New Age Islam
Sat Jun 14 2025, 12:43 AM

Urdu Section ( 14 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dialogue Are Essential For Social Peace معاشرتی امن کے لیے مذاکرات ناگزیر

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

14 مئی 2025

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوستان  جمہوریت کا علمبردار اور سیکولر نظام کا حامل ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے مذہبی امور، تہذیبی رسم و رواج، قومی و ملی تشخص کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے اور رہے گی۔ اگر کوئی فرد ہندوستان جیسی سرزمین پر ایسا کوئی بھی عمل کرتاہے کہ جس سے ہندوستان کی تاریخ اور یہاں کے سیکولر کردار پر حرف آتا ہےیا مذہبی، مسلکی خانوں میں ہندوستانیوں کو بانٹنے کی بات کرتا ہے  تو اس کے اس عمل کے خلاف صرف اسی کمیونٹی کے افراد مخالفت نہیں کرتے ہیں جو کمیونٹی متاثر ہورہی ہے بلکہ ہندوستان میں رہنی والی اکثریت کے افراد بلا امتیاز مذہب ودین اجتماعیت کے ساتھ اس کا سد باب کرتے ہیں۔ اس طرح کی نظیریں آ ئے دن ہندوستان میں دیکھنے، پڑھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔  جب بھی قومی اتحاد اور ہم آہنگی کہیں نظر آ تی ہے تو اس بات پر یقین و اعتماد بڑھ جاتا ہے کہ وطن عزیز میں نفرت کے پرستار اور تفریق و امتیاز برتنے والے ، اجتماعی معاشرے کو توڑنے والے کبھی بھی کامیاب و کامران نہیں ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اقلیتوں بالخصوص مسلمان، خواہ ان کا تعلق عوام سے ہو یا خواص سے ۔ ہمارا یہ ذہن بن چکا ہے کہ بی جے پی سے کوئی بات نہیں کرنی ہے۔ بلکہ یہ مزاج تک بن چکا ہےکہ بی جے پی سے بات کرنا گناہ ہے۔ اگر یہ کہوں تو بےجا نہ ہوگا کہ اس طرح کی سوچ وفکر سے تشدد اور جانبداری کی بو آ تی ہے۔ ہمیں اپنے کردار وعمل سے اس وقت ایسے کام یا ایسے منصوبے انجام دینےکی ضرورت ہے جو ہماری سیاسی دشمنی کو ، بی جے پی سے کم کریں۔ یاد رکھیے! کسی بھی تکثیری سماج اور مخلوط سوسائٹی اور جمہوری معاشروں کی روح یہی ہے کہ وہاں اقتدار کی اتھل پتھل ہوتی رہتی ہے ، ایک زمانے تک ہندوستان میں کانگریس اقتدار میں رہی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کافی عرصہ حکومت میں رہے گی بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دور ہندتوا کا دور ہے۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دانشمندی اور سنجیدگی یا یوں کہیے کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے مراسم رواں حکومت سے استوار کریں۔ خواہ مخواہ کی دشمنی بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب کہ مفکرین و مدبرین اور سیاسی حالات کی نبض کو پرکھنے والے مسلم اسکالر نے بارہا اس چیز کا احساس دلایا ہے کہ مسلمان اپنا مقصد یہ بنالیں کہ اس مرتبہ بی جے پی نہیں ہاری تو اس مرتبہ ضرور ہار  جائے گی۔ یہ بات بالکل ٹھیک نہیں ہے ۔ دوہزار چودہ سے اب تک مسلمانوں کا ووٹ بی جے پی کی مخالفت اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کی حمایت میں گیا ہے،  لیکن جس طرح بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ اب مرکزی وریاستی سطح حکومت سازی  بغیر مسلمانوں کے ووٹ کے کی  جاسکتی ہے ۔ اب دوسری بات یہ ہے جس طرح آ ج مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے تشخص کو نشانہ بنایا جارہاہے ان مخصوص حالت میں ضروری ہے کہ  مسلمانوں کا ایک وفد حکومت کے ذمہ داروں سے بات کرے ۔ آئے  دن ملک کے مختلف شیروں حجاب کے مسئلے کو جس طرح  ابھارا گیا ہے وہ اچھی بات نہیں ہے۔ اسی طرح ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔اس سے یقینا جمہوری قدریں مخدوش ومجروح ہورہی ہیں۔موجودہ حالات کے پیش نظر معروف مفکر ،تجزیہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹرخواجہ افتخار احمد کا ماننا ہے  یہ ہے۔ واضح  رہے کہ ان خیالات کو آواز دی وائس کے ایڈیٹر منصور فریدی نے اپنے نیوز پورٹل میں نشر کیا ہے۔  "ایسے واقعات پر بڑی حکمت سے کام کرنا ہوگا، ہمیں فوری ردعمل سے بچنا ہوگا ،اگر کوئی طبقہ یا گروہ پریشان کررہا ہے تو اس سے ٹکرانے کے بجائے ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا ہوگا جن کا ان عناصر پر اثر ہو۔ نہ کہ مظاہرہ یا احتجاج کیا جائے۔ میرا ماننا ہے کہ مسئلہ کا حل تلاش کیا جانا چاہیے اس کو طول دینا دانشمندی نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ ہم ٹکراؤ سے بچیں تو اسی میں بہتری ہے۔اس کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور سمجھانا بھی ہوگا کہ لڑ بھڑ کر زندگی نہیں گزار سکتے ۔ہمیں ساتھ ہی رہنا ہے۔ ایک بات تو سمجھ لیں کہ اگر ایک فریق جارح ہوتو دوسرے کو اعتدال پر رہنا چاہیے۔ ایسے مسائل پر ہم اگر ڈائیلاگ کرتے ہیں تو اس کا فائدہ ہوگا۔ مسلمان لیڈر اگر اس مسئلے پر وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرتے ہیں تو اچھی پہل ہوگی ۔ ہر مسئلہ حل مانگتا ہے اور اس کا بہترین طریقہ مذاکرات ہے۔انہوں نے  حجاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو اس خوف سے باہر آنا ہوگا کہ ہماری شناخت خطرے میں ہے،ایسا جب ہوتا ہے جب ہم خودکمزور ہوں۔اس ملک میں جین اور بدھسٹ برائے نام ہیں لیکن کسی کی شناخت اور تہذیب خطرے میں نہیں ہے لیکن ہم 25 کروڑ ہیں  پھر بھی ہماری تہذیب خطرے میں ہے۔میرا ماننا ہے کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اس کو ماننے والے اس سے دور ہوجاتے ہیں۔اس کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔حجاب کا معاملہ ایک ادارے کا تھا اس کو اس سطح پر حل کرنا چاہیے تھا،اس نے فرقہ وارانہ رنگ لے لیا۔اس کو سماجی حوالے سے دیکھتا ہوں۔ ہم کو ہر مسئلہ کو طول نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ ان حالات پر وزیر اعظم سے بات کی جائے"

