ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
27 اپریل 2025
کسی بھی معاشرے پر اثر اس معاشرے کے بااثر افراد یا مذہبی، سیاسی شخصیات کا ضرور ہوتا ہے اس تناظر میں جب ہم اپنے ہندوستانی معاشرے کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ ایک طبقہ تو وہ ہے جو معاشرے کو مسلکی اختلافات کے نام پر تقسیم کرتا ہے جسے آ سان لفظوں میں دینی گروہ کہا جاسکتا ہےاور ایک طبقہ وہ ہے جو بظاہر سیاست داں ہے لیکن اس نے ملک کو دین ودھرم کے نام پر نہ صرف تقسیم کیا ہے بلکہ مذہب کے نام پر اس قدر نفرت پھیلائی کہ اب اس کی نظیریں آ ئے دن دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ معاشرے کو مسلک کے نام پر بانٹا جائے یا ہندو مسلم کا پاٹھ پڑھایا جائے مقصد دونوں کا ایک ہی اور وہ ہے معاشرے کے پر امن ماحول کو بگاڑنا، نفرت اور بیزاری پیدا کرنا انسانیت کی بنیاد پر رشتوں کو منقطع کرنا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ سماج کوئی بھی ہو اس کا کسی بھی دین ودھرم سے تعلق ہو ، اس کی تہذیب و ثقافت کچھ بھی ہو، دنیا کے کسی بھی خطے میں وقوع پذیر ہو، بنیادی طور پر ہر طرح کے سماج میں جو چیز یکساں ہے وہ ہے امن و امان اور محبت و مودت ۔ تصور کیجیے جس معاشرے سے امن کا خاتمہ ہوجائے یا اس میں رہنے والے افراد بد عنوانی یا بد امنی پر اتر آ ئیں تو ایسا سماج کسی بھی محاذ پر کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوسکتاہے ؟ لہذا معاشرے کو اگر سیاسی اور اقتصادی طور پر یا دیگر بنیادی امور و معاملات میں مستحکم کرنا ہے تو ضروری ہے کہ امن کے پیغام کو عام کیا جائے ۔ رواداری کی تعلیمات سے جوڑا جائے ، مذہب ودھرم کے امتیاز کو معدوم کیا جائے ۔
خصوصاً سماج کے نوجوانوں کو فلاحی اور تعمیراتی منصوبوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ جب معاشرتی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں میں دلچسپی لی جانے لگے گی تو پھر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ سماج یکایک تمام طرح کی خرافات سے پوری طرح محفوظ ہو جائے گا۔
آ ج ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشرے میں محبت کم نفرت زیادہ گھولی جارہی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اب نفرت کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا جارہاہے۔ کہیں مذہب کو مذہب کا دشمن بتایا جارہاہے تو کہیں تاریخ وروایات کی بناء پر دشمنی پیدا کی جارہی ہے، یقیناً اس سے معاشرے میں عجیب طرح کی کشمکش دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جو لوگ اس کی مکروہ حرکت کا شکار ہورہے ہیں سب سے زیادہ نقصان انہی کا ہورہا ہے ۔ ایک تو یہ کہ معاشرے میں دوریاں پیدا کرکے اور مذہب کی افیم چٹا کر لوگ اپنی بنیادی ضروریات سے محروم نظر آ رہے ہیں۔ سیاست داں اس موقع کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ تمام باتیں ہمارے معاشرے کو سمجھنی ہونگی۔ نیز یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز اجتماعی مفادات کو فروغ دینے اور سماجی دوریوں کو مٹانے میں ہی مضمر ہے۔ افسوسناک بات تو یہ بھی ہے کہ اس کا اثر معاشرے کے نوجوانوں طبقے پر زیادہ ہورہاہے ، جب کہ نوجوانوں کو اپنے مستقبل اور معاشرتی ترقی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علمی و فکری اور تحقیقی میدان میں اپنے ملک اور سماج کا نام روشن کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ نوجوانوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہمیں مفاد پرست طاقتیں اور سماج دشمن عناصر استعمال کررہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے دل ودماغ اور ذہن کی راہ دانیوں میں جو بات ڈالی جارہی ہے اس سے نہ خود ان کا بھلا ہوگا اور نہ ہی معاشرے کا کوئی نفع۔ سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھئے محبت کرنے اور سماج میں انسانی رشتوں کی اہمیت وافادیت کو سمجھنے کے لیے نہ کوئی دھرم رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے اور نہ کوئی تہذیب و تمدن ۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیاکی ہر تہذیب اور دھرم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے ۔ پیار و محبت کا درس دیتا ہے۔
