سراج نقوی
31 مارچ،2023
بغیر کسی تبصرے کے پہلے
دو الگ الگ خبروں پر نگاہ ڈال لیں۔پہلی خبرکناڈا کی راجدھانی اوٹاوہ سے متعلق ہے،
جب کہ دوسری خبر کاتعلق ہمارے ملک کی ریاست اتر پردیش کے مشہور شہر مرادآباد سے
ہے۔ اوٹاوہ سے متعلق خبر کے مطابق احمد نام کا ایک شخص اوٹاوہ ریلوے اسٹیشن پر
نماز پڑھ رہا تھا کہ تبھی ایک سیکورٹی گارڈ نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ یہاں
نماز نہ پڑھو۔تمہاری وجہ سے ہمارے باقی صارفین پریشان ہورہے ہیں۔احمد نے بتایا کہ
حالانکہ وہ نماز ختم کرچکا تھا کہ جب گارڈ نے ایسے کرنے سے روکا۔ جب کارڈ او راحمد
کے درمیان یہ گفتگو ہورہی تھی اسی وقت پاس سے گزرنے والے ایک شخص نے اس کا ویڈیو
بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا،جو کچھ ہی دیر بعد وائرل ہوگیا اور لوگوں کے اس پر
تبصرے آنے شروع ہوگئے۔ اہم بات یہ ہے کہ بیشتر لوگوں نے اس واقعے پر اپنی ناراضگی
ظاہر کی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس گارڈ نے احمد کو اسٹیشن پر نماز پڑھنے سے روکا
وہ ’وایاریل‘ کا ملازم ہے اور مذکورہ ریلوے نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی
ہے۔ جب کہ دوسری طرف’نیشنل کونسل آفکینیڈین مسلمس‘ نے بھی اس واقعے کے تعلق سے
اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مطالبہ کی ہے کہ اس کی جانچ کی جائے۔ تنظیم نے اس
معاملے میں احمد سے بھی بات کی ہے یعنی کناڈا کے مسلمان اور دیگر لوگ بھی اس کے
ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔خود احمد کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے کافی شرمندہ کیا ہے اور
وہ کافی پریشان ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ کناڈا کی راجدھانی
اوٹاوہ میں ہورہا ہے۔ ’وایاریل‘نے اس معاملے پر اپنے ردعمل میں کہاہے کہ معاملے کی
جانچ ہوگی اور ساتھ ہی مسلم کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس معاملے کے
ملزم سیکورٹی گارڈ کو بھی ملازمت سے ہٹادیا گیا ہے۔
مذکورہ معاملے کاایک اہم
پہلو یہ بھی ہے کہ کناڈا میں مسلم آبادی مجموعی آبادی کا صرف 4/عشاریہ 9 /فیصد ہے۔
اس کے باوجود اس ملک میں مسلمانوں کو وہاں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی
آزادی بھی حاصل ہے اور حکومت وانتظامیہ اس بات کے لیے پابند بھی ہیں کہ وہ اپنے
تمام شہریوں کو بغیر تفریق مذہب یا عقیدہ تحفظ فراہم کریں۔ احمد نے جس مقام پر
نماز پڑھی وہ نہ تو مسجد تھی اورنہ احمد کا اس جگہ پر نماز پرھنے کے تعلق سے کوئی
قانونی حق ہی تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو گارڈ کبھی اسے روکنے کی ہمت نہ کرتا لیکن کیوں
کہ معاملہ مجبوری کے تحت نماز جیسے دین کے رکن کی ادائیگی کا تھا اس لیے اس میں
کسی رکاوٹ کابھی کوئی جوازنہ تھا۔ اسی لیے ملزم گار ڈ کو نہ صرف ملازمت سے الگ
کردیا گیا بلکہ ریلوے نے کناڈا کے مسلمانوں کو یہ بھی یقین دلایا کہ وہ ان کو تحفظ
کرنے کے لیے قدم اٹھائے گی۔
اب اترپردیش کے شہر
مرادآباد میں چند روزقبل پیش آئے ایک واقعے پر نگاہ ڈالیں۔ اس واقعے میں ذاکر حسین
نام کے ایک مسلمان نے کسی مجبوری کے تحت رمضان کی تراویح کے لیے اپنے گھر میں ہی
اہتمام کیا۔ہمارے ملک کا کوئی قانون کسی کو بھی اپنے گھر کے اندر کسی طرح کی مذہبی
سرگرمی سے روکنے کی اجازت نہیں دیتا۔اپنے مذہبی امور کی انجام دہی ہر شہر کا آئینی
حق ہے او روہ یا تو اسکے لئے مختص عبادت گاہوں یا پھر اپنے گھر میں انہیں ادا
کرسکتا ہے۔ ہندو بھائیوں کے یہاں جاگرن او رمسلمانوں کے گھر میں میلاد یا مجالس
اسی قانونی حق کے تحت منعقد کرنا عام بات ہے۔ اسی لیے اگر کسی سبب سے رمضان میں
کسی مسلمان نے اپنے مکان کے دروازے دیگر مسلمانوں کو بھی تراویح پڑھنے کے لیے کھول
دیے تو اس عارضی قدم کو روکنے کاکوئی قانونی جواز نہ تھا۔ اس لیے کہ گھر کو
باقاعدہ مسجد کی شکل میں بہر حال نہیں بدلا گیا تھا کہ جس کے لیے قانونی اجازت کی
ضرورت ہوتی۔لیکن بھگوا عناصر اس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ وہ جب او رجہاں چاہیں کسی
بھی مسلم شہری کے قانونی حقوق کو غصب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس
معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد بجرنگ دل کے ایک مقامی لیڈر نے اس کے خلاف
اشتعال انگیز ی شروع کردی او رانتظامیہ سے تراویح کو رکوانے کا مطالبہ کیا۔
حالانکہ کچھ عرصہ قبل ہی آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت، سنگھ کی رہنمائی اور
ہندوتوکے اصولوں پر چلنے والی مودی یا یوگی حکومت نے کوئی رد عمل ظاہر کیا یا
نہیں۔ اس واقعے کی ان حلقوں کی طرف مذمت کا تو کوئی سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتاکہ
اقتدار کا زعم ایسے کسی بھی عمل کو شکست کے مترادف مانتا ہے۔لیکن جہا ں تک مقامی
انتظامیہ کا تعلق ہے تو اس نے اس معاملے میں جو موقف اختیار کیا وہ ہندو تو اعناصر
کے سامنے سرتسلیم خم کردینے کے مترادف ہے۔حالانکہ انتظامیہ نے ایک بیان جاری کرکے
یہ ضرور کہا کہ کسی کو بھی کسی کے مذہبی معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے او
راگر کوئی اس طرح کا کام کرتا ہے تو اس کے خلاف ضابطے کے مطابق کارروائی کی جائے
گی۔ لیکن انتظامیہ کا یہ دعویٰ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ اس لیے کہ ذاکر حسین کے گھر
پر تراویح کی مخالفت کسی قانون کے تحت نہیں کی تھی۔قانون کسی کو اس بات کی اجازت
نہیں دیتا کہ آپ دوسروں کے گھروں میں جھانکتے پھریں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ اپنے
مکان میں اگر کوئی شخص کسی طرح کامذہبی اجتماع کررہا ہے اور کسی شخص یا سماج پر اس
کا کوئی منفی اثر نہیں پڑرہا تو مذہبی اجتماع کرنے والے شخص کو کس طرح قانون کے
محافظ ایسے عمل سے باز رہنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ جب کہ اس معاملے میں پولیس اور
ضلع انتظامیہ نے دس مسلمانوں کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ 116/117 کے تحت نوٹس
جاری کیا ہے اور ذاکر حسین کو ہدایت دی ہے کہ کسی بھی اجتماعی دعا یا نماز کا
انعقاد نہ کرے۔ جب کہ دوسری طرف اس معاملے کو اٹھا کر علاقے میں شرپیدا کرنے والے
اور فضا بگاڑ نے کوشش کرنے والے بجرنگ دل لیڈر روہن سکسینہ کے خلاف کسی کارروائی
کی کوئی خبر نہیں ہے۔ کیا ایسے میں مرآدآباد کے پولیس حکام کا یہ دعویٰ درست مانا
جاسکتا ہے کہ کسی کو بھی کسی دوسرے کے مذہبی معاملے میں مداخلت نہیں کرنے دی جائے
گی؟ ایک شخص اعلانیہ طور پر ایک مسلمان کے گھر میں منعقد ہونے والے مذہبی اجتماع
کے معاملے میں مداخلت کرتاہے، پولیس اس کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے کے بجائے
اس مسلمان کو ہی اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ آئندہ ایسا کوئی اجتماع نہیں کرے
گا لیکن پولیس اپنی فرضی انصاف پسندی کے دعوے کرتی ہے۔ پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا
کہ معاملہ دراصل جائداد سے متعلق تنازعہ کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جائیداد کے تنازعے
کو مذہب سے جوڑنے کاکام جس نے کیا اس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
درحقیقت اوٹاوہ او
رمرادآباد کے مذکورہ دومعاملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک طرف یوروپی سماج اپنے
تمام ترعیوب او ربرائیوں کے باوجود اس حد تک وسیع القلب او رانصاف پسند بھی ہے کہ
پانچ فیصد سے بھی کم آبادی والے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی خاطر فوری
کارروائی کے تحت عوامی مقام پرنماز پڑھنے والے مسلمان کو غلط ٹھہرانے کے بجائے اسے
نماز پڑھنے سے روکنے والے سیکورٹی گارڈ کو ملازمت سے علیحدہ کردیا جاتاہے اور پوری
مسلم کمیونٹی کو یہ یقین دلایا جاتاہے کہ ان کے تحفظ کے لیے قدم اٹھائے جائیں گے
جبکہ دوسری طرف اپنی اخلاقی اقدار سماجی آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب پر ناز کرنے
والے او ردنیا کے سب سے بڑی جمہوریت والے ملک میں دوسری سب سے بڑی آبادی ’جس کا
فیصد کناڈا سے کئی گنا اور محتاط اندازوں کے مطابق پندرہ سے بیس فیصد ی تک ہے اس
کے کسی فرد کو اس کے اپنے گھر میں تراویح کی نماز اجتماعی طور پر پڑھنے سے صرف اس
لیے روک دیا جاتاہے کہ بھگوا عناصر کو اس پر اعتراض ہے۔اوٹاوہ او رمرادآباد سے
متعلق ان دوواقعات کاموازنہ دراصل ’بدلتے ہوئے ہندوستان‘ کی وہ تصویر ہمارے سامنے
پیش کرتا کہ جو گاندھی کانہیں گوڈسے اورساور کا یا پھر موہن بھاگوت او رمودی کا
ہندوستان ہے۔
31 مارچ،2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism