ادیس دودیریجا، نیو ایج
اسلام
7 جون 2024
خدا اور انسانیت کے
درمیان تعلق، انسان کے اندر ودیعت کی گئی آزادی کی وجہ سے، فطری طور پر تغیر پذیر
ہے۔ جس طرح ایک ڈرامے میں، اداکار اپنے رنگ روپ اور چال ڈھال کے مطابق کارکردگی کا
مظاہرہ کرتے ہیں، اسی طرح انسانوں کی بھی اپنی اپنی جداگانہ جمالیاتی حساسیت ہوتی
ہے، جس کا اثر ان کے اعمال اور فیصلوں پر مرتب ہوتا ہے۔
-------
ایک طویل عرصے سے، (Art)فنون لطیفہ کا
استعمال، معرفت الہی کی تلاش اور اس کی تفہیم کے لیے، ایک استعارے کے طور پر کیا
جاتا رہا ہے۔ تاہم، انسانوں کے ساتھ خدا کے تعلق پر غور کرتے وقت، تعامل کی
پیچیدگیوں اور تخلیق کی متحرک نوعیت پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں، ایک
کورس ڈائریکٹر یا تھیٹر پرفارمنس کے ڈائریکٹر کی مثال، ایک مصور یا شاعر کے
مقابلے،خدا کے کردار کو سمجھنے میں سب سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہی بات، آج کی
دنیا کے ایک سرکردہ پروسیس تھنکر، ڈینیئل ڈومبروسکی نے اپنی کتاب پراسیس مسٹسزم
میں کہی ہے۔ انسانوں کی فطری آزادی اور جمالیاتی حساسیت کو تسلیم کرتے ہوئے، ہم
کثرت میں وحدت کے گہرے تصور، اور صوفیانہ تجربات کی انقلابی طاقت کا جائزہ لے سکتے
ہیں۔
دی کورس ڈائریکٹر: انسانی
ڈرامہ کی فن سازی
تھیٹر کی اداکاری میں،
ایک کورس ڈائریکٹر، اداکاروں کی رہنمائی، بیانیہ کی تشکیل، اور مجموعی فنکارانہ
نظریہ کو مربوط کرنے میں، ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح، جب ہم خدا کو ایک
کورس ڈائریکٹر کے طور پر دیکھتے ہیں، تو ہم تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، کہ خدا
ان انسانوں کے ساتھ تعامل کرتا ہے، جو اپنے اختیارات، جمالیاتی حساسیت، اور آزادی
کے مالک ہوتے ہیں۔ کسی مصور یا شاعر کے برعکس جو تنہائی میں اپنا تخلیقی کارنامہ
انجام دیتے ہیں، خدا کا تخلیقی عمل، آزاد مخلوق کے ساتھ تعامل کو شامل ہے، جن میں
سے ہر ایک کا اپنا منفرد نقطہ نظر اور فیصلہ ہوتا ہے۔
خدا اور انسانیت کے
درمیان تعلق، انسان کے اندر ودیعت کی گئی آزادی کی وجہ سے، فطری طور پر تغیر پذیر
ہے۔ جس طرح ایک ڈرامے میں، اداکار اپنے رنگ روپ اور چال ڈھال کے مطابق کارکردگی کا
مظاہرہ کرتے ہیں، اسی طرح انسانوں کی بھی اپنی اپنی جداگانہ جمالیاتی حساسیت ہوتی
ہے، جس کا اثر ان کے اعمال اور فیصلوں پر مرتب ہوتا ہے۔یہ غیر متوقعیت، انسانی
ڈرامے میں گہرائی و گیرائی کا اضافہ کرتی ہے، کیونکہ یہ مختلف امکانات اور نتائج کو
سمجھنے کی گنجائش پیدا کرتی ہے۔
صوفیانہ تجربہ: کثرت میں
وحدت
صوفیانہ تجربات میں، اکثر
فناء یا ذات باری کے ساتھ تعلق کا گہرا احساس پیدا ہوتا ہے۔ تاہم، اس فناء سے صوفی
کی انفرادیت کی نفی یا اس کا خاتمہ لازم نہیں آتا۔ بلکہ یہ ذات باری کے ساتھ بقاء
اور انفرادی شناخت کے تحفظ سے عبارت ہے۔ اس مقام پر، کثرت میں وحدت کا دو قطبی
اصول کارفرما ہے۔
صوفیانہ سفر تبدیلی اور
انقلاب سے بھرپورہے۔ صوفی فناءنہیں ہوتا، بلکہ ایک گہری تبدیلی کے عمل سے گزرتا
ہے، جہاں ایک انسان، ذات باری میں فناء ہو کرمزید بلند و بالا ہو جاتا ہے۔ تبدیلی
کا یہ عمل، وسیع تر کائناتی حقیقت کے ساتھ، انسان کی انفرادیت کو ہم آہنگ کرنے کا
موقع فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں کثرت میں وحدت کا نمونہ اجاگر ہوتا ہے۔
الہی تضاد کو تسلیم کرنا
ایک کورس ڈائریکٹر کے طور
پر خدا کو دیکھنے سے، ہمارے اندر انسانی تجربے میں شامل الہی تضاد کو قبول کرنے کی
صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ وحد اور کثرت کے بقائے باہمی کو تسلیم کرتا ہے، اور یہ
مانتا ہے کہ دونوں تخلیقی عمل کے ناگزیر پہلو ہیں۔ جس طرح ایک کورس ڈائریکٹر
رہنمائی کرتا ہے، اور مختلف افراد پر مشتمل ایک جماعت کو اکٹھا کرتا ہے، کہ وہ ہم
آہنگی کے ساتھ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کریں، اسی طرح خدا انفرادی زندگیوں اور
انسانوں کے فیصلوں کو، ایک عظیم تر مقصد کی تخلیق کے لیے ترتیب دیتا ہے۔
یہ تفہیم ہمیں تمام
مخلوقات کے تنوعات اور انفرادیت کو قبول کرنے کی ترغیب دیتی ہے، یہ تسلیم کرتے
ہوئے، کہ ان میں سے ہر ایک کا زندگی کے عظیم ترین مقصد کی تکمیل میں، ایک اپنا
کردارہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے باہمی تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے، دوسروں
کے منفرد نقطہ نظر اور فیصلوں کا احترام کریں۔
خدا اور انسانیت کے
درمیان تعلق پر غور کرنے کے لیے، یہ ضروری ہے، کہ ہم سادہ استعاروں سے آگے بڑھیں،
اور ایک مزید محتاط رخ اپنائیں۔ خدا کو ایک کورس ڈائریکٹر یا تھیٹر پرفارمنس کے
ڈائریکٹر کے طور پر دیکھنا، ایک مضبوط نمونہ پیش کرتا ہے، جس میں آزادی، جمالیات،
اور کثرت میں وحدت کے درمیان پیچیدہ تعامل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
انسانوں کے انفرادی
اختیارات اور جمالیاتی حساسیت کو پہچان کر، ہم انسانی ڈرامے کی غیر متوقع نوعیت کا
احترام کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، صوفیانہ تجربات کو، فناء اور انفرادی شناخت کے
امتزاج سے عبارت مان لینا، ہمیں تعلق الہی کی انقلابی طاقت کو سمجھنے کے قابل
بناتا ہے۔
آج جبکہ ہم وجود کی
پیچیدگیوں سے گھرے ہوئے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم اپنے اپنے اختیارات اور تخلیقی
صلاحیت کو پہچانتے ہوئے، فنکار اور اداکار دونوں کے کردار کو قبول کریں۔ ایسا کر
کے، ہم زندگی کے عظیم مقصد کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، جس کی
رہنمائی سب سے بڑا فنکار یعنی کورس ڈائریکٹر کرتا ہے، جو ہماری انفرادی کہانیوں
کو، کثرت میں وحدت کے گلدستے میں بُنتا ہے۔
English
Article: The Divine Chorus Director: A Better Model for
Understanding the Relationship between God and Humanity
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism