کنیز فاطمہ ، نیوی ایج اسلام
ایک سوال باربار پوچھا جاتا ہے کہ کیا شدید ترین غصہ کی حالت میں طلاق ہو جاتی ہے یا نہیں؟ فقہائے کرام اس سوال کا جواب اس تقیید کے ساتھ دیتے ہیں کہ غصہ کی وہ حالت جو حد جنون تک پہنچ جائے اس حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ۔اس کی تفصیلات وجزئیات زیر نظر مضمون میں ملاحظہ فرمائیں۔
ایک عورت کے شوہر عرصہ سے ہائی بلڈ پریشر (فشارِ خون) کے مریض تھے ، ان کے لیے اپنے غصہ پر کنٹرول کرنا انتہائی مشکل تھا ۔ایک مرتبہ انہوں نے شدید غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا کر لیا اور بیوی نے بھی رد عمل میں کوئی گستاخی کر دی ، اسی دوران شوہر نے بیوی کو طلاق دے دیا اور پھر دونوں نے علیحدگی اختیار کر لی ۔ کچھ دنوں بعد شوہر نے بذریعہ اولاد رجوع کی خواہش کا اظہار کیا لیکن بیوی نے اس سلسلے میں بات کرنے سے منع کر دیا پھر ایک مہینے بعد شوہر نے خود فون کیا اور رجوع کی تمنا کا اظہار کیا اور بیوی سے معذرت بھی کی پھر شوہر نے کہا انہوں نے قطعا ارادۃ طلاق نہیں دی بلکہ جو کچھ بھی ہوا وہ انتہائی غصہ کی حالت میں ہوا اور اس پر وہ انتہائی شرمندہ ہیں۔پھر بیوی نے بھی اپنی گستاخی پر معذرت کی اور پھر دونوں نے رجوع کی خواہش کا اظہار کیا ۔اس عورت نے مختلف علما سے رجوع کیا اور پھر کسی مفتی عبد القیوم ہزاروی سے فتوی طلب کیا ۔مفتی صاحب نے اپنے فتوی (بحوالہ فتوی آن لائن) میں اس طرح جواب دیا :
‘‘غصہ کی جو حالت آپ نے بتائی ہے اس میں طلاق ہو یا کوئی اور معاملہ، اس پر قانون لاگو نہیں ہوتا، لہٰذا شرعاً طلاق نہیں ہوئی، توبہ کریں اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل پن اور جنون قرار دیتا ہے اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ فقہاء غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں :
أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغيرعقله ويعلم مايقول ويقصده وهذالااشکال فيه.
الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.
الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.
پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔ (ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)
مايزيل العقل فلايشعرصاحبه بماقال وهذالايقع طلاقه بلانزاع. مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصورمايقول وقصده فهذايقع طلاقه. أن يستحکم ويشتد به فلا يزيل عقله بالکلية ولکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوی متجه.
ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ دوسرا غصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔ تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔ (ابن قيم، زاد المعاد، 5 : 215، مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار، بيروت الکويت، سن اشاعت، 1407ه)
علامہ شامی مزید فرماتے ہیں :
الجنون فنون. (جنون کئی قسم کاہوتاہے) (ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دار لفکر للطباعة والنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)
معلوم ہوا جو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلا ہوتا ہے، قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے :
ولَاعَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ. ’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔ (النور، 24 : 61)
مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : فالحرج مرفوع عنهم فی هذا. ‘‘جو مریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج و تنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے’’۔ (عبدالرحمن بن محمد، تفسير الثعالبی، 3 : 127، مؤسسه الأعلمی للمطبوعات بيروت
مزید علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں : فبينت هذه الاٰية انّه لا حرج علی المعذورين. اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔(قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دار الشعب، القاهره)
دوسری آیت کریمہ ہے : وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ. ’’اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘۔ الحج، 22 : 78
امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاصّ الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں، ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’حرج کا مطلب ہے تنگی’’ ۔
ان کے شاگرد مجاہد فرماتے ہیں : ويحتجّ به فی کل ما اختلف فيه من الحوادث ان ما ادی الی الضيق فهو منفی وما اوجب التوسعة فهو اولٰی. ’’اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جا سکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی و آسانی پیدا کرے وہی بہتر ہے۔‘‘
آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔ (جصاصّ، احکام القرآن، 3 : 251، طبع لاهور)
امام رازی فرماتے ہیں : الضيق ’’تنگی‘‘ امام رازی، تفسير الکبير، 23 : 73، طبع طهران
امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں : ضيق بتکليف مايشتد القيام به عليکم. ’’تنگی، ایسی تکلیف کا حکم دیکر جس پر قائم رہنا تم پر سخت ہو‘‘۔
(بيضاوی، انوار التنزيل و اسرار التأويل، 2 : 50، طبع مصر، محمود آلوسی، روح المعانی، 17، 190، طبع تهران. ايران)
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب علی عقله وعن النائم حتی يستيقظ وعن الصبی حتی يحتلم. ’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا مجنوں جس کی عقل پر غصہ غالب ہو، سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘ (حاکم، المستدرک، 2 : 68، رقم 2351، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الغلام حتی يحتلم وعن المجنون حتی يفيق. ’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘ (ابن حبان، الصحيح، 1 : 355، رقم 142، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه)
امام نسائی اور ابن ماجہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کی روایت کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ہے :
رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الصغيرحتی يکبروعن المجنون حتی يعقل أويفيق. ’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، چھوٹا (بچہ) جب تک بڑا (بالغ) نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقل مند یعنی سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘ 1. نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه، 2. ابن ماجه، السنن، 1 : 658، رقم 2041، دارالفکر، بيروت)
حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لا طلاق و لاعتاق فی اغلاق. ’’شدید غصہ میں نہ طلاق ہے نہ ہی غلام آزاد کرنا‘‘۔(1. حاکم، المستدرک، 2 : 216، رقم 2802، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه، 2. ابوداؤد، السنن، 1 : 258، رقم 2193، دار الفکر ، 3. ابن ماجه، السنن، 1 : 660، رقم 2046، دار الفکر، بيروت، 4. بيهقی، السنن، 7 : 357، رقم 14874، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1414ه )
علامہ عینی’’عمدۃ القاری‘‘میں اور عبداﷲ بن یوسف الزیلعی’’نصب الرایہ (شرح ھدایہ)‘‘میں لکھتے ہیں : قال أبوداؤد’’الغلاق أظنّه الغضب‘‘ امام ابوداؤد نے کہا’’میرے خیال میں اغلاق کا معنی غصہ ہے۔‘‘(1. عينی، عمدة القاری، 20 : 250، دار احياء التراث العربي، بيروت)
محمدبن ابی بکر ایوب الزرعی المعروف بابن القیم الجوزی الدمشقی متوفی 157ھ بھی اغلاق کا معنی’’غصہ‘‘ہی بیان کرتے ہیں ۔ (محمدبن ابی بکر، زادالمعاد، 5 : 214، مؤسسةالرسالة مکتبةالمنار، بيروت الکويت، سن اشاعت1407ه)
ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا : کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه. ’’ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی(دی ہوئی) طلاق کے۔‘‘( ابن انی شيبه، المصنف، 4 : 72، رقم17912، 17914، مکتبة الرشدالرياض، سن اشاعت1409ه)
کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه والمغلوب علی عقله. ’’ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پر غصہ غالب ہو۔‘‘ (ترمذی، السنن، 3 : 496، رقم1191، داراحياء التراث العربي، بيروت)
فقہائے کرام کے نزدیک شدید غصہ میں دی جانے والی طلاق کی حیثیت درج ذیل ہے۔
أرادبالجنون من فی عقله اختلال، فيدخل المعتوه وأحسن الأقوال فی الفرق بينهماأن المعتوه هوالقليل الفهم المختلط الکلام الفاسدالتدبيرلکن لايضرب ولايشتم بخلاف الجنون ويدخل المبرسم والمغمی عليه والمدهوش.
جنون (پاگل پن)کا مطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی وخلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کامطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگو میں غلط اور صحیح خلط ملط ہو لیکن معتوہ (مغلوب الغضب) نہ مارتا ہے نہ گالی گلوچ بکتا ہے، بخلاف مجنوں (پاگل)کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں۔ (ابن نجيم الحنفی، البحرالرائق، 3 : 268، دارالمعرفة، بيروت)
فالذی ينبغی التعويل عليه فی المدهوش ونحوه اناطةالحکم بغلبةالخلل فی أقواله وأفعاله الخارجةعن عادته، وکذايقال فيمن اختلّ عقله لکبرأولمريض أولمصيبةفاجأ ته فمادام فی حال غلبةالخلل فی الاقوال والافعال لاتعتبراقواله وان کان يعلمهاويريدهالأن هذه المعرفةوالارادةغيرمعتبرةلعدم حصولهاعن ادراک صحيح کمالاتعتبرمن الصبی العاقل.
مدہوش وغیرہ کی قابل اعتمادبات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال وافعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آجائے تو اس کے اقوال و افعال جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا۔ اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کہ یہ جاننا اور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار نہیں ۔ (ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه، عالمگيری 1 : 353، طبع کوئته)
عبدالرحمن الجزری ’’الفقه علی المذاهب الاربعة‘‘ ميں لکھتے ہيں
والتحقيق عندالحنفيةأن الغضبان الذی يخرجه غضبه عن طبيعته و عادته بحيث يغلب الهذيان علی أقواله وأفعاله فان طلاقه لايقع، وان کان يعلم مايقول ويقصده لأنه يکون فی حالةيتغيرفيهاادراکه، فلايکون قصده مبنياعلی ادراک صحيح، فيکون کالمجنون، لان المجنون لايلزم أن يکون دائمافی حالةلايعلم معهامايقول : فقديتکلم فی کثيرمن الأحيان بکلام معقول، ثم لم يلبث أن يهذی.
’’حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والا شخص جسے اس کا غصہ اس کی طبیعت اور عادت سے اس طرح باہرکردے کہ اس کی باتوں اوراس کے کاموں پربے مقصدیت غالب آجائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتا ہو کہ وہ کیاکہہ رہا ہے اور ارادہ سے ہی کہتا ہو کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس میں اس کا ادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آجاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔(عبد الرحمن الجزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4 : 294-295، دار احياء التراث العربی، بيروت. لبنان)
شیخ الاسلام امام احمد رضا قادری بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ بھی فرماتے ہیں : ـ غضب اگر واقعی اس درجہ شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہو گی۔(امام احمد رضا، فتاوٰی رضويه، 12 : 378، مسئله : 146)
امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرّہ کے خلیفہ و تلمیذ خاص علامہ امجد علی اعظمی مرحوم اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں : ’’یونہی اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی رہے تو (طلاق) واقع نہ ہوگی۔‘‘ (امجد علی، بهار شريعت، 8 : 7، طبع لاهور)
ان تفصیلات کے بعد مفتی عبد القیوم ہزاروی نے اس عورت کو یہ جواب دیا ‘‘صورت مسئولہ میں آپ کے بقول طلاق کے وقت آپ غصہ کی ایسی کیفیت میں تھے جس میں انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا، لہٰذا ایسی کیفیت میں طلاق نہیں ہوتی، آپ پہلے کی طرح اپنی ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔واللہ ورسولہ اعلم بالصواب’’۔
قارئین کرام ان تمام تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ غصہ کی وہ حالت جو انسان کو جنون کی حد تک پہنچا دے یعنی اس طرح کہ اس حالت میں انسان اپنے عقل پر قابو نہ رکھ پائے بلکہ اس کی عقل چلی جائے تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/divorce-talaq-take-place-state/d/118509
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism