ڈاکٹر تابش مہدی
22ستمبر،2024
علم و قلم کی دنیا میں بول چال اور بیان کرنے کے انداز کو زبان کہتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے، جو انسان اور غیرانسان کے درمیان دیوار کھڑی کرتی ہے۔ انسان وہی ہے، جس کے اندر نطق و گویائی ہو اور وہ اپنی ضروریات کے اظہار کیلئے حرف و صوت کا سہارا لینے پر قادر ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یا تو ہم اُسے گونگا کہیں گے یا حیوان۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس شخص کا بولنے چالنے، ادائے روز مرّہ اور مافی الضمیر کے اظہار کا انداز، جتنا معیاری اور اعلیٰ ہوگا، اتنا ہی اعلیٰ اور معیاری اس کا وہ پیام ہوگا، جسے وہ کسی ضرورت کے پیشِ نظر کسی فرد یا اجتماع تک پہنچانا چاہے گا۔
دُنیا میں بولی یا سمجھی جانے والی زبانوں کا شمار دشوار ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان جنت نشان میں درجنوں زبانیں بولی، سمجھی اور لکھی، پڑھی جاتی ہیں۔ سب کا اپنا اپنا انداز اور ڈھب ہے۔ یہ سب اپنے علاقوں کے باشندوں کے ذریعے سے ان کی ضروریات کے مطابق وجود میں آئی ہیں۔ اردو بھی ایک زبان ہے۔ اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ بلاشبہ، یہ دنیا کی بڑی اور عظیم علمی و تہذیبی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اِس کا امتیاز یہ ہے کہ یہ کسی قوم، ملک یا خطۂ ارض تک محدود نہیں ہے اور نہ کسی مذہب و ملّت کے زیر ِ اثر وجود میں آئی ہے۔ ہر علاقہ و دیار اور ہر قوم و مذہب کے لوگ اسے بولتے، سمجھتے اور لکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی اِسے اچھی طرح بولتے اور سمجھتے ہیں، جو کسی غلط فہمی کی وجہ سے اِسے پسند نہیں کرتے۔ لطف تو یہ ہے کہ وہ اس کی مخالفت بھی اِسی کے الفاظ اور محاوروں کا سہارا لے کر کرتے ہیں۔
اردو، دنیا کی متعدد چھوٹی بڑی زبانوں کے آمیزے سے وجود میں آئی۔ سب سے اس نے حسب ضرورت استفادہ کیا ہے، اپنے دامن کو موتیوں سے بھرا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی ہے۔ آپ اِس میں بے شمار زبانوں کے اچھے، صاف ستھرے اور دلوں میں جگہ پیدا کرنے والے الفاظ پائیں گے۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں اور علمی دنیا کے متعدد علما اور دانشوروں کے اقوال سے اس کی تائید و تصویب ہوتی ہے کہ اردو زبان خالص صحبتی، تربیتی اور تہذیبی زبان ہے۔ اس کی شیرینی، مٹھاس، نزاکت، تاثیر اور خوشبو کو وہی لوگ محسوس کرسکیں گے جنہوں نے ایسی مجلسیں، محفلیں اور صحبتیں پائی ہیں، جہاں اس کی آرائش و زیبائش کا التزام ملتا ہے اور مسلسل اس کا انداز و اسلوب، محلِ استعمال، محاورات اور روز مرّہ ان کا موضوعِ گفتگو رہتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور نزاکتوں تک محض لغات یا سندوں اور ڈگریوں کے ذریعے نہیں پہنچاجاسکتا۔
اردو کا دائرہ بہ تدریج پھیلتا اور وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اِس کو بولنے، سمجھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پوری دنیا میں اردو کی نئی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں۔ یورپ، امریکہ، عرب ممالک، امارات اور دور و نزدیک کے دوسرے ممالک میں کسی نہ کسی سطح پر اس کے فروغ و ارتقاء کے سلسلے میں کوششیں ہورہی ہیں۔ ہمہ وقتی یا شبینہ و صباحی مدارس و مکاتب قائم ہورہے ہیں۔ وہاں آئے دن اردو کی مجلسیں اور محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ چھوٹے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ میں نے پوری دنیا کی سیر تو نہیں کی لیکن یورپ کے مختلف ممالک، عرب، گلف، امارات اور دوسرے پڑوسی ملکوں میں جہاں بھی گیا ہوں، اردو ہی کے حوالے سے گیا ہوں۔ ہر جگہ مشاہدے میں یہی بات آئی ہے کہ وہاں جہاں بھی شعری یا نثری محفلیں منعقد ہوئیں، وہ اپنی معنویت اور اثرات کے اعتبار سے دوسری زبانوں کے پروگراموں پر فائق رہی ہیں۔
اردو زبان اپنی مذکورِ بالا تمام خوبیوں اور انفرادیتوں کے باوجود بعض پریشان کن اور ترقی کی راہ میں موانع پیدا کرنے والے مسائل سے بھی دوچار ہوتی رہی ہے۔ اُن میں اس کا تلفظ اور املا دونوں سرِ فہرست ہیں۔ اِن دو چیزوں نے اردو کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں اور دشواریاں پیدا کی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اِن پہلوؤں سے بے پناہ بے احتیاطی اور بے اعتدالی پائی جاتی رہی ہے۔ اب بھی پائی جاتی ہے۔ یہ مسائل صرف عوام یا کم خواندہ طبقے تک محدود نہیں، اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ افراد، مصنفین اور ارباب درس و تدریس بھی ان کا شکار رہے ہیں۔ اُنہوں نے جامعات کی اعلیٰ ڈگریاں اور عالم و فاضل کی سندیں حاصل کرکے اردو کے نام سے خود کو ممتاز و نمایاں تو کیا، اسے روزی روٹی کا بھی ذریعہ بنایا، لیکن مذکورِ بالا مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے کبھی غور نہیں کیا۔ نہ اس کی ضرورت محسوس کی۔ جب ان کے سامنے اس سلسلے میں کوئی بات آئی، انہوں نے اس کو شے مستزادتصور کیا یا اس سے چشم پوشی کی۔
اپنے اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں یہ گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ الفاظ اور ان کا اِملا ایک تفصیلی موضوع ہے۔ کسی مختصر مضمون یا گفتگو میں نہ اِس کا احاطہ ممکن ہے اور نہ مَیں علم و فضل کے اس مقامِ بلند پر فائز ہوں کہ تھوڑے سے وقت میں اِس کا حق ادا کرسکوں۔ میری آج کی اس گفتگو کی حیثیت بس اتنی ہے کہ میں تعلیم و تعلم سے تعلق رکھنے والے بھائیوں اور تقریر، تحریر اور تصنیف و تالیف سے دلچسپی رکھنے والے عزیزوں کو اِس بات کا احساس دلادوں کہ ہمیں تقریر یا تحریر میں زبان و بیان اور تلفظ واملا کے سلسلے میں کس حد تک باخبر اور محتاط رہنا چاہئے۔
علم و ادب، تحریر و تصنیف اور تقریر و خطابت کی دنیا میں الفاظ اور اُن کے تلفظ کی ہمیشہ اور ہر دور میں اہمیت رہی ہے۔ علما اور اربابِ نظر نے ہمیشہ ان کی معنویت، لغوی حیثیت، محلِ استعمال، تلفظ اور طرز ادا پر زور دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تحریر یا تقریر کی عمارت جملوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جملے الفاظ سے بنتے ہیں۔ الفاظ کے بغیر ابتدائیہ، خبریہ یا انشائیہ جملوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں یہ بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے کہ اصل حیثیت الفاظ کی ہے۔ تقریر یا تحریر کا اصل حسن اسی وقت سامنے آتا ہے، جب اِس بات کا پورا پاس و لحاظ رکھا گیا ہو کہ اس میں زیر ِ استعمال الفاظ کی لغوی حیثیت کیا ہے، ان کا تلفظ کیا ہے، ان کی ادائی کس طرح ہوئی ہے اور جہاں اور جس سلسلے میں جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، وہاں وہی لفظ مناسب ہے یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے تھا؟ اِس احساس سے انحراف کرکے جو عبارت لکھی جائے گی یا بات کی جائے گی، وہ صاحب نظر قاری یا سامع کیلئے تکلیف دِہ اور اذیت ناک ہوگی۔ وہ تقریر یا تحریر اپنے موضوع کی اہمیت و ناگزیری کے باوجود بے اثر اور غیرمفید رہے گی۔ جو لوگ تقریر، تحریر یا اپنی عام زندگی میں موقع و محل کا خیال نہیں رکھتے، وہ کبھی اپنے مقصد میں کام یاب نہیں رہتے۔ اِس موقعے پر ہمارے ممدوح، مخدوم اور بزرگ تحریکی رفیق حضرت مولانا ابوالبیان حماد عمریؒ یاد آگئے۔ انھوں نے ایک بار برسبیل تذکرہ بتایا تھا کہ ستّر کی دہائی میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کے ایک پروگرام میں میری سفارش پر علی گڑھ کے ایک بہت بڑے اسکالر کو مدعو کیا گیا تھا۔ چونکہ وہ صاحب تحریک اسلامی سے تعلق رکھتے تھے اور میں نے ہی ذمہ دارانِ جامعہ سے ان کی سفارش کی تھی، اِس لئے میں مستقل ان کے ساتھ رہا۔ ان کے قیام و طعام اور دوسری سہولتوں کیلئے بھی مَیں ہی پیش پیش رہا۔ پروگرام میں لے جانے سے پہلے تنہائی میں، میں نے اُن سے عرض کیا: ’’محترم! تمل ناڈو کا یہ نارتھ آرکاٹ کا ایریا بعض معاملات میں بہت حساس واقع ہوا ہے۔ اِس دیار میں اردو زبان اور سر پہ ٹوپی کسی مسلمان کی پہچان تصور کی جاتی ہے۔ مناسب ہوگا کہ اسٹیج پر جائیں تو آپ کے سر پر ٹوپی ضرور رہے۔ ‘‘ مولانا محترم نے فرمایا کہ ان کی یہ بات سن کر مہمان صاحب چراغ پا ہوگئے۔ کہا: ’مولانا حمادؔ صاحب! دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، آپ لوگوں کی قدامت اور دقیانوسی اب تک نہیں گئی؟‘ چنانچہ وہ ٹوپی کے بغیر ہی اپنے ماڈرن حلیے اور لباس میں اسٹیج پر تشریف لے گئے۔ ان کا بہت جامع تعارف کرایا گیا اور بڑا قیمتی اور گراں قدر خطبہ انھوں نے پیش کیا۔ خطبہ کیا تھا حکمت و بصیرت کا ایک حسین مرقع تھا لیکن سامعین اس کی افادیت سے محروم رہے۔ مجمع میں شروع سے آخر تک انہی کے سلسلے میں چہ می گوئیاں ہوتی رہیں۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے ان کے اور انہی کی وجہ سے تحریک اسلامی کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔ نہ سنجیدگی سے خطبہ سنا اور نہ استفادہ کیا۔
لفظ یا جملے میں اِملا ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اِسی سے مصنف یا محرّر کی پہچان ہوتی ہے۔ ویسے املا تحریروں میں ہی دیکھا اور جانا جاتا ہے، لیکن کبھی کبھی یہ تقریر میں بھی اپنا رنگ دکھا دیتا ہے۔ جیسے: لفظ شخص میں شین پر زبر ہے، خا اور صاد ساکن ہے۔ اِسے اگر کوئی شَخص، شین اور خا دونوں کو زبر کے ساتھ بولتا یا لکھتا ہے تو وہ تحریر میں نہیں، تقریر میں پہچانا جائے گا۔
22ستمبر،2024، بشکریہ: انقلاب،ممبئی
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/distinctive-urdu-nation-country-region/d/133264
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism