New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:27 PM

Urdu Section ( 24 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dialogue Should Go On گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

24 ستمبر 2022

اسلام نے مسلمانوں کو اپنے مخالفین سے پرامن مکالمہ کرنے اور ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی تلقین کی ہے کیونکہ ایک پرامن اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لئے باہمی اعتماد کا ماحول بنانا ضروری ہے۔ اسلام انسانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے سے کٹے رہنے سے منع کرتا ہے اور تعلقات کو بہتر بناتے رہنے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

ہندوستان چونکہ مختلف مذاہب کی آماجگاہ ہے یہاں مکالمے اور باہمی اعتماد کے ماحول کی ضرورت زیادہ ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ ہوتے ۔ ہیں جو منفی ایجنڈا رکھتے ہیں اور ایک طبقے کو دوسرے طبقے کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف خوف اور عدم اعتماد کا ماحول تیار کرتے ہیں۔ ایسا وہ اپنے خفیہ مقاصد کی تکمیل کے لئے کرتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ طبقوں کے درمیان مکالمے اور رابطے کا سلسلہ جاری رہے تاکہ شرپسند افراد کو سماج میں غلط فہمی اور عدم اعتماد پھیلانے میں کامیابی نہ ہو۔

ہندوستان میں آزادی سے قبل سے ہی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان عدم اعتماد اور نفرت کا ماحول تیار کردیا گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ گھٹنے کے ساتھ بڑھتا گیا۔ سیاسی و سماجی وجوہات نے اس عدم اعتماد اور نفرت کو بڑھاوا دیا۔ لیکن اس کے درمیان وقفے وقفے سے دونوں فرقوں کے نمائندوں نے اس خوف و نفرت کے ماحول کو ختم کرنے اور باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ مسلم کمیونٹی نے باہمی اعتماد اور مکالمے کو بحال کرنے کی ہر کوشش پر لبیک کہا ہے۔

اسی سلسلے کی کڑی میں اگست میں پانچ سرکردہ مسلم شخصیات نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے دلی میں ملاقات کی اور ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وسیع تر ہوتی خلیج کو پاٹنے اور نفرت اور تشدد کے ماحول کو ختم کرنے کے مشترکہ اقدامات پر غور و خوض کیا۔ مسلمانوں کے اس وفد میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق وائس چانسلر علی گذھ مسلم یونیورسٹی ضمیرالدین شاہ, سابق لیفٹننٹ گورنر دہلی نجیب جنگ اور نئی دنیا کے مدیر شاہد صدیقی تھے۔فریقین نے کھل کر ہندوؤں اور مسلمانوں کے تحفظات کا اظہار کیا اور آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات پر زور دیا۔ جناب شفیع قریشی نے کہا کہ موہن بھاگوت جی نے بڑے سکون اور دلجمعی سے ہماری باتوں کو سنا اور کھل کر اپنی رائے دی۔ موہن بھاگوت نے کہا کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے یہ شکایت ہے کہ وہ بیف کا استعمال کرتے ہیں جبکہ گائے ان کے نزدیک مقدس ہے۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کو یہ بھی شکایت ہے کہ مسلمان انہیں کافر کہتے ہیں۔ اس کے ردعمل میں شفیع قریشی نے کہا کہ بیف ہندوستان کے بیشتر اضلاع میں قانوناًممنوع ہے ۔ اور مسلمان اس امتناع کو مانتے ہیں۔ بہر حال اگر کچھ مقامات پر مسلمانوں کا ایک طبقہ اس حکم امتناع کی خلاف ورزی کرتا ہے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔

ہندوؤں کےلئے لفظ کافر کے استعمال پر شفیع قریشی نے کہا کہ لفظ کافر ان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو خدا کو نہیں مانتے اور جن کی کوئی مذہبی کتاب نہیں ہے۔یہ لفظ ہندوؤں کے لئے مخصوص نہیں ہے کیونکہ ہندو بھگوان کو مانتے ہیں اور ان کے پاس مذہبی صحیفہ بھی ہے۔

بہرحال انہوں نے موہن بھاگوت کو یہ یقین دلایا کہ وہ مسلمانوں سے یہ اپیل کریں کہ مسلمان ہندوؤں کے لئے کافر کا لفظ استعمال نہ کریں۔

