New Age Islam
Mon Mar 24 2025, 03:48 PM

Urdu Section ( 8 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Can Such Destructive And Terrible Wars Be Prevented? کیا ایسی تباہ کن اور خوفناک جنگوں کو روکا جاسکتا ہے؟

پی چدمبرم

7 نومبر 2023

زمین پر لاکھوں  برس پہلے انسان کی تخلیق ہوئی۔ آج یہ مانا جاتا ہے کہ ہومو سیپیئنس (انسان کی ترقی یافتہ شکل یعنی ہم)، زمین پر حیاتی ارتقاء کی تاریخ میں  سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ذہین ہیں ۔ اس کے برعکس میرا ماننا ہے کہ آج کے انسان اور نینڈرتھل (پتھر کے زمانہ سے قبل کا انسان) میں  کوئی فرق نہیں ۔ وہ بھی بنا کسی اصول کے لڑتے تھے اور ہم بھی ضوابط کو خاطر میں  لائے بغیر جنگ کر رہے ہیں ۔

 انسانی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں  بھی جنگ کے اصول ہوا کرتے تھے۔ دوسری صدی قبل مسیح کی تمل شاعرہ نیٹی میار کے ذریعے لکھی گئی ایک نظم میں  تمل حکمرانوں  کیلئے جنگ کے بعض اصول بیان کئے گئے ہیں ۔ نظم کا مفہوم یوں  ہے۔ ’’جنگ چھیڑنے والے جنگجو بادشاہ کو پیشگی تنبیہ کی جائیگی۔ گائے، رحم دل پجاری، عورتوں ، بیماروں ، اور لاولد اور بے سہارا افراد کو قتل نہیں  کیا جائے گا۔ جنگ کے میدان میں  طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک جنگ لڑی جائے گی۔ اگلے دن سورج نکلنے پر جنگ جاری رہے گی۔‘‘

 تمل میں  رامائن لکھنے والے عظیم تمل شاعر کامبن لکھتے ہیں ، رام نے تھکن سے چور اور ہار کے دہانے پر کھڑے راون سے کہا، ’’آج تم جا سکتے ہو۔ جنگ کے لئے کل آنا۔‘‘ اگر جنگوں  کو مہذب یا غیر مہذب کہا جاسکتا، تو ماضی میں  جنگیں  یقیناً مہذب ہوا کرتیں  تھیں  کیونکہ وہ اصولوں  کے تحت لڑی جاتی تھیں ۔ لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں  صورت ِحال بدل چکی ہے۔ خصوصاً روس یوکرین اور حماس اسرائیل کے درمیان جو جنگیں  لڑی جارہی ہیں  وہ وحشیانہ اور غیر مہذب ہیں ۔ ان جنگوں  میں  اندھا دھند بم برسائے جارہے ہیں  جس کی وجہ سے یوکرین اور غزہ کے کئی حصے کھنڈر میں  تبدیل ہو چکے ہیں ، سیکڑوں  اسپتال اور اسکولی عمارتیں  تباہ کردی گئیں  ہیں  اور ہزاروں  بچے، عورتیں ، بزرگ اور مریض موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں ۔ علاوہ ازیں ، ہزاروں  بے گھر افراد پڑوسی ممالک میں  ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ، پانی اور بجلی کی فراہمی بند ہو چکی ہے اور رسد کی فراہمی کے نظام کو بھی بری طرح نقصان پہنچا۔ جنگ زدہ علاقوں  میں  ضروری اور بنیادی ادویات کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان علاقوں  میں  ضروری اشیاء کی گاڑیوں  کو روک دیا گیا ہے۔

 ان جنگوں  کو سمجھنے کیلئے ہمیں  ان کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ روس یوکرین جنگ غلبہ حاصل کرنے یعنی توسیع پسندی کے مقصد سے لڑی جارہی ہے۔ یوکرین ۱۹۲۲ء سے ۱۹۹۱ء تک سوویت یونین کا حصہ تھا۔ ہزاروں  روسی نسل کے افراد نے یوکرین کے علاقوں  میں  رہائش اختیار کی اور وہاں  کے نظام پر غالب آگئے۔ سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد روس اور ناٹو ممالک کے درمیان یوکرین ایک خالی میدان کی طرح تھا۔ لیکن روس کو یہ ڈر ستانے لگا کہ اگر یوکرین ناٹو میں  شامل ہوگیا تو ناٹو افواج روس کی سرحد پر آ کھڑی ہوں  گی اسلئے روس چاہتا ہے کہ اس معاملے میں  یوکرین غیرجانبدار رہے اور وہ روسی نسل کی آبادی والے یوکرین کے علاقوں  کو فتح کرکے روس میں  شامل کرلے۔ اس طرح روس یوکرین جنگ کی وجہ متنازع زمین ہے اور اس کا مقصد یوکرین کے کچھ علاقوں  کو روس میں  ضم کرنا اور دیگر کو غیر جانبدار رہنے پر مجبور کرنا ہے۔

 اسرائیل حماس جنگ کے پیچھے بھی زمینی تنازع کارفرما ہے۔ حماس کے حامیوں  سمیت تمام فلسطینی مانتے ہیں  کہ اسرائیلیوں  نے ان کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ تاریخ کے مطابق اس سرزمین کو فلسطین کہا جاتا تھا اور مسلمان، یہودی اور عیسائی یہاں  مل جل کر رہتے تھے۔ اقوام متحدہ کے فرمان پر ریاستِ اسرائیل کا قیام عمل میں  آیا جس کے باعث ۱۹۴۸ء سے یہودیوں  کو اس علاقے میں  بسایا جانے لگا۔ پچھلے ۷۵؍ سال میں  اسرائیل ایک طاقتور ریاست بن کر ابھرا ہے۔ خطہ میں  وہی نیوکلیائی طاقت کا حامل ہے۔ تاریخ بھلے ہی فلسطینیوں  کے ساتھ ہو لیکن آج حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹایا نہیں  جاسکتا۔

 عالمی سطح پر اقوام متحدہ ایک اہم ادارہ ہے جس کے آئین میں  لکھا ہے: ’’ہم اقوام متحدہ کے عوام، اگلی نسلوں  کو جنگوں  اور ان کی ہولناکیوں  سے بچانے کا عزم کرتے ہیں  جنہوں  نے ماضی قریب میں  انسانیت کو دو دفعہ شرمندہ کیا ہے۔اور ہم یقینی بنائیں  گے کہ مسلح طاقت کا استعمال نہ ہو۔‘‘ لیکن جنگیں  ہنوز جاری ہیں ۔ اقوام متحدہ، اپنے مقاصد یعنی اگلی نسلوں  کو جنگ کی تباہی سے بچانے اور مسلح طاقت کے استعمال کو روکنے میں  بری طرح ناکام ہوا ہے۔ مزید برآں  کہ آج کے دور میں  جنگوں  کی نوعیت بدل چکی ہے۔ پہلے ایک سپاہی، دوسرے سپاہی سے لڑتا تھا۔ اب مشینیں  مشینوں  سے لڑتی ہیں  اور ڈرون میزائلوں  کا مقابلہ کرتے ہیں ۔

 اگر ہم زمین سے جڑے تنازعات کو حل کرنے کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں  کر سکے تو جنگیں  ہوتی رہیں  گی۔ ہندوستان اور پاکستان میں  تنازع کی بنیاد بھی زمین ہے۔ دائیں  بازو کے شدت پسند، اسے ہندوؤں  اور مسلمانوں  کا تنازع کہنے میں  ذرا نہیں  ہچکچاتے۔ ایسا کرنا دونوں  ممالک کیلئے نقصاندہ ہے۔ دونوں  ممالک نے تقسیم اور آزادی کے فیصلہ کو منظور کیا تھا لیکن پاکستان ہندوستان کی زمین کو للچائی نظروں  سے دیکھ رہا ہے۔ ہندوستان اور چین کے درمیان تنازع بھی زمین کی بنیاد پر ہے۔ یہ تنازع نسبتاً زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ سرحدی علاقے تقسیم کئے جانے کے باوجود حریفوں  کے دعوے برقرار ہیں ۔ ایسے تنازعات کو گفتگو کے ذریعہ ہی حل کیا جاسکتا ہے، جنگ کے ذریعہ نہیں ، بقول وزیر اعظم مودی، ’’آج کا دور، جنگ کا نہیں  ہے۔‘‘ پوپ فرانسس نے روس یوکرین اور اسرائیل حماس کے درمیان امن قائم کرنے کیلئے کئی اپیلیں  کیں  لیکن کسی نے ان پر توجہ نہیں  دی۔ پوپ کے پیش رو نے بھی جذباتی اپیل کی تھی کہ ’’اب کوئی جنگ نہیں  ہوگی، کبھی نہیں ۔‘‘ لیکن کسی نے انہیں  بھی سنجیدگی سے نہیں  لیا۔

 ۱۹۸۲ء میں  ۱۵۰؍ سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ معاہدہ برائے سمندری قانون پر دستخط کئے تھے جس کے تحت بین الاقوامی عدالت برائے سمندری قانون قائم کی گئی۔ اس عدالت نے سمندری سرحدوں  سے متعلق کئی تنازعات کو کامیابی سے حل کیا۔ ہم یہ چاہتے ہیں  کہ زمین سے جڑے تنازعات کو حل کرنے کیلئے بھی ایک بین الاقوامی عدالت قائم ہو۔ اگر یہ نہیں  ہوا تو جنگوں  کو روکنا ناممکن ہے جس کے نتیجے میں  مشین مشینوں  کا اور ہتھیار، ہتھیاروں  کا مقابلہ کرتے رہیں  گے اور ہلاکتیں  اور تباہی ہوتی رہے گی۔

7 نومبر 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

---------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/destructive-terrible-wars-prevented/d/131068

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..