اسلامی اسکالرپدم شری پروفیسر اختر الواسع کے مطابق "موجودہ حالات میں ملک میں جو ہورہا ہے اس میں اکثریت کا ایک چھوٹا سا طبقہ ملوث ہے ،بلاشبہ اکثریت اس سوچ کے خلاف ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ طبقہ خاموش ہے۔مسلمان صبر کررہے ہیں ،حالات کو دیکھ رہے ہیں ۔کہیں ہولی پر مساجد میں نماز جمعہ کو روکا جارہا ہے تو کہیں مندر کے میلے میں مسلمانوں کو دکانیں لگانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم رہنماوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا ۔ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنی ہوگی ۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے بات کرنی ہوگی ۔ان کا سیاسی نظریہ مختلف ہوسکتا ہے لیکن وہ ملک کے اہم عہدوں پر ہیں ۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو ہی اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ امن وامان برقرار رہے ،کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں ،کسی مذہب کی توہین نہ ہو۔

پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہا کہ مسلم لیڈران کو وزیر اعظم سے ملاقات کرکے اس سلسلے میں ان کا موقف معلوم کرنا چاہیے۔یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس سلسلے میں وہ کیا اقدام کرسکتے ہیں کیونکہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ ملک کے وقار اور معیار کو متاثر کررہا ہے."

ان دونوں اقتباسات کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہےکہ ہمیں اپنے مسائل میل ملاپ ،بات چیت اور مذاکرات ومکالمات کے توسل سے حل کرنا چاہیے ۔ جذباتی ہوکر احتجاج کرکے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ تکثیری معاشرے اور مخلوط سوسائٹی کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں ، اس کے تقاضے ہوتے ہیں بسا اوقات ایسا بھی کرنا پڑتا ہے یا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو کام ہم کسی ایک کمیونٹی پر مشتمل معاشرے میں نہیں کرسکتے ہیں  لیکن تکثیری سماج میں شاید اس کی اجازت دی جاسکے۔ اصل ضرورت سماج کو متحد رکھنے اور معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم معاشرہ کی تمام اکائیوں کے ساتھ یکساں سلوک کریں ،تفریق وامتیاز کے رویہ سے پوری طرح گریز کریں یہ بات عوام سے لے کر حکومت وایوان میں بیٹھے تمام ہی  افراد کو سوچنی ہوگی۔ آخر میں یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں مذاکرات ومکالمات کے ذریعے اپنی بات کو آ گے بڑھانا ہوگا۔ اسی طرح آ ج مسلمانوں میں بی جے پی کے تئیں جو غم و غصہ پایا جاتا ہے اسے نابود کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے رشتے درست کرنے ہونگے ۔ تبھی جاکر معاشرے میں یکجہتی، رواداری اور توازن و اعتدال قائم ہوسکتاہے۔ سماج میں ہر طرح کا امن و امان اور تمام طبقات کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنے کے لیے بنیادی طور پر مذاکرات کی اور بات چیت کی ضرورت ہے ۔ جب ہم بات چیت سے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں تو اس کے نتائج مثبت مرتب ہوتے ہیں البتہ اگر ہم اس کے علاوہ راستہ تلاش کرتے ہیں تو اس کے اثرات پر تشدد ہی ہوتے ہیں ۔

------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/dialogue-essential-social-peace/d/135533

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..