اب ذرا موجودہ منظر نامے پر بھی نظر ڈالیے اور خود اپنے آپ کو ٹٹولیے خود سے یہ بھی سوال کیجئے کہ سڑکوں پرکسی کو محض مذہب کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟ اسی طرح جو لوگ نفرت کا کاروبار کررہے ہیں خواہ وہ فلم کی شکل میں ہو یا کسی کارٹون اور خاکے کی شکل میں یہ سب وہ منفی اور جانب دار اعمال ہیں جن سے معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو سمجھانا ہوگا کہ ہندوستان ایک ایسی سرزمین ہے جو اپنے دامن میں متعدد تہذیبیں، زبانیں اور مذاہب کو سمیٹے ہوئی ہے۔ قدم قدم پر ہمیں نئی تہذیب اور تمدن و معاشرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہی رنگا رنگی اور تعدد پسندی ہمیں توسع کی دعوت دیتی ہے۔ فکر و نظر کے پند دریچوں کو کھول تی ہے اور بتاتی ہے کہ ہمیں ملک میں بناء کسی بھید بھاؤ کے ایک ساتھ رہنا چاہئے۔ اگر ہم معاشرے میں نفرت کی مسموم فضا کو فروغ دیتے ہیں تو ہندوستان کی خوبصورتی مجروح ہو جائے گی جو ایک غیر مناسب عمل ہے۔
اب ذرا معاشرے کے اس رخ کو بھی ملاحظہ کیجیے کہ خود مسلمانوں میں مسلک و مشرب کے نام پر جو چیخ وپکار اور ہمہ ہمی ہے اس نے عالمی سطح پر مسلمانوں اسلام کی جو تصویر پیش کی ہے اس سے مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ مسلک و مشرب کی وجہ سے ہم اس قدر متشدد اور متعصب ہوگئے ہیں کہ اب مساجد ومدارس کے نام بھی اپنی فکر اور مسلک کے نام پر رکھے جارہے ہیں۔ جہاں معاشرے سے ہندو مسلم نفرت کا خاتمہ کرنا ہوگا وہیں مسلکی بنیاد پر معاشرے میں جو نفرت بڑھ رہی ہے اسے بھی کچلنا بہت ضروری ہے۔ بعض مرتبہ تو مسلکی اختلاف کی وجہ سے لوگ قتل و غارتگری تک پر اتر آ تے ہیں۔ چنانچہ اس صورت حال سے ہمیں نکلنا ہوگا اور معاشرے کو مسلکی تشدد سے بچانا ہوگا جب تک ہم اس طرح کی بیماریوں سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گے اس وقت تک کارزارِ حیات کے کسی بھی شعبہ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔
حالات کو سمجھ کر آ گے بڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا ٹولہ لگاتار سیاسی بساط بچھانے میں پورے طور پر کامیاب نظر آ رہا ہے۔ جس نے عام خصوصا ان پڑھ انسانوں کے دل ودماغ سے تمام بنیادی سوالات کس محو کر دیا ہے اب کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟ روزگار نہیں ہیں؟ اشیاء خوردونوش میں بے تحاشہ اضافہ کیوں ہے؟ وغیرہ وغیرہ تو دوسری طرف معاشرے میں ہر طرف مسلک و مشرب کےنام پر اپنی اپنی دکانیں لیے بیٹھے ہیں جن کا کام صرف یہ ہے لوگوں کو خاص طور پر اسلام سے وابستہ افراد کو باہم تقسیم کردیا جائے اور عوام کو بے وقوقف بنا کر دولت کے انبار لگالیے جائیں۔ معاشرے کو مسلک و مشرب کے نام پر بانٹا جائے یا سیاست داں مذہب کے نام پر تقسیم کریں اگر غور سے دیکھا جائے تو دونوں کا قصور برابر ہے کیوں کہ ادھر ذات و دھرم کے نام پر نفرت کرنا سکھائی جارہی ہے تو ادھر مسلک کے نام ہر باہم سر پھٹول ہورہی ہے۔ اس پیچیدہ اور مشکل صورتحال میں عام انسانوں کے حقوق کا ضیاع ہورہا ہے شرمناک بات یہ ہے کہ اس سماجی انتشار پر دونوں طبقے خوش نظر آ تے ہیں۔ اس لے اب فطری طور پر ضرورت ہے کہ اس طرح کے مسائل سے اسی وقت نجات مل پائے گی جب کہ ہم تعلیم و تربیت اور شعور و آگہی پر توجہ دیں گے۔ تعلیم ایک ایسی اہم شئ ہے جو انسانوں کو غور و خوض کے راستے فراہم کرتی ہے ،تمام طرح کی بندشوں سے آزاد کراتی ہے۔
------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/discrimination-religion-caste-right/d/135329
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism