New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 10:41 PM

Urdu Section ( 27 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Diljit Dosanjh Delivered a Clear Message Through Rahat Indori's Poetry دلجیت دوسانجھ نے راحت اندوری کے اشعار کے ذریعے واضح پیغام دیا

مبشر اکبر

22دسمبر،2024

مشہور پو پ سنگر او ر اداکار دلجیت دوسانجھ یوں تو نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں۔ ان کے مداح صرف ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی ہیں۔ ان کے لائیوکنسرٹ پوری دنیا میں ہوتے ہیں اور ان میں ان کے ہزاروں مداح شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے گلوکاری کے علاوہ کئی فلموں میں اداکاری بھی کی ہے او راس وقت انہیں پنجاب کا سب سے بڑا اسٹار قرار دیا جاسکتاہے۔ہر چند کہ انہوں نے بالی ووڈ فلموں میں بھی اپنے فن کامظاہرہ کیا ہے لیکن یہاں کی فلموں کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی پنجابی فلموں کی ہے۔ اس وقت ان کا ’دل لومناٹی‘ٹو ر شروع ہے جو ہندوستان کے متعدد شہروں سے ہوتا ہوا 29دسمبر کوآسام کے شہر گوہاٹی میں ختم ہوگا یعنی اس شہر میں بھی وہ کنسرٹ کریں گے۔گزستہ دنوں ان کا ایک بڑاپروگرام ممبئی کے مہالکشمی ریس کورس پر منعقد ہوا جس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد 50ہزار سے زائد بتائی گئی۔اتنی ہی یا اس کے برابر تعداد ممبئی سے قبل ہونے والے پروگراموں میں بھی تھی۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ دلجیت دوسانجھ اس وقت ملک کے سب سے بڑے پوپ گلوکار ہیں اور وہ اپنے اسٹیج سے جو پیغام دیتے ہیں وہ نہ صرف ان کے شائقین تک پہنچتا ہے بلکہ ان تک بھی بخوبی پہنچ جاتاہے جو انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں۔ دلجیت دوسانجھ کے تعلق سے اتنی بڑی تمہید باندھنے کی ضرورت ہمیں یوں پیش آئی کہ گزشتہ دنوں شمالی ہند کے جتنے بھی شہروں میں ان کا کنسرٹ ہوا ا س کے تعلق سے ہندوتو وادیوں نے بلاوجہ تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ کبھی ان کے گیتوں کے الفاظ کے تعلق سے تو کبھی ان کے گانے کے انداز کے تعلق سے اور کبھی ان کے بیانات کے تعلق سے لیکن ان سب کے باوجود دلجیت دوسانجھ نہ پیچھے ہٹے اور نہ کبھی انہوں نے ایسا کوئی اشارہ دیا کہ وہ ان ’نفرتی چنٹوؤں‘ سے خوفزدہ ہیں بلکہ انہوں نے ہمیشہ ان فرقہ پرستوں سے لوہا لینے کی کوشش کی۔

گزشتہ دنوں جب اندور میں دلجیت کا کنسرٹ ہوا تو وہاں بھی ان ’نفرتی چنٹوؤں‘ نے ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ اس میں بجرنگ دل کے کارکنان کی تعداد زیادہ تھی۔ ان کا الزام تھا کہ اس کنسرٹ کی وجہ سے اندور کا ماحول خراب ہوگا اور جوا، شراب اور ڈرگس کو فروغ ملے گا۔ حالانکہ یہ بات خود بجرنگ دل اور دیگر ہندوتووادی جانتے ہیں کہ ان کے دعوے کتنے کھوکھلے ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ جس سینہ زوری سے کام لیتے ہیں، اس پر ہنسی آجاتی ہے۔بہر حال اس کنسرٹ کی راہ میں رخنہ اندازی کی کئی کوششیں ہوئیں۔ اس کا انعقاد بھی روکنے کی ہر طرح سے کوشش کی گئی لیکن یہ کنسرٹ ہوا۔ اس پروگرام میں دلجیت نے گئی گیت گائے، شائقین سے داد حاصل کی اور اپنے آخری گیت کے آخر میں انہوں نے جو پیغام دیا اس سے ملک کے تمام فرقہ پرستوں کا ان جیسا ہی حال ہوا ہوگا جن کے ’تلوؤں سے لگتی ہے اور سرپہ بجھتی ہے‘۔ انہوں نے اندور کے عالمی شہرت یافتہ شاعر راحت اندوری (مرحوم) کے وہ مشہور زمانہ اشعار پڑھ دیئے جنہیں سن کر فرقہ پرست آج بھی تلملا جاتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ کریں:

