دارالعلوم دیوبند کا کہنا
ہے کہ مشاعرہ دارالعلوم نے منعقد نہیں کیا تھا۔
اہم نکات
1. ویڈیو میں دیکھا جا
سکتا ہے کہ ایک شاعرہ داڑھی اور ٹوپی والے لڑکوں اور مردوں سے گھری ہوئی ہے۔
2. لڑکے بے ہودگی اور
بدتمیزی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
3. دیوبند کے محمود
ہال میں یہ مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔
4. دارالعلوم دیوبند
کا بیان کہ ہم اس واقعے کی چھان بین کر رہے ہیں۔
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
10 نومبر 2023
28 اکتوبر 2023 کو سعودی عرب نے کھیلوں اور تفریحی سیریز کے سیزن 4
کا آغاز کیا جس سے فلسطین میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کے درمیان ایک نیا تنازعہ
شروع ہو گیا۔ پورا عالم اسلامی مملکت سعودیہ اور اس کے شہزادے محمد بن سلمان کو
تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ انہوں نے فلسطینیوں کے دکھ درد اور ان کی اذیت
ناک صورت حال کو نظر انداز کیا ہے۔ سعودیہ کی اس تقریب کے دس دن بعد دیوبند میں
منعقد ایک مشاعرے نے ایک نیا تنازعہ جنم دیا۔ 2 نومبر 2023 کو دیوبند کے محمود ہال
میں یہ مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ اس کی سرپرستی سلیم احمد سلیم نے کی اور صدارت صداقت
دیوبندی نے۔ مشاعرے میں کثیر تعداد میں شعراء کرام نے شرکت کی۔ یہ نزاع سامعین کے
بیہودہ اور بے ہنگم ردعمل اور اشاروں اور کنایوں کی وجہ سے پیدا ہوا جس میں زیادہ
تر داڑھی اور ٹوپی والے اسلامی لباس میں ملبوس لڑکے ملوث پائے گئے۔ شاعرہ کو مدرسے
کے طالب علموں نے گھیر رکھا تھا جو ایک رومانوی غزل سنا رہی تھی۔ مشاعرہ کی ایک
ویڈیو وائرل ہوئی جس سے ایک نیا تنازعہ شروع ہو گیا۔ مخالف فرقے نے اس ویڈیو کا
فائدہ اٹھایا اور دیوبندی فرقے پر منافقت کا الزام لگا ڈالا۔ ان کی دلیل ہے کہ
دیوبندی میلاد کی مخالفت کرتے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و
توصیف بیان کی جاتی ہے لیکن ایسے مشاعرے منعقد کرتے ہیں جس میں پردے کے بغیر ایک
شاعرہ کو بیہودہ غزلیں سنانے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
دارالعلوم نے بغیر کسی
تاخیر کے وضاحت نامہ جاری کر دیا۔ دارالعلوم کے سربراہ مولانا ابوالقاسم نعمانی نے
کہا کہ دارالعلوم کا اس مشاعرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہال کا نام مولانا محمود
الحسن کے نام پر رکھا گیا ہے لیکن اس کا انتظام و انصرام ایک ٹرسٹ کے ذمے ہے۔
مشاعرہ کا اہتمام و انتظام دیوبند کے سیاستدانوں نے کیا تھا۔ دارالعلوم کے طلبہ اس
مشاعرے میں موجود نہیں تھے اور چھان بین شروع کردی گئی ہے۔ اگر دارالعلوم کے طلبہ
اس میں ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ دیوبند فرقے
کے ایک اور مفتی نے کہا کہ مشاعرہ میں مدرسے کا کوئی طالب علم موجود نہیں تھا۔
دیوبند کے تمام لوگ اسلامی لباس اور ٹوپی میں ملبوس ہوتے ہیں اسی وجہ سے ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ وہاں مدرسے کے طلباء موجود تھے۔
مولانا سجاد نعمانی نے اس
واقعہ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ افسوسناک ہے۔ ظاہر
ہے کہ وہاں مدرسے کے طلبہ ہی موجود تھے نہ کہ کالج کے طلبہ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ
کئی برسوں سے مدارس کے طلباء اخلاقی طور پر زوال پذیر ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ
مدرسہ کے حکام اور اساتذہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور و فکر کریں۔ انہیں طلبہ کی
کردار سازی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے نہ کہ زیادہ طلبہ حاصل کرنے پر۔
شاعر ضیاء باغپتی کے
اعزاز میں جس وقت یہ مشاعرہ منعقد کیا گیا اس پر بھی کافی باتیں کی جا رہی ہیں۔
مشاعرے میں فلسطینیوں کے قتل عام پر کوئی بات نہیں کی گئی اور سامعین کے ذہن میں
غزہ کے بچوں اور خواتین کا ذرہ برابر بھی کوئی خیال نہیں آیا جو ہر روز موت کا مزہ
چکھ رہے ہیں۔ کیونکہ وہ ایسے وقت میں مشاعرے کا انعقاد کر رہے ہیں جب سوشل میڈیا
پر ہر طرف بچوں کی لاشوں اور ہسپتالوں پر حملوں کے ویڈیو نشر ہو رہے ہیں۔ مدرسہ کے
طلباء کہ جن پر مذہبی رنگ غالب ہوتا ہے، ان سے توقع تو یہی تھی کہ وہ شاعرہ کی
شاعری سنتے ہوئے نظم و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کرتے۔ اب یہ بات دیکھی جا رہی ہے کہ
آج کل مدارس کے طلباء مشاعروں میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں اور ٹوپی اور داڑھی والے
لوگ زیادہ تعداد میں مشاعروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ مولانا سجاد نعمانی نے اس کی جو
وجہ بتائی وہ یہ ہے کہ دور دراز سے دیہات کے لڑکے مدرسے میں پڑھنے آتے ہیں اور جب
بھی انہیں ایسے غیر معیاری پروگراموں میں شرکت کا موقع ملتا ہے تو ان کے دبے ہوئے
جذبات میں جوش ابل پڑتا ہے۔ انہیں ادب اور شاعری میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ خواتین
کی رومانوی شاعری سننے اور دیکھنے کے لیے مشاعرے میں جوق در جوق چلے آتے ہیں۔
یہ ایک المیہ ہے یا
مسلمانوں کی بے حسی کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب سارا عالم اسلام آج فلسطین کے مظلوم
بچوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں کھڑا ہے۔ کینیڈین شاعرہ روپی کور نے فلسطینیوں کی
نسل کشی پر اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کے خلاف احتجاج درج کرواتے ہوئے امریکی
حکومت کی طرف سے وائٹ ہاؤس میں دیوالی کی تقریبات میں شرکت کی دعوت کو مسترد کر
دیا۔ مغربی دنیا کے لاکھوں عیسائی اور یہودی غزہ کے باشندوں اور بالخصوص مظلوم
بچوں کے قتل عام کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے اسرائیلی نوجوانوں نے
فوجی تربیت میں شامل نہ ہونے کی سزا میں جیل جانے کو ترجیح دی ہے تاکہ فلسطینیوں
کے خون سے ان کے ہاتھ رنگین نہ ہوں۔
ہندوستان میں مسلمان
مشاعرے اور دیگر تفریحی پروگرام منعقد کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی دیوالی کی ایک
بڑی تقریب کا منصوبہ بنایا ہے۔ سعودی عرب نے اسی رات شکیرا کے گانوں اور رقص و
سرور کی محفل روشن کی جس رات غزہ میں بچوں سمیت دو سو سے زائد بے گناہ افراد کا
قتل عام کیا گیا۔ ایک ایسا طبقہ جس نے فن اور ادب سے خود کو منقطع کر رکھا ہے وہ
مشاعروں میں دلچسپی کا اظہار کرتا ہے جہاں جعلی شاعر گھٹیا رومانوی اشعار پڑھتے
ہیں، وہ بھی ایسے نازک وقت میں جب ان کے ہی بھائیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور
انہیں کھانے پینے اور ادویات کے بغیر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہمارے مدارس کو
اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس قسم کے علماء تیار کر رہے ہیں۔
English
Article: Deoband Mushaira Controversy: Bareilvi Sect Accuses
Deobandis Of Hypocrisy
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism