New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 06:52 AM

Urdu Section ( 20 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Double Standards of Pakistanis on Blasphemy مسئلہ اہانت پر پاکستانی حکومت اور علماء کا دوہرا رویہ مسئلہ اہانت پر پاکستانی حکومت اور علماء کا دوہرا رویہ

 

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

20 April 2023

پاکستان میں توہین مذہب ومذہبی شخصیات کی توہین کے نام پر ماورائے عدالت قتل کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی۔ یہاں توہین رسالت، توہین قرآن اور توہین صحابہ حتی کہ توہین خدا کے نام پر اب تک سینکڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو قتل سے بچنے کے لئے پاکستان چھوڑ کر یوروپ میں پناہ گزیں ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1947 سے ابتک پاکستان میں 1415 افراد کے خلاف اہانت کا مقدمہ درج کیا گیا اور 89 کو ماورائے عدالت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ان میں 18 عورتیں 71 مرد تھے۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ دس برسوں میں 1287 افراد کے خلاف اہانت کے الزامات لگے ۔ اہانت کے معاملات پنجاب میں زیادہ درج ہوتے ہیں ۔ تمام معاملات کا 70 فی صد حصہ پنجاب میں درج ہوتا ہے۔

پاکستان میں ایک عام طریقہ کار دیکھنے میں آتا ہے۔ جب کسی کے خلاف اہانت کا الزام لگتا ہے تو مقامی مسجد سے اس کے خلاف اعلان کرکے تمام۔لوگوں کو ملزم کے گھر پر جمع کرلیا جاتا ہے۔ اور اسے پکڑ کر ہجوم کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اس عمل میں مقامی ملا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔وہ عوام کو تشدد پر اکساتے ہیں۔ اگر پولیس اسے حراست میں لےلیتی ہے تو یہ ملا پولیس کے خلاف عوام کو بھڑکاتے ہیں اور تھانے سے ملزم کو چھڑالیتے ہیں ۔اس کے بعد ملزم۔کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں یا پھر اس کو زندہ جلادیتے ہیں۔گزشتہ دس برسوں میں اس طرح کئی مسلموں اور غیر مسلموں کو ہلاک کردیا گیا ہےگزشتہ فروری میں ننکانہ صاحب کے واربرٹن میں محمد,وارث نام کے ایک شخص کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں تھانے سے باہر لایا گیا پھر اسے ننگا کر کے پیٹا گیا اور ہلاک کردیا گیا۔

گزشتہ سال فروری میں میاں چنوں میں بھی ایک ذہنی طور پر بیمار شخص کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام۔میں سنگسار کردیا گیا۔ 2021 میں ایک سری لنکا ئی شخص کو سیالکوٹ کے ایک کارخانے میں توہین مذہب کے الزام میں ہلاک کردیا گیا۔ اس طرح کے بیشمار واقعات ہیں جو پاکستان میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اور توہین مذہب وقرآن کے الزام میں مسلموں اور غیر مسلموں کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اور انہیں ہلاک کرنے میں مقامی ملا سرگرم کردار ادا کرتے ییں۔توہین مذہب یا توہین رسالت پر قتل کا عقیدہ پاکستان کے چند بڑے علماء کی کتابوں میں موجود دلائل پر مبنی ہے جن کے مطابق غیر مسلموں کو ہی نہیں مسلمانوں کو بھی توہین رسالت پر قتل کردینا واجب ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی مشتعل عوام کسی مسلم یا غیر مسلم کو توہین رسالت یا قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں تشدد کرکے ہلاک کردیتے ہیں تو کسی بھی عالم یا مفتی کی طرف سے مذمت کا بیان نہیں آتا ہے۔

لیکن گزشتہ دنوں ایک اہانت کے معاملے میں نہ صرف پولیس بلکہ پاکستان کے علماء کے روئیے میں حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے توہین مذہب کے ایک ملزم کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور مقامی علماء نے یہ کہا کہ اس ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور عدالت کے مطابق اسے سزا ہو۔ علماء جو مقامی مسجد سے لاؤڈاسپیکر پر عوام کوبھڑکاتے ہیں اور عوام کو اس کے قتل پر اکساتے ہیں اس معاملے میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے عوام کو پرامن رہنے کی تلقین کررہے تھے اور قانون کے فیصلے کا احترام کرنے کا درس دے رہے تھے۔پولیس اور علماء دونوں ملکر عوام سے بات چیت کررہے تھے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد اسے ہوائی جہاز سے پختونخوا سے ایبٹ آباد لے جایا گیا جہاں اسے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔

آخر ایسا کیا ہوا کہ توہین مذہب کے ایک ملزم کے تئیں پولیس ، حکومت اور علماء کے روئیے میں راتوں رات اتنی بڑی تبدیلی آگئی؟ اب تک تو اگر پولیس یا حکومت کسی ملزم اہانت کوبچانے کی کوشش کرتی تھی تو علماء اور ملا حضرات ملک کی حکومت کو کافروں کی حکومت قرار دیتے تھے اور عوام کو ملزم کو قت کرکے ماورائے عدالت سزا دینے پر اکساتے تھے۔ آج وہ خود ملزم کو بچانے میں حکومت اور پولیس کا ساتھ دے رہے ہیں اور عوام کو عدالت کے فیصلے کو ماننے کا درس دے رہے ہیں۔

دراصل حقیقت یہ ہے کہ اس بار ملزم نہ تو سری لنکا کا بدھسٹ ہے ، نہ پاکستان کا عیسائی ہے اور نہ ہی شیعہ یا ہندو ہے۔ بلکہ توہین مذہب کا یہ ملزم ایک چینی شہری ہے۔ یہ چینی شہری صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر کوہستان کے ہیڈ کوارٹر داسو میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا کوئی افسر ہے جس نے کسی پاکستانی ملازم سے مخاطب ہوکر اسلام کے متعلق توہین آمیز ریمارک کئے۔ اس شخص نے اس بات کی اطلاع مقامی مسلمانوں کو دی اور چند گھنٹوں میں مشتعل عوام۔کا ہجوم وہاں جمع ہوگیا اور اس چینی افسر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرنے لگا۔ لیکن ملزم چونکہ ایک چینی شہری تھا اس لئے علماء ، حکومت اور پولیس کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہوگیا پولیس نے فوراً اسے گرفتار کرکے ہوائی جہاز سے ایبٹ آباد بھیج دیا گیا تاکہ اسے عوام کے قہروغضب سے بچایا جاسکے۔ پولیس کی بھاری نفری جائ واقعہ پر پینچ گئی اور تمام غیر ملکیوں کو اپنے اپنے گھروں میں رہنے کی تلقین کی۔ پولیس نے عوام کو خوفزدہ کرنے اور منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

ایک مقامی عالم دین عبدالعزیز نے مشتعل عوام کو صبروتحمل سے کام لینے کا درس دیا۔ انہوں نے عوام کے سامنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ معاملے کی پوری جانچ پڑتال اور تحقیق کے بغیر کسی کو بھی مشتعل ہونے کی اجازت نہ دیں۔ انہوں نے عوا م کو شریعت کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح توہین مذہب پر سزا ہےاسی طرح کسی پر ناحق الزام لگانے والوں کے لئے بھی سزا ہے اس لئے تحقیق ضروری ہے اور جو لوگ ناحق اشتعال انگیزی کرتے ہیں ان کی بھی تحقیق ضروری ہے۔ ہماری چینی عملے ، گواہان اور پولیس کے ساتھ میٹنگ جاری ہے ۔ عدالت سے جو بھی فیصلہ ہوگا ہمیں من وعن قبول ہوگا۔ انہوں نے مزید فہم وفراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ ملزم غیر مسلم ہے اس لئے اسے ہمارے دین کی حساسیت اور تقدس کا احساس نہیں ہے۔ اس لئے آج جرگے کے ذریعے عوام الناس اور علاقے میں کام کرنے والی چینی کمیونٹی کو ایک جامع پیغام بھی دے دیا جائیگا تاکہ آئندہ ایسے حالات نہ پیدا ہوں۔ مولانا عبدالعزیز نے مزید فہم وفراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ یہ ایک الزام تھا اور ابھی معاملے کی پوری تحقیق سامنے نہیں آئی تھی لہذا چینی شہری کی گرفتاری سے ان کی حفاظت کرنا بھی مقصود تھا۔

اس واقعے سے پاکستانی حکومت ، پولیس اور علماء کا دوہرا رویہ بلکہ منافقت پوری طرح عیاں ہوگئی۔چونکہ اہانت کا ملزم ایک چینی شہری تھا اس لئے اس کے قتل سے پاکستان اور چین کے درمیان ایک سیاسی بحران پیدا ہوسکتا تھا اس لئے حکومت حرکت میں آئی۔ حسب معمول مقامی ملاؤں نے عوام کو اشتعال دلایا اور لوگ اس کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ لیکن حکومت نے ایک عالم دین کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے عوام کو عدالت کا فیصلہ ماننے کا درس دیا اور بلا تحقیق کسی کے خلاف الزام لگانے اور اس کے خلاف تشدد کرنے کو اسلام کے منافی قرار دیا۔ پولیس نے ملزم کو بچانے کے لئے اسے ہوائی جہاز سی ایبٹ آباد بھیج دیا۔ ظاہر ہے معاملہ چین کا ہے اس لئے طئے ہے کہ عدالت ملزم کو باعزت بری کردے گی اور کوئی ملا نہ ججوں کو کافر قرار دے گا اور نہ ہی حکومت کے سربراہوں کو۔ کیونکہ معاملہ چین سے ہے۔ جبکہ خود پاکستان کے شہری چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم توہین کے جھوٹے الزامات میں مشتعل عوام کے ہاتھوں ہلاک کردئے جاتے ہیں۔ پولیس انہیں بچانے کی بجائے فرار ہو جاتی ہے۔ گورنر سلمان تاثیر نے کوئی توہین نہیں کی تھی بلکہ صرف توہین سے متعلق قانون کو بدلنے یا ہٹانے کا مطالبے کررہے تھے۔ صرف اس بات پر ملاؤں نے ان کے خلاف عوام۔کو اشتعال دلایا اور ان کے ہی باڈی گارڈ نے ان کا قتل کردیا ۔آسیہ بی بی نامی عیسائی عورت پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ عدالت نے اسے بے قصور قرار دیا لیکن پھربھی اسے جنونی افراد سے جان کو خطرہ تھا۔ اس لئے اس نے پاکستان چھوڑ کر کناڈا میں پناہ۔لی۔ اس وقت ان علماء نے نہیں کہا کہ عدالت کا فیصلہ ہمیں من وعن قبول ہے۔ایسے درجنوں افراد ہیں جن پر لگائے گئے الزام۔کی تحقیق نہیں کی گئی اور انہیں عوام نے ہلاک کردیا۔ یہ واقعہ پاکستان کی حکومت اور علماء کے دوہرے روئیے کوبے نقاب کرتا ہے۔

 

URL:   https://newageislam.com/urdu-section/double-standards-pakistanis-blasphemy/d/129606


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..