اسی کے ساتھ شفیع قریشی نے موہن بھاگور سے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کے خلاف جو ایک نفرت کا ماحول بنادیا گیا ہے اس کو بھی دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ مسلمانوں کو جہادی اور پاکستانی کہا جاتا ہے ، انہیں بات بات پر پاکستان جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور ان سے ہندوستان سے وفاداری کا سرٹیفیکیٹ مانگا جاتا ہے یہ بھی دونوں طبقوں کے درمیان خوشگوار ماحول تیار کرنے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ مسلمانوں کو کہیں بھی پکڑکر ماردیا جاتا ہے جو غلط ہے اور یہ سلسلہ رکنا چاہئے۔اس پر موہن بھاگوت نے مبینہ طور پر کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ سب غلط ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان اسی ملک کے شہری ہیں اور اس ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے کیونکہ ملک کے زیادہ تر مسلمان تبدیلئء مذہب کے ذریعہ مسلمان ہوئے ہیں۔ ان کے بغیر ہندوستان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اور ملک کی ترقی میں ان کا رول اہم ہے۔ ضنیرالدین شاہ صاحب نے بھی کہا کہ جو بھی قانون بنے وہ سب کے لئے ہو۔ اگر مدرسوں اور وقف کا سروے ہو تو انہیں اعتراض نہیں ہے مگر دوسرے مذاہب کے اداروں کا بھی سروے ہو۔

موہن بھاگوت نے کہا ان ساری باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش جاری رہنی چاہئے اور آئندہ بھی دونوں فرقوں کے نمائندوں کے درمیان اس طرح کا مکالمہ منعقد ہونا چاہئے۔ موہن بھاگوت نے آیندہ میٹنگ کے لئے اپنی طرف سے کچھ اور نمائندوں کے نام دئے ہیں۔ امید ہے کہ آگے بڑے پیمانے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھے گا۔

اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے موہن بھاگوت نے 22 ستمبر کو دلی کی ایک مسجد,اور مدرسے کا دورہ کیا اور یہ اشارہ دیا کہ وہ اس مکالمے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ موہن بھاگوت کی اس پہل سے مسلمانوں میں یہ امید جاگی ہے کہ آپسی غلط فہمیوں اور نفرت کی اس فضا کو ختم کرنے میں کچھ مدد ملیگی۔ جون کے مہینے میں موہن بھاگوت نے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی یہ کہہ کر چونکا دیا تھا کہ ہمیں ہر مسجد میں شیو لنگ نہیں ڈھونڈنا چاہئے۔ ہندوتووادی گروہ کو ان کے اس بیان سے دھچکا لگا تھا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ آرایس ایس ان کے ہر مسلم مخالف اقدام کی تائید وحمایت کرے گا۔ ان کا ییہ بیان بھی اہم تھا کہ ایودھیا معاملے کے بعد تنظیم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب ہم کوئی نئی تحریک نہیں شروع کرینگے۔انہوں نے گیان واپی مسجد کے تنازعے پر کہا تھا کہ اس معاملے کا حل بات چیت سے پرامن طور پر ڈھونڈنا چاہئے۔

ان کے اس بیان سے یی واضح ہوتا ہے کہ گیان واپی یا دیگر مسجدوں پر ہندوتواوادی تنظیموں کی طرف سے جو دعوے کئے جاتے ہیں ان دعووں کو,آرایس ایس کی حمایت حاصل نہیں ہوتی ہے۔لیکن مسلمان ہر مسلم مخالف اقدام کو آر ایس ایس سے منسوب کردیتے ہیں۔ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے اور یہاں خود ہندوؤں کی بے شمار تنظیمیں ہیں جو,آرایس ایس سے مختلف آئیڈیالوجی رکھتی ہیں۔ ہر تنظیم پر آر ایس ایس کا کنٹرول ہو یہ ضروری نہیں جس طرح ملک کی ہر اسلامی تنظیم کے اقدام کو جمیعت علما سے منسوب کرنا غلطی ہوگی۔ لہذا, ملک میں اٹھنے والے تمام۔مذہبی تنازعات کو صحیح تناظر میں رکھ کر ہی ان کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے مسلم تنظیموں کو مشترکہ طور پر ہندوؤں کی نمائندہ شخصیات اور تنظیموں کے ساتھ مل بیٹھ کر اہم مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہئے۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/dialogue-should/d/128023

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..