ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
17 اکتوبر،2025
مئی ۱۹۴۸ءکو پہلی خود مختار یہودی ریاست اسرائیل کے نام سے دنیاکے نقشے پر وجود میں آئی-اسی دن ڈیوڈ بن گورین جو ورلڈ زایونسٹ آرگنائزیشن کا ایگزیکٹو ہیڈ تھا ،اس نے اس ریاست کا باضابطہ اعلان کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب فلسطین پر سے برطانوی تسلط ختم اورصہیونیت کا سورج طلوع ہورہاتھا ۔ فلسطین کو یہودیوں کا موروثی آبائی وطن درج کیا جاتا ہے اور یہیں سے عرب-اسرائیل تنازعہ جس کےپس منظر میں عرب نیشنلزم اور پس پشت احیائے اسلام تھا کی باضابطہ شروعات ہوتی ہے۔ریاست اسرائیل اور نظریہ صہیونیت نے ہر یہودی کےدل میں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ فلسطین ہی نہیں بلکہ عرب ممالک کا ایک بڑا حصہ ان کاآبائی وطن تھا جو آج زیر تسلط ہے۔
مئی میں ریاست اسرائیل وجود میں آتی ہے۔ اکتوبر میں عرب لیگ کی افواج جو مصر، جارڈن، لبنان اور عراق پر مشتمل تھیں اسرائیل پر دھاوا بول دیتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ شکست فاش کے سوا کچھ نہ لگا۔ وہ اسرائیل جس کواصل فلسطین میں ۵۶؍فیصد زمین ملی تھی اور بقیہ۴۳؍ فیصد فلسطین عربوں کے پاس رہی اس جنگ میں اسرائیل نےمزید ۱۷ فیصد پر قبضہ کر لیا ۔ گویا اب اہل یہود کے پاس کل فلسطین کا۷۳ فیصد علاقہ آگیا۔ یہ ۱۹۴۸ ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد اردن نے فلسطین کے علاقےمیںسے مغربی کنارے کو اپنے میں ضم کر لیا اور غزہ کا کنٹرول مصر نے سنبھال لیا۔۱۹۵۱-۱۹۵۵ پہلی فلسطین فدائین پر مبنی مقابلہ آرائی شروع ہو ئی۔ ۱۹۵۶ ءمیں مصر سوئزنہر سے اسرائیلی جہازوں کی گزرگاہی پر پابندی عائد کر دیتا ہے۔ اسرائیل مصر پر حملہ آور ہوتا ہے جس علاقے پر وہ جنگ کے نتیجے میں قابض ہوتا ہے وہ اقوام متحدہ اور امریکہ کے دباؤ میں سابقہ پوزیشن پر واپس چلا جاتا ہے۔
۱۹۶۷ءکی چھ روزہ جنگ جس میں مصر، اردن، شام اور عراق مشترکہ طور پر اسرائیل سے دست و بازو ہوئے۔اس کے نتیجے میں سنائی، غزہ، مغربی کنارہ،مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۰ء کے درمیان مصر اور اسرائیل کے مابین سنائی کی بازیابی کے لئے مہم جوئی جاری رہی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۲ء کے درمیان فلسطینی حریت جنوبی لبنان میں جاری رہتی ہے ۔پی ایل او اب اپنے وجود کے ساتھ فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت اور قیادت کی شکل میں دنیا کے سیاسی اور سفارتی منظر نامے پر ایک تسلیم شدہ بین الاقوامی حقیقت بن کرابھرچکی تھی ۔ ۱۹۷۳ء میںمصر نے اچانک اور غیر اعلانیہ انور السادات کی قیادت میں اسرائیل پر حملہ بول دیا۔ جس کے نتیجے میں سوئز نہر جس کو مصر کے لئے عبور کرنا نا ممکن سمجھا گیا تھا وہ عبور ہوئی۔ اسرائیل کو عسکری میدان میں نا قابل تسخیر نقصان پہنچا۔ ۱۹۷۷ء میں انورالسادات نے اسرائیل کا تاریخی دورہ کیا، وہاں انکی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور امن و خیر سگالی کے حوالے سے اپنے قومی عزم کا اظہار کیا۔ اس سب گردان کا منطقی نتیجہ مصر اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات کی شکل میں نکلا ۔وہ تنازعہ جو مصر اور اسرائیل کے ما بین ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ سے متواتر چلا، اس کا خاتمہ ۲۶ مارچ ۱۹۷۹ کو امن معاہدے کی شکل میں وجود میں آیا۔ انور السادات، مناچم بیگن اور جمی کارٹر بالترتیب مصر، اسرائیل اور امریکہ کے سربراہان حکومت کی مشترکہ اور متفقہ کوششوں کے نتیجے میں نکلا جو آج تک قائم ہے۔
تینوں سربراہان کو نوبل انعام سے نوازاگیا۔اس معاہدے کو کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کے نام سےجانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے دو بنیادی حصے تھے پہلے کاتعلق مصر اور اسرائیل کے درمیان امن سے تھا، سفارتی تعلقات کی مکمل بحالی، بتدریج سنائی سے مکمل واپسی، اس پر مصری اقتدار اعلیٰ کی بحالی اور اسرائیل کو نہر سوئز سے گزرنے کا حق کا حاصل ہونا شامل تھا ۔دوسرے حصے کے تحت فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ میں محدود حکمرانی کا حق ملا۔
۱۹۷۸ سے ۱۹۸۲ تک پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان مستقل مسلح جھڑ پیں ہوتی رہیں۔ ۱۹۸۲ سے ۲۰۰۰ تک حزب اللہ ایک عسکری تنظیم حرکت میں آتی ہے جو ۲۰۲۵ تک چلی آتی ہے۔ ۱۹۸۷ سے ۱۹۹۳ پہلی انتفاضہ شروع ہوئی، ۱۹۹۱ میں عراقی مہم جوئی کے نتیجے میں خلیجی جنگ کا آغاز ہوا، ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۵ دوسری انتفاضہ کا دور چلا، ۲۰۰۶ میں لبنان اسرائیل جنگ ہوئی، ۲۰۰۸ سے ۲۰۰۹ حماس اور اسرائیل ایک دوسرے سے عسکری طور پر دست و گریباں رہے، ۲۰۱۲ غزہ میں پہلا عسکری مقابلہ ہوا، ۲۰۱۴، ۲۰۲۱ اور ۲۰۲۳ میں یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور ۲۰۲۵ آتے آتے جو ہوا وہ ہر بھیگی آنکھ نے خود دیکھا۔
اگر اسرائیل اور عرب ممالک کے مابین امن معاہدوں پر نظر ڈالی جائے تو ۱۹۴۹ میں اسرائیل، مصر، اردن اور شام کے درمیان پہلا امن معاہدہ ہوا اور سرحدوں کی حد بندی و درجہ بندی عمل میں آئی۔۱۹۷۹ میں اسرائیل اور مصر کے درمیان، ۱۹۹۳ میں اسرائیل اور شہید یاسر عرفات فلسطینی قیادت کے درمیان اوسلو میں امن معاہدہ ہوا، نتیجے میں پی ایل او کو مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے میں محدود حکمرانی کا اختیار ملا، اس سےقبل اسرائیل اور اردن کے درمیان امن معاہدہ ہوا جس میں دونوں فریق ہر قسم کی سیاسی، سفارتی اور عسکری مہم جوئی کو ترک کرنے، مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی، ایک دوسرے کے خلاف ملٹری الائنس سے اپنے کو الک رکھنے اور اردن کی مغربی کنارے سے دستبرداری پر آمادگی جیسے معاملات طے پائے۔ یہ معاہدہ آج بھی پوری طرح قائم ہے۔ ۲۰۰۵ میں رضاکارانہ طور پر مقبوضہ علاقے سے یہودی بستیوں اور ایک دوسرے کے خلاف، غزہ اسرائیل کے حوالے سے معاملہ سازی کے تحت کچھ معاملات طے ہوئے۔ ۲۰۱۲ میںاسرائیل حماس سیزفائر ہوئی، ۲۰۲۰ میں ابراہم امن معاہدہ ہواجس کے تحت بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراقش نے اسرائیل کے ساتھ اپنے رشتوں کو معمول کے مطابق کرلیا اور اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیا۔ ابھی حال میں ۱۵؍اکتوبر ۲۰۲۵ کو حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا جس کے تحت ایک نہایت کم اسرائیلی قیدیوں کی تعداد کی رہائی کے بدلے میں سالہا سال سے بند ہزاروںفلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا گیا۔
جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تو عرب ممالک نے اس کو عرب لیگ سے باہر کر دیا ۔اس کا صدر دفتر بھی تیونس منتقل ہوا،اس کے بعد اردن نے ایک معاملہ کیا ۔پھر یاسر عرفات نے ایک معاملہ کیا۔ اس سلسلے کے آگے بڑھتے بڑھتے ایران عراق جنگ ہوئی، عراق امریکہ خلیجی جنگ ہوئی صدام حسین کا کیا انجام ہوا، کرنل قزافی کس انجام کو پہنچے، یمن کا آج کیا حال ہے، سوڈان دو حصوں میں تقسیم ہوا، حماس، حزب اللہ اور متعدد مسلح جد و جہد کی مہم جوئی کا کس شرمناک طریقے سے خاتمہ ہوا ۔
مضبوط ملک شام کا کیا حشر ہوا، پورا خطہ کس بیچارگی کا شکار ہوا، اسرائیل میں کی گئی مسلح مہم جوئی جس کے نتیجے میں ۱۲۰۰ یہودی مارے گئے اور پھر بدلے کی کارروائی میں جس انسانیت سوزی کا دنیا نے مظاہرہ دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
انجام کار ان سب میں کچھ سبق ہے۔ پہلا فیصلے اپنی بساط کے مطابق ہوں، جنون کی ہر شکل کسی خودکش کارروائی سےکم نہیں! اسرائیل کو اس وقت کی بڑی اور طاقتور ترین عالمگیر قوتوں نے جبر سے بنایا۔ آپ مقابلے کے لائق نہ تھے، معاملہ فہمی سے کام لیتے تو شاید فلسطین کو جو اس وقت ملا، اس سے زیادہ مل سکتا تھا۔ جنون نے جو ملا اس میں سے مزید ۱۷ فیصد گنوادیا، ۱۹۶۷ سے قبل آخری کوشش رہی کہ اسرائیل کو سوئز کنال میں ملی گزرگاہی کا جو حق ملا ہوا تھا وہ کسی طرح معاملہ فہمی سے حل ہوجائے۔چھ روزہ جنگ میں جو حشر ہوا سامنے ہے، انور السادات شاہ اردن نے معاملہ فہمی سے کام لیا تو جو وہ امن کے ساتھ لے سکے آپ کے سامنے ہے ۔اس پورے خطے میں جنون جہاں جس شکل اور جن ناموں سے رہا اس کی نذر کیا نہ ہوا؟ آج ۲۰۲۵ میں جو ہوا اور آخر کار معاملہ فہمی ہی کام آئی۔
کیا مسلمانان عالم کی کچھ سخت گیرقوتیں صورت احوال سےکوئی سبق لیں گی۔ اس حوالے سے اسرائیل کے ذریعہ کی جانے والی بیجا انسانیت سوزی کا دفاع ہر گز مقصود نہیں! مسلمانان عالم، مسلم حکمراں، عوام و خواص سب مہم جوئی کے راستے کو ترک کریں ۔پل سازی کے لئے مکالمہ اور مفاہمت کو مستقل لائحہ عمل تسلیم کرتے ہوئے اپنے اندرونی وبیرونی معاملات کو سلجھائیں۔ سخت گیری اور اسلام کا کوئی ساتھ نہیں، امن، صلح، سلامتی اور آشتی کا دین اسلام اپنےپیروکاروں سے ایسے ہی رویوں کی توقع رکھتا ہے۔ سیرت رسول اللہ کا مطالعہ اور اس پر عمل ہر مشکل میں سرخ روئی کا واحد راستہ ہے۔
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/dialogue-based-reconciliation-strategy/d/137319
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism