پروفیسر اخترالواسع
27 ستمبر، 2012
اسلامی فکر اور مسلم سماج کی تشکیل
و تعمیر میں مدارس کا کردار نہایت اہم رہاہے۔ زندگی کا کوئی میدان اور سماج کا کوئی
شعبہ ایسا نہیں جو مدارس کے دائرہ اثر سے باہر ہو۔ ماضی میں مدارس، علم و فکر کا مرکزی
سرچشمہ تھے، جس کے دھارے سماج کی ہر سمت اور جہت میں بہتے تھے۔ دین کے شارحین و مبلغین
بھی یہیں سے پیدا ہوتے تھے اور دنیا کے کاروبار، تمدنی امور کی ذمے داری نبھانے والے،
نظام سیاست کے چلانے والے بھی۔ ہر طرح کے دماغ یہیں ڈھلتے اور ہر طرح کی صلاحیتیں یہیں
پرورش پاتی تھیں۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ تاج محل کا آرکیٹکٹ احمد لاہوری، حضرت شیخ
احمد سرہندی مجدد الف ثانی اور وزیر سلطنت سعد اللہ ایک ہی درسگاہ کے فارغ تھے۔
بدقسمتی سے دور جدید میں مسلمانوں
کے فکری زوال کی بنیاد پر ان کے اندر غلط اور تکلیف دہ تصورات پیدا ہوئے ہیں ان میں علم کی دینی اور دنیاوی
خانوں میں تقسیم اور تفریق بھی شامل ہے۔ اس تفریق کا قرآن و سنت سے کوئی ثبوت پیش
نہیں کیاجاسکتا۔ علم ایک کلی وحدت ہے جس کی تقسیم کے کوئی معنی نہیں۔ اسلام میں اس
کی تقسیم نافع اور غیرنافع کی ہے۔ رسول کی حدیث کا یہ مشہور ٹکڑا ہے کہ :’’ اے اللہ
میں علم غیرنافع سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔ اسی طرح وحی قرآن کاپہلا جملہ ہے۔ترجمہ:’’اپنے
رب کے نام سے پڑھو‘‘۔ ان دونوں نصوص کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا جو علم بھی
اللہ کے نام سے (باسم الرب) حاصل کیا جائے
اور جو علم بھی نفع بخش ہو، وہ عین اسلامی اور دینی علم ہے، خواہ وہ ریاضی،
جغرافیہ اور سائنس ہی کیوں نہ ہو، اور وہ علم سراسر غیردینی ہے جو باسم الدنیا یعنی صرف حصول دنیا کی نیت سے حاصل کیا جائے، خواہ وہ
حدیث، تفسیر اور فقہ کا ہی علم کیوں نہ ہو۔ تاریخ میں اس کی مثالیں موجودہیں کہ خالص
دینی علم کو بھی بغرض دنیا حاصل کرنے کا چلن عام رہا ہے۔ چنانچہ امام غزالی نے اپنے
زمانے کے ایسے طالبین فقہ کی شدید نکیر کی ہے جو اسے خالص دنیاوی مقاصد کے لئے یعنی
قاضی، یتیموں کے مال کا والی یا اوقاف کا ذمے دار بن کر دولت کمانے کے لیے حاصل کرتے
تھے۔
مدارس کی پوری تاریخ میں یہ
تفریق کبھی روا نہیں رکھی گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے اس تفریق کی باضابطہ ابتدا غالباً۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کی
تاسیس سے ہوئی، لیکن بانی دیوبند کی نظر میں تاریخ کے ایک خاص مرحلے اور خاص ماحول
کے تقاضوں کے سیاق میں یہ ایک وقتی ضرورت تھی نہ کہ دائمی۔ اس کا اشارہ ان کے ان خاص
جملوں سے ہوتاہے جو انہوں نے دارالعلوم کے ثنویت تعلیم پر مبنی نصاب کے اجرا پر سوال
قائم کرنے والوں کے جواب میں ادا کئے تھے:’’آج کل علوم جدیدہ بوجہ کثرت مدارس سرکاری
ترقی پر ہیں۔ ہاں علوم قدیمہ کا ایسا تنزل ہواہے کہ کبھی نہ ہوا ہوگا۔ ایسے وقت میں
رعایا کو مدارس علوم جدیدہ کا بنانا تحصیل حاصل نظر آیا‘‘۔وہ سمجھتے تھے کہ’ ’جو دیوار
ابھی گری نہیں اس کی فکر بجز نادانی اور کیا ہے۔‘‘ اس اعتبار سے یہ نصاب ایک وقتی اور
عبوری نصاب تھا۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کی
پوری تحریک اصلاح نصاب کولے کر اٹھی تھی۔ مولانا سلمان حسینی نے بجا طور پر اپنی کتاب’
ہمارا نصاب تعلیم کیا ہو؟‘ میں لکھا ہے کہ’’ مولانا محمد علی(مونگیری) نے دینی مدارس
کا جو خاکہ پیش فرمایا تھا، وہ اس بلند نظری ،عالی حوصلگی اور عظیم تصورات پر مبنی
تھا کہ اگر ان پر واقعی عمل ہوجاتا تو صفہ نبوی کے فارغین کی یاد تازہ ہوجاتی‘‘۔تعلیمی
نظام کی موجودہ ثنویت جس کی پورے جوش ایمانی کے ساتھ ہر طرح سے مدافعت و حمایت کی جاتی
ہے، غیراسلامی عہد یا استعماری نظام کی پیدا وار ہے۔ استعمار نے اپنی فکری روایت کے
تحت مسلمانوں کے اندر غیرمحسوس طور پر اس مزاج کی تشکیل کی کہ دین اور دنیا دو الگ
الگ دھارے ہیں اور تمدنی ضروریات کا تعلق دنیاوی دھارے سے ہے۔ اس نے مسلمانوں کے اندر
تحفظ پسندی کی ایسی نفسیات پیدا کی کہ دین کا درد رکھنے اور ملت کی نگہبانی کا فریضہ
انجام دینے والے مخلصین نے بھی اس میں عافیت جانی کہ دین کے تعلیمی ڈھانچے کو کسی بھی طرح سے محدود سے محدود
شکل میں باقی رکھنے اور اس کے دفاعی نظام کو پائیدار بنانے کے لئے اس کو محفوظ رکھنے
کی کوشش کی جائے۔ باشعور علما نے اس ثنویت کو عام طور پر کبھی پسند نہیںکیا۔ مولانا
ابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے کہ:تعلیم کی موجودہ ثنویت یا دوئی غیراسلامی اقتدار کے
عہد کی بدولت ہے۔ پہلے ہمارا نظام تعلیم و حدانی اور سا لمیت پر مبنی تھا۔ ہمارا قدیم نصاب تعلیم جس کی
درس نظامی نمائندگی کرتا ہے مسلمانوں کے عہد حکومت میں ملک کا واحد نظام تعلیم اور
ثقافت، ذہنی تربیت کا واحد ذریعہ تھا۔ یہ جہاں محدث، فقیہ اور مدرس تیار کرتا تھا،
وہاں سول سروس کے عہدے دار اور ارکان سلطنت بھی مہیا کرتا۔ اس درس کی پیداوار جس طرح
محب اللہ بہاری اور ملا حکیم سیالکوٹی تھے،اسی طرح علامہ سعداللہ وزیر سلطنت بھی تھے۔
یہی حال دوسرے ملکوں میںبھی تھا کہ دینی و دنیوی تعلیم کے دو الگ الگ نصاب اور نظام
نہیں تھے۔ چناں چہ سب کو علم ہے کہ مشہور ریاضی داں اور شاعر عمر خیام اور سلطنت سلجوقیہ
کا وزیر با تدبیر نظام الملک طوسی دونوں ایک ہی حلقۂ درس کے شریک اور ایک ہی تعلیم
کی پیداوار تھے۔
تعلیم کی اس ثنویت کے نقصانات
پر سب سے زیادہ شدت کے ساتھ توجہ دلانے والی شخصیت مولانا مناظر احسن گیلانی کی تھی
جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور روایت پسند علماء کے سرخیل اور معتمد علیہ عالم تھے۔
ان کی کتاب ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت اس موضوع پر ان کی تحقیقی بصیرت
کی شاہد عدل ہے۔ انہوں نے ۱۹۴۵ء
میں معارف، اعظم گڑھ کے مئی کے شمارے میں ’میرا مجوزہ تعلیمی خاکہ‘ کے عنوان سے اس
موضوع پر وضاحت اور بصیرت کے ساتھ لکھا اور ’نظریہ وحدت تعلیم‘ کے عنوان سے اپنی تعلیمی
تجویز پیش کی جس میں وہ وحدانی منہج تعلیم کے ذریعہ (ان کے لفظوں میں) ’’مسٹر اور مُلّا‘‘
یا ’’عالم اور تعلیم یافتہ‘‘ کی تفریق کو ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اب ان کا یہ خاکہ
ان کی مذکورہ کتاب(سال اشاعت ۲۰۰۷)
کے دوسرے حصے کے آخر میں ضمیمے کے طو رپر ’مسلمانان ہندکا
نظام تعلیم و تربیت‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا گیلانی جیسا برصغیر
ہند میں مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور اس کی ضرورتوں پر نگاہ رکھنے والا کوئی دوسرا
شخص پیدا نہیں ہوا۔ لیکن یہ تعجب کی بات ہے کہ ان کی آواز اس تعلق سے صدابہ صحرا ثابت
ہوئی۔ کہاں تو وسعت نظر اور روشن فکر کا یہ عالم کہ پورے نظام پر نظرثانی اور اس میں
تبدیلی کی دعوت دی جائے اور کہاں تنگ نظری اور جمود کی یہ صورت حال ہے کہ پیش پا افتادہ
اور غیر ضروری مضامین کے بار کو ہلکا کرنے پر بھی طبیعتیں آمادہ نہیں ۔
ڈ اکٹر ظفر الاسلام اصلاحی
جو عہد وسطیٰ کے ہندوستان میںتعلیم پر ’’تعلیم عہد اسلامی کے ہندوستان میں‘‘ جیسی قابل
ذکرکتاب کے مصنف ہیں، نے لکھا ہے کہ:’’ دستیاب معلومات کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ
ہوگا کہ عہد وسطیٰ کا نصاب تعلیم علوم عقلیہ و نقلیہ کا جامع تھا یا موجودہ دور کی
اصطلاح میں اسلامی اور عصری دونوں قسم کے علوم داخل نصاب تھے‘‘ (گویا موجودہ تقسیم
نہیں تھی)۔
ملک میں ان دو دھاروں میں
تعلیم کی تقسیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ خود مسلمانوں کے اندر دو حریف گروپ ایک
دوسرے کے مدمقابل آگئے۔ ایک گروپ دوسرے گروپ کو دین سے بے گانہ اور بسا اوقات دین
کا دشمن تصور کرتاہے اور دوسرا گروپ پہلے گروپ کو دنیا سے بے خبر، زمانے کے تقاضوں
سے بے بہرہ اور دین کا نادان دوست تصور کرتا ہے۔ اس لیے شدید ضرورت ہے کہ ان دو متحارب
نظاموں اور حلقوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس بنیاد پر ہی ایسی
تعلیم یافتہ اور اسلامی وژن رکھنے والی نسل تیار ہوسکتی ہے جو معاصر تقاضوں کے مطابق،
دین او رملک و ملت کی خدمت انجام دینے والی ہو۔
نصاب میں اصلاح کی آوازپچھلی
کم و بیش دوصدیوں سے سنائی دے رہی ہے۔سر سید سے لے کر ابو الکلام آزاد اور سعید احمد
اکبر آبادی تک شدت کے ساتھ اس کی حمایت میں آواز بلند کی جاتی رہی ہے۔سرسید کا نکتہ
نظر تو سب پر واضح ہے کہ وہ آخری حدتک مدارس کی اصلاح اور جدید تعلیم کے حامی تھے۔اس
تعلق سے سب سے مضبوط اور متوازن نکتۂ نظر شبلی نعمانی کا تھا۔شبلی نے لکھا ہے کہ اوائل
اسلام سے لے کر آج تک ہر زمانے میں ضرورت کے موافق مذہبی تعلیم کا نصاب بدلتا آیا
ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ نصاب تعلیم اور طریقۂ تعلیم موجودہ زمانے کی ضرورت کے موافق
بدلا جائے۔
بہرحال دو ر جدید کا اہم تقاضا
ہے کہ دین اوردنیا کے نام پر تعلیم کے درمیان پائی جانے والی تفریق کوختم کرنے یا کم
ازکم ممکنہ حد تک ان دونوں نظاموں کے درمیان پیداہوجانے والے فاصلوںکو کم کرنے کی کوشش
کی جائے۔اس کے بغیراسلام کے فکری غلبے اور اس کی نشاۃ ثانیہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں
ہوسکتا۔
------------
پروفیسر اخترالواسع، ذاکر
حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔
بشکریہ‑ انقلاب، دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/distribution-worldly-religious-education-/d/8817