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے،کوئی آسمان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

راحت اندوری کی جس غزل کے یہ دونوں اشعار ہیں وہ پوری غزل ایک طرح سے اہل اقتدار کے منہ پر طمانچہ ہے اور دلجیت نے جن اشعار کا انتخاب کیا وہ تو سونے پر سہاگہ ہیں۔ دلجیت نے ان اشعار کو جس انداز میں ٹھہر ٹھہر کر اوراپنے شائقین کو سمجھانے کے انداز میں پڑھا اس نے نہ صرف دلجیت کاپیغام بلکہ ان اشعار کی افادیت کو بھی دوچند کردیا۔ اس سے قبل کے کنسرٹس میں بھی دلجیت نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لئے ایسے ہی کسی اسٹنٹ کاسہارالیا تھا لیکن اندور میں انہوں نے راحت اندوری کے ہی اشعار کا استعمال کرکے جس طرح سے پور ے ملک کو پیغام پہنچادیا اس نے ان کی اہمیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

ویسے اشعا کا استعمال کرکے اہل اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر با ت کرنے کی ہمت دلجیت سے قبل شاہ رخ خان بھی دکھا چکے ہیں۔انہوں نے اپنی فلم’جوان‘ کے لئے راحت اندوری کے ہی ہم عصر معروف شاعر وسیم بریلوی کے شعر استعمال کیا تھا۔ شعر ملاحظہ کریں:

اصولوں پرجہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے

جو زندہ ہوتو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے

اس میں شاہ رخ نے معمولی رد وبدل کیا تھا اور اسے اپنی فلم کے گانے سے قبل پڑھا تھا۔ اس ردوبدل کے لئے بھی شاہ رخ نے وسیم بریلوی سے اجازت لی تھی۔ اہل اقتدار کے جبر کے خلاف دلجیت نے اگر کھل کر آواز بلند کی ہے اور شاہ رخ نے بہت واضح انداز میں سوال اٹھایاہے تو ماضی میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آچکا ہے کہ اردو کے مشہور شاعر کلیم عاجز نے ایمر جنسی کے دوران اندراگاندھی پر براہ راست بلکہ ان کے سامنے لال قلعہ کی فصیل پر کھڑے ہوکر یہ مشہور زمانہ شعر پڑھ دیا تھا کہ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کروہو

یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس دور میں جب اندراگاندھی کاطوطی بولتاتھا اور انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کررکھی تھی اس وقت کوئی ان پر اتناسنگین الزام وہ بھی شعری صورت میں لگانے کی جرأت اگر کرسکتاتھا تو وہ اردو کا شاعر ہی تھا او روہ اردو زبان ہی تھی جس میں اس طرح کا احتجاج ممکن ہے کہ اہل اقتدار تک نہ صرف پہنچ جائے بلکہ وہ تیربہ ہدف بھی ثابت ہو اور کہنے والے کی جرأت رندانہ کامظاہرہ بھی ہوجائے۔ہمارے خیال میں دلجیت دوسانجھ کوبھی راحت اندوری کی شاعری اور اس میں احتجاج کی لَے کا مکمل اندازہ ہوگا تبھی انہوں نے اندور کی سرزمین سے راحت کے شعر کا ہی استعمال کرتے ہوئے پورے ملک کو جو پیغام دیا وہ نہایت واضح ہے کہ اقتدار کے جبر کے سامنے سرجھکانے کے بجائے سر اٹھانے والوں کی اہمیت ہوتی ہے۔

22 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/diljit-dosanjh-message-rahat-indori-poetry/d/134151

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..