پاش ہو جاتی ہیں ۔ بالکل یہی مصر میں ہوا ہے ۔ مصر شروع سے ہی بد نصیب رہا ہے۔ مصریوں نے ہمیشہ حکمرانوں کے طور پر ظالم ، نااہل، فوجی آمروں کا سامنا کیا ہے ۔ آدھے سے زیادہ صدی کے بعد انہوں نےایک منصفانہ انتخابات کے ذریعے ایک خدا ترس صدر حاصل کیا ، لیکن بہت جلد سازشیں شروع ہو گئیں اور مغرب کی مدد اور حمایت سے (ایک بار پھر) ایک فوجی آمر کو مقرر کر دیا گیا۔
9 جولائی، 2012 کے اپنے کالم میں نے ڈاکٹر البرداعی، ایک امریکی ایجنٹ اور آئی اے ای اے کے 12 سالوں تک رہے سابق ڈی جی کے ذریعہ مسلط کئے گئے خطرے سے مصریوں کو خبردار کیا تھا ۔ اس دوران اس نے امریکہ کی خدمت کی - عراق اور لیبیا کو تباہ کر دیا گیا اور ایران اور پاکستان کے لئے بہت سے مسائل میں پیدا ہو گئے تھے ۔ مغرب نے پہلے سے ہی حسنی مبارک کے زوال کے بعد اسے اقتدار میں لانے کی کوشش کی لیکن وہ اس وقت ایسا کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ پھر انہوں نے انتخابات کے ذریعے کی کوشش کی لیکن ایک بار پھر ناکام رہے۔ اب وہ ان کے انتخاب کے ایک سال کے اندر اندر مورسی کو بر طرف کرنے کے بعد اس میں بہت کچھ کامیابی بھی حاصل کرلی، البراداعی کو پیش پیش کر کے اور اسے نائب صدر کے طور پر نامزد ہونے کے لئے زور ڈال کر ۔
میرے گزشتہ کالم میں میں نے مسلم ممالک میں مغرب کے ذریعہ کئے گئے سازشوں پر غورو فکر کیا تھا۔ اگر وہ براہ راست فوجی کارروائی کے ذریعہ کامیاب ہونے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ ہمیشہ مقبول رہنماؤں (مسلم ممالک غدار پیدا کرنے میں بہت زرخیز ہیں) کا تختہ پلٹنے کے لئے تیار غدار تلاش کرسکتے ہیں۔ بہت سارے رہنماؤں کا زرخرید امریکی ایجنٹوں کے ذریعہ تختہ پلٹ دیا گیا اس لئے کہ وہ قومی مفادات کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور مغرب کی کٹحپتلی بنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق اور ڈاکٹر فاطمی، الجزائر میں احمد بین بیلا، نائجیریا میں سر ابوبکر تفاوا بلیوا ،انڈونیشیا میں ڈاکٹر احمد سکرنو، اور خود ہماری ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف جیسے لوگ اس طرح کی سازش کا شکار ہیں۔
قرآن کی 5:51 آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہودی اور عیسائی کبھی بھی مسلمانوں کے حامیوں کے سچے دوست نہیں ہو سکتے، بہر حال، مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ ان پر انحصار کیا ہے اور ان سے مدد مانگی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مصر ہی کی طرح ایک کھیل سالوں پہلے الجزائر میں کھیلا گیا اور وہاں کے لوگ اب بھی آزادی کے لئے اور ان کے اپنے حکمران منتخب کرنے کے حق کے لئے ترس رہے ہیں ۔
ایک اور گندا کھیل فلسطین میں کھیلا گیا تھا جہاں امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، وغیرہ نے فلسطینیوں کو گزشتہ 60 سالوں سے ایک وحشت زدہ کالونی میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے ، اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں جو کہ محض ایک سراب ہے۔ آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر مغربی کنارے پر طاقتور قوموں کے ناک کے نیچے قبضہ کر لیا گیا ہے اسرائیل کی حمایت کے لئے مغرب کا شکریہ ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح مغرب نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی آزادی حاصل کرنے کا انتظام کیا ۔ صرف فلسطینی مسلمان ان کے لئے ایک مذہب ہیں۔
مصر میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ نہ ہی غیر متوقع ہےاور نہ ہی حیرت کن ہے۔ وہ آرمی جو دشمن کے خلاف جنگ ہار جاتا ہے(ہماری طرح) تو اپنے ملک کو زیر کرتا ہے ۔ ان لوگوں کے سینوں کو دیکھیں جو جنگیں ہار چکے ہیں ربن پر ربن اور تمغہ پر تمغہ ہے ۔ مصری کبھی فاتح جرنیل نہیں پیدا کر سکے ۔ ایسے کمانڈر جو کبھی ان کے لیے جنگیں جیت سکے صرف صلاح الدین ایوبی، ایک کرد، ملک اے زیڈ ظاہر بابرس، ایک ترکی غلام اور محمد علی، ایک البانی تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے کون سے سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا کہ انہیں وحشیانہ طور پر قتل کرنے کی ضرورت پیش آئی ؟ انہوں نے صرف پاکستان کی خود مختاری اور وقار کی حفاظت کرنےکی کوشش کی۔ محمد نواز شریف کا جرم کیا تھا؟ صرف یہی کہ انہوں نے ہماری مشرقی سرحدوں کے قریب ایٹمی ہتھیاروں کے ٹیسٹ کے ذریعہ پاکستان کو دھمکانے کے استبدادانہ اور جارحانہ عزائم کا جواب دیا ۔ انہیں ہتکڑی پہنا دیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ خوش قسمت تھے کہ موت کی سزا سے بچ گئے ایک نیک جج اور سعودی بادشاہ کی مداخلت کا شکریہ ۔
یہاں قابل توجہ نقطہ یہ حقیقت ہے کہ مغرب کبھی بھی اقتصادی طور مستحکم اور آزاد اسلامی ملک کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ جس لمحے ملک کے حکمران آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمیشہ مستعد فوجی غدار کے ذریعے ان کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ ترکی کو ہی دیکھ لیں۔ تقریبا 50 سال سے یہ نیٹو اور دوسرے فوجی معاہدے کے تحت امریکی کٹھپتلی بنا رہا ۔ جب اس کے وزرائے اعظم میں سے ایک، عدنان میندریس نے ایک آزاد پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی تو ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور غدار سی آئی اے کے ایجنٹ-جرنیلوں کے ذریعہ پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
حال ہی میں مغربی نے ترکی میں مقبول اور محب وطن حکومت کے خلاف مصر کی طرح پرتشدد ہنگامے بھڑکانے کی کوشش کر رہاہے ۔ ترکی نے تقریبا 45 سال تک سرد جنگ کے دوران مغرب کے ساتھ شامل ہوکر اپنے وجود کو خطرے میں ڈالا۔ تاہم، اب پہلے کے سرد جنگ کے دشمن'عام مارکیٹ' میں یورپین کے دوست ہیں اور ترکی اجھوت بن گیا ہے۔ اسے عام مارکیٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ کیا بوسنیائی مسلمانوں کا انہیں یورپین کی ناکوں کے نیچے وحشیانہ قتل نہیں کیا گیا تھا ؟ اگر نواز شریف، کے آر ایل، پی او ایف اور ملیشیانے مدد نہیں کی ہوتی، تو بوسنیا وہ نہیں ہوتا جس صورت میں آج ہے!
مجھے یقین ہے کہ جسے اللہ تعالی نے آنکھ، دل اور دماغ سے نوازا ہے وہ"آزادی کے اس قصے " سے مکمل طور پر آگاہ ہیں جس کے بارے میں بھٹو نے دہائیوں پہلے لکھ دیا تھا ۔ تاہم، ایسے بہت سے دانشور موجود ہیں جو اپنے مالک کے کہنے پر رات کو دن اور اس کا برعکس کہنے کے لئے تیار ہیں ۔ ایسا کیوں ہے؟
جواب 7:179 میں پایا جا سکتا ہے: "اور ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔"
ماخذ:
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-9-189972-Arab-spring-%E2%80%93-Muslim-autumn
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/arab-spring-–-muslim-autumn/d/12599
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/arab-spring-–-muslim-autumn/d/12685