معین قاضی، نیو ایج اسلام
12 جولائی 2023
یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر
بحث پر اکثر اس کے سیاسی حامیان اور مذہبی معترضین نے ہنگامہ آرائی کی ہے۔
ہندوستان میں قانونی تکثیریت کا نظام رائج ہے جو مختلف مذہبی برادریوں کے حق میں
ان کے ذاتی قانون اور ضابطوں کے مطابق فیصلے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسے الگ الگ
طبقات کی شناخت کا تحفظ اور آئین میں درج شہریوں کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حق
کی حفاظت مانا گیا ہے۔
آئین تمام شہریوں کو قانون
کا یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے لیے ایک الگ پرسنل لاء ہے
جو 1937 میں نافذ ہوا تھا۔ تاہم، آئین ساز مشترکہ عائلی قوانین چاہتے تھے۔
ہندوستانی آئین کے (ڈائریکیو پرنسپلز آف اسٹیٹ پالیسی "ریاستی پالیسی کے
ہدایتی اصول) کا آرٹیکل 44 حکم دیتا ہے کہ "ریاست تمام شہریوں کے لیے پورے
ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی۔"
یونیفارم سول کوڈ (یو سی
سی) کا مطلب پورے ہندوستان کے لیے شادی، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات
میں ایسے قوانین کی تشکیل ہے جو مذہب اور ذات پات سے قطع نظر سب پر لاگو ہو۔
مسلمانوں کی طرف سے اس کی زبردست مخالفت کی وجہ سے یو سی سی کا خیال ترک کر دیا
گیا، لیکن یہ معاملہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ یہ آنے والی نسلوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا
گیا ہے کہ وہ ذاتی معاملات میں مشترکہ قوانین کے تصور پر غور کریں -- ایک ایسا
یکساں سول کوڈ (UCC) جو تمام ہندوستانیوں پر لاگو ہو۔
آئین سازوں کو یہ احساس
تھا کہ مسلمان فی الحال اپنا پرسنل لاء چھوڑنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہوں
گے، لہٰذا، ابھی مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کا مناسب وقت نہیں ہے۔ قانون ساز اسمبلی
کے فعال شرکاء میں سے ایک جن کا آئین سازی میں کافی اہم کردار رہا ہے، قاضی سید
کریم الدین تھے، جنہوں نے آئین ساز اسمبلی میں سی پی اور بیرار صوبے کی نمائندگی
کی اور جو یاوتمال میں فوجداری معاملات کے ایک سرکردہ وکیل تھے۔
قاضی سید کریم الدین 19
جولائی 1899 کو یاوتمال، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور ایک قابل وکیل بن کر نکلے۔ کریم الدین مسلم لیگ کے
ٹکٹ کے ذریعے وسطی صوبوں سے آئین ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ اسمبلی میں انہوں
نے پرائیویسی (رازداری)، ایمرجنسی پروویزنس (ہنگامی شرائط) اور پروپورشنل
ریپریزنٹیشن (متناسب نمائندگی) سے متعلق ضروری امور پر بحثوں میں حصہ لیا۔ کریم
الدین راجیہ سبھا کے رکن بھی تھے (1958-1954)۔
اس معاملے پر اسمبلی دو
خیموں میں بٹی ہوئی نظر آئی ایک خیمے میں کے ایم منشی جیسے لوگ تھے جبکہ دوسرے
خیمے میں قاضی سید کریم الدین اور مولانا حسرت موہانی جیسے لوگ۔ اسمبلی کے مسلم
ارکان کا ماننا تھا کہ personal laws (ذاتی قوانین) کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ نتیجتاً، ذیلی
کمیٹی برائے بنیادی حقوق کی 5:4 کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ UCC کو فنڈا مینٹل رائٹ
(بنیادی حق) کے زمرے میں نہیں رکھا جائے گا۔
• کے ایم منشی کا ماننا تھا کہ قومی شہری
شناخت کی بنیاد کے طور پر اجتماعیت اور انضمام پیدا کرنے کے لیے مذہب پر کچھ
پابندیاں ہونی چاہئیں۔
• قاضی کریم الدین کی دلیل تھی کہ:
"باہر کے لوگوں اور دستور ساز اسمبلی کے اراکین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک
مسلمان پرسنل لاء کو اپنے مذہب کا حصہ سمجھتا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ
ملک میں اور کم از کم میرے علم کے مطابق ایک بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جو مذہبی
حقوق کی لازمی شق اور پرسنل لاء میں تبدیلی چاہتا ہو اور اگر کوئی ایسا ہے جو
لازمی اصول یا پرسنل لا کی شکل میں اپنے مذہب میں کوئی تبدیلی چاہتا ہے تو وہ
مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اگر آپ واقعی اقلیتوں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ
یہ ایک سیکولر ریاست ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کا کوئی مذہب ہی نہیں
ہونا چاہیے، اگر مسلم اقلیت یا کوئی دوسری اقلیت کا یہ نظریہ ہے کہ وہ اپنے پرسنل
لا کی پابندی کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں آئین میں تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔"
• مجاہد آزادی اور اردو کے مشہور شاعر حسرت
موہانی کی دلیل، جنہوں نے "انقلاب زندہ باد" کا مشہور نعرہ اس قوم کو
دیا، اتنی ہی زور دار تھی: "میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی بھی جماعت، خواہ وہ
سیاسی یا فرقہ پرست ہو، کو کسی بھی طبقے کے پرسنل لاء میں مداخلت کا کوئی حق نہیں
ہے۔ میں یہ بات خاص طور پر مسلمانوں کے حوالے سے کہنا چاہتا ہوں۔ ان کے پرسنل لا
میں تین بنیادی باتیں ہیں، مذہب، زبان اور ثقافت، جنہیں کسی انسانی ایجنسی نے مقرر
نہیں کیا ہے۔ طلاق، نکاح اور وراثت سے متعلق ان کا پرسنل لاء قرآن سے ماخوذ ہے اور
اس کی تفسیر اس میں درج ہے۔ اگر کوئی ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل
لا میں مداخلت کر سکتا ہے، تو میں اسے کہوں گا کہ اس کا نتیجہ بہت نقصان دہ ہو
گا... مسلمان کبھی بھی اپنے پرسنل لا میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے، اور اسے
مسلمانوں کے عزم کی آہنی دیوار ٹکرانا ہوگا کیونکہ وہ ہر طرح سے اس کی مخالفت کریں
گے"۔
. نذیرالدین احمد نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے متاثر ہونے
والے افراد کے سماج سے منظوری لینی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں ایک وقت
آئے گا جب ہر مذہب کے پرسنل لاء میں یکسانیت ہوگی لیکن یہ وقت ابھی نہیں آیا ہے۔
پرسنل لا میں یکسانیت لانے کا اختیار ریاست کے ہاتھ میں دینا قبل از وقت ہے۔ ذاتی
قوانین کے حوالے سے طاقت ریاست کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہیے۔
• ڈاکٹر بابا صاحب
امبیڈکر کا ماننا تھا کہ مذہبی قوانین میں مداخلت کا حق ریاست کو نہیں ہے۔ اس بات
پر جارحانہ رخ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ریاست کے پاس طاقت ہے اور وہ اس
طاقت کو بروئے کار لائے گی جو مسلمانوں سمیت ہر مذہب کے پرسنل لا کے خلاف ہے۔
• ہندوستان کے آئین کے آئینی مشیر سر بی
این راؤ کا خیال تھا کہ یکساں سول کوڈ directive
principles (ہدایتی
اصولوں) کا ایک حصہ ہے جو کہ ریاست کو قانون بنانے کے لیے صرف ایک ہدایت ہے اور
ہدایتی اصولوں میں کم سے کم بصیرت افروز طاقت ہوتی ہے۔
اپنی شاندار تقریر میں،
قاضی کریم الدین نے کہا کہ آرٹیکل 31 میں، ملک کا معاشی نظام مبہم عمومیات پر مبنی
ہے۔ اس لیے لفظ Directive 'ہدایت' کو حذف کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے اس تجویز کی تائید کی کہ
انہیں ریاستی پالیسی کے بنیادی اصول بنا دیا جائے۔ ان کا ماننا تھا کہ لفظ Directive 'ہدایت' غیر ضروری
اور بے معنی ہے۔
اس باب کے تحت دفعات
فرسودہ یا حقیقت سے دور ہو گئے، اور ڈاکٹر امبیڈکر نے بجا طور پر کہا کہ وہ کل ملا
کر صرف ہدایات کے آلات ہیں۔ اگر وہ انسٹرومنٹ آف انسٹرکشن (ہدایات کے آلات) ہیں تو
انہیں آئین کے بنیادی اصولوں میں جگہ کیسے دی جا سکتی ہے؟
قاضی کریم الدین کا خیال
تھا کہ حصہ چہارم میں موجود Directive Principles
provisions
(ہدایتی اصولوں کی دفعات) اہم ہیں کیونکہ وہ یکساں سول کوڈ، معاشی نظام اور بہت سے
بنیادی معاملات سے متعلق ہیں۔ ہدایتی اصولوں کا مطلب ہے کہ ان کا نفاد ریاست پر
ضروری نہیں۔ بہر صورت، وہ عدالت کی نظر میں قابل عمل نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا یہ
تھا کہ اگر یہ آئین ان اصولوں کو عدالت کی نظر میں نافذ العمل نہیں بناتا یا اگر
ان کا نفاد ریاست کی ذمّہ داری نہیں، تو یہ بے معنی ہیں۔ انہوں نے آئین ساز اسمبلی
کے اراکین کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جو ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنی کتاب میں کہی تھی۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا
کہ ہم کچھ خاص اصول وضع نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہم آنے والی نسلوں کو اپنے اصول
وضع کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ آرٹیکل 31 میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ معاشی،
سماجی اور دیگر چیزوں میں بہتری آئے گی۔ جنرلائزیشن کا کیا کام ہے، جس کا ذکر
آرٹیکل 31 میں ہے؟ لہذا، ان اصولوں کو ہدایتی قرار دینے میں کوئی فائدہ نہیں؛ ایسا
طریقہ عوام اور ریاست کی بھلائی کے لیے کار آمد ثابت نہیں ہوگا۔ ان تمام اصولوں کو
لازمی قرار دیا جانا چاہیے تاکہ ان اصولوں پر مشتمل ایک اسکیم دس سال کے اندر اندر
عمل میں لائی جا سکے۔
سپریم کورٹ نے سرلا مدگل
کے فیصلے میں یہ تنبیہ کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا، "یکساں سول کوڈ کی ضرورت
پر شک نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے تب ہی عملی شکل دیا جا سکتا ہے جب سماجی ماحول
کو معاشرے کے اشرافیہ اور سیاستدان اس کے لیے ساز گار بنا دیں، وہ ذاتی فائدہ حاصل
کرنے کے بجائے، اس سے اوپر اٹھیں اور عوام کو اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے بیدار
کریں۔"
لا کمیشن نے، 2016 میں
حکومت کی طرف سے دیے گئے ایک ریفرنس پر عمل کرتے ہوئے، 31 اگست 2018 کو، عائلی
قانون میں اصلاحات پر ایک مشاورتی پیپر جاری کیا۔ اس مشاورتی پیپر میں شادی اور
طلاق، تحویل اور سرپرستی، گود لینے اور دیکھ بھال اور وراثت وغیرہ جیسے مسائل کو
شامل کیا گیا تھا۔
185 صفحات پر مشتمل
مشاورتی پیپر میں کمیشن نے امتیازی قوانین کا ذکر کیا ہے "بجائے اس کے کہ وہ
یکساں سول کوڈ کی بات کرتا جو کہ اس مرحلے پر نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی
مطلوب۔"
کمیشن نے مشاورتی پیپر میں
کہا: "اگر چہ متنوع ہندوستانی ثقافت سے ہم سب کو لطف اندوز ہونا چاہئے، لیکن
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی مخصوص جماعت یا معاشرے کے کمزور طبقات محروم نہ رہ
جائیں۔ اس تنازعہ کا تصفیہ اختلاف کو ختم کرنا نہیں ہے۔ اس لیے کمیشن نے UCC پیش کرنے کے بجائے
امتیازی قوانین کا حل فراہم کیا ہے"۔
English
Article: Demystifying The Uniform Civil Code
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism