New Age Islam
Tue Jan 14 2025, 12:28 PM

Urdu Section ( 2 Aug 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why the demotion of Madrasas? مدارس کی تنزلی آخر کیوں؟

 By Syed Nawab Ali Saryawi

Following excerpts from Urdu article were translated by Arman Neyazi of NewAgeIslam.com

The world today is on the path of progress but madrasas are on the decline although increasing day by day in number. What is the reason that now madrasas are not producing scholars, scientists and researchers of high standard? During the last centuries they produced many such people who served the world in a way which cannot be forgotten. World will always be indebted to them. Some of them are: Ibn Biljabr (father of Algebra), Ibn Sena (father of Medicine), Jaabir bin Hayaan (father of Chemistry), Khildoon (father of Sociology and Political Science), Al Quasimul Jebarbi (father of Surgery), Ibn Nafisi (father of Blood Pressure) and Ahmad Memar (architect) who had designed Taj Mahal. These are the people who took their education in madrasas and reached to the top in different spheres in the world.

The basic reason of this pathetic situation is not imparting worldly education to the students. One cannot be a guide to the nation or the society unless one has a variety of worldly knowledge. Hazrat Ali (KW) has said: “Teach your children according to the needs of their time not of yours as they have been borne for the coming days.” Prophet Muhammad (SAW) says: “Studying is a duty for every Muslim man and woman. And Prophet (pbuh) further says, “Study, even if you have to travel to China”. Prophet Muhammad (SAW) has not asked for any particular course of study, be it worldly or religious. He has not kept any one particular knowledge above the other. It is a different matter that there is something which one should learn first. When a question of “priority of knowledge” was asked to Imam Jaffer Sadique (RA), he said, “No knowledge is above another knowledge but the knowledge one has to take advantage of should be given priority. And in today’s world one should take advantage of two subjects, knowledge of medicine and knowledge of Deen. (Supermen in Islam)

URL: https://newageislam.com/urdu-section/demotion-madrasas-/d/5165

سید نواب علی سریاوی

آج دنیا کی راہوں پر گامزن ہے لیکن مدارس روز بروز تنزلی کی طرف جارہے ہیں جبکہ مدارس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے آخر کیا وجہ ہے آخر کیا وجہ ہے کہ آج کے زمانے میں کسی مدرسہ سے عظیم استعداد کے مالک اسکالر ، محقق اور سائنسداں نہیں نکل رہے ہیں جبکہ گزشتہ صدیوں میں بہت سارے افراد وجود میں آئے جن کا رشتہ تعلیم مدرسے سے جڑا تھا اور یہیں سے انہوں نے کمال حاصل کیا اور دنیائے علم وادب میں گراں بہاخدمات انجام دیں جن کو زمانہ نہیں بھلا سکتا اور ہمیشہ ان کا حسان مند اور مقروض رہے گا اور ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔

ابن بالجبر (فادر آف الجبرا) ، ابن سینا (فادر آف میڈیسن )، جابر بن حیان(فادر آف کمیسٹری)، خلدون (فادر آف سوشیا لوجی اور پولیٹیکل سائنس)، القاسم الجباربی (فادر آف سرجری)، ابن نفیسی (فادر آف بلڈپریشر) اور احمد معمار جس نے تاج محل کا نقشہ تیار کیا۔ یہ وہ مدارس کے طلبا ہیں جنہوں نے کمیسٹری ، الجبرا، سوشالوجی، پولیٹیکل سائنس اور میڈیسن کی دنیا میں جان ڈالی اور اس کو پروان چڑھایا لیکن آج ان کی روحیں مدارس کی موجودہ صورت حال سے گریہ کناں ہوں گی اور اس پر اگندہ صورت حال کی پہلی وجہ ہے دنیاوی تعلیم نہ دینا کیونکہ جو انسان دنیا کے حالات ، سائنسی انکشافات اور تاریخی معلومات سے ناواقف ہوگا وہ اچھا قائد اور رہبر نہیں بن سکتا اور مولا علیؑ کا ارشاد ہے کہ اپنے بچوں کو زمانے کے اعتبار سے تعلیم دو نہ کہ اپنے زمانے کے اعتبار سے کیونکہ ان کو آئندہ زمانے کے لئے خلق کیا گیا ہے اور حضرت رسول خداﷺ کا قول ہے کہ علم حاصل کرنا فرض ہے ہر مسلم اور مسلمہ پر اور فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہئے تمہیں چین جانا پڑے تو دونوں حدیثوں میں آپ نے کسی علم سے مخصوص نہیں کیا ہے نہ دنیاوی نہ دینی اسی وجہ سے کسی بھی علم کو دوسرے علم پر فوقیت نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ بعض علوم کو سیکھنے میں جلدی کرنی چاہئے کیونکہ جب امام جعفر صادقؑ سے پوچھا گیا کہ متعدد علوم میں سے کون سے علم کو دوسرے علم پر ترجیح حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی بھی علم کو دوسرے علوم پر ترجیح نہیں ہے لیکن علوم سے استفادہ کرنے کے موارد میں فرق پایا جاتاہے جس کے نتیجے میں انسان کے لئے لازم ہے کہ بعض علوم کی تحصیل میں جلدی کرے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے ایک علم دین اور دوسرے علم طب سے ۔ (سپر مین ان اسلام)اور آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ علوم میں جتنی ترقی ہوگی دین کی تقویت کا باعث ہوگا نہ کہ علمی تحقیقات میں رکاوٹ کا سبب بنے گا جبکہ دوسری اقوام والے خصوصاً عیسائیت میں علمی تحقیقات کو مذہب کے لئے خطرہ مانا جاتا تھا۔اسی وجہ سے رابرٹ ہوک نے تین سوسال پہلے لندن کے شاہی علمی اجتماع کے بانیوں میں سے ایک بانی فرد کی حیثیت سے کہا کہ ہمارے مذہب کو علمی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے جبکہ اسلام نے ابتدا سے ہی علوم کے حصول اور علمی تحقیقات پر زور دیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مدارس رومن کلچر کی پرشش کررہے ہیں کیونکہ عیسائیوں کے مدارس میں جس کو انگریزی میں سمیزی کہا جاتا ہے یعنی صرف مذہب کی باتیں اور یہ طریقہ ہمارے مدارس میں بھی آگیا ہے جس کی وجہ سے وہ جدید تعلیم کو اپنے لئے زہر سمجھنے لگے اور اسکے بارے میں مشہور مؤرخ اور محقق ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے جس کا ذکر نفیس احمد نے 22اپریل 2007کی فاروقی تنظیم بہار میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہر طرح کے ٹیچروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ادنیٰ خاندانوں میں پیدا ہونے والوں اور جاہلوں کو نہ پرھائیں اور چھوٹے لوگوں کو نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں ہی بتلائیں ۔ انہیں صرف قرآن پڑھائیں جس کے بنا پر یہ مدہب مکمل نہیں ہوتا ہے، انہیں زیادہ پڑھنا لکھنا نہ سکھائیں کیونکہ اگر یہ لوگ زیادہ پڑھ لیں گے تو سماج میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجائیں گی اور نفیس احمد فرماتے ہیں کہ اے پی جے عبدالکلام ، مولان ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر اقبال نے بھی شروعاتی تعلیم مدرسہ میں ہی حاصل کی تھی لیکن یہ درجہ انہیں بعد میں حاصل کی گئی جدید رتعلیم نے دیا اور فرماتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہندوستانی مدرسوں نے خود کو قرآن وحدیث ، نماز، روزے اور حج زکوٰۃ تک محدود کررکھا ہے اور دنیا وی تعلیم کو زہر سمجھنے لگے۔‘‘

لہٰذا ابتدا میں لازم ہے کہ سات یادس سال تک مختلف علوم پڑھائے جائیں پھر آئندہ کے لئے کوئی مضمون دے دیا جائے جو اسے ہر دلعزیز ہو اور ہر مدرسہ کا نصاب اور ضابطۂ عمل ایک ہو اور ایک ہی مرکز تعلیم سے جڑا ہوا ہوتا کہ بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لئے رکاوٹ کا باعث نہ ہو اور نصاب کی تدوین و تالیف کرنے والے اس فن کے ماہر ین ہوں اور ان کی تحریر کا طرز جامع اور مانع ہو اور نصاب کیا کتابیں ہر طالب علم کی ذاتی ہوں تب ہی مدرسہ اعلیٰ منازل کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے اور کامیاب وکامران ہوسکتا ہے اور مدارس میں لازم ہے کہ اساتذہ اور ذمہ دار لائق وفائق اور اچھے اخلاق و آداب کے حامل ہوں کیونکہ جب یہ حریص دنیا اور عاجزی کرنے والے ہوں گے تو حقوق کی پامالی ہوگی اور مدرسہ کا نظام صحیح رخ جپر نہیں چلے گا اور مولا علیؑ کا ارشاد ہے کہ حکم خدا کا وہی شخص نفاذ کرسکتا ہے جو حق کے معاملہ میں نرمی نہ برتے ، عجز وکمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص وطمع کے پیچھے نہ لگ جائے ۔ (نہج البلاغہ کلمات قصار)

لہٰذا اچھے اخلاق و آداب کے مالک اساتذہ کا ہونا ضروری ہے کیونکہ جو خود برا ہوگا وہ صحیح راہ کی جانب رہنمائی نہیں کرسکتا ہے اور اس کی مثال درزی کی طرح ہے ۔ اگر درزی ماہر فن ہے تو خراب کپڑے کو پہننے کے لائق اور عمدہ بنا دے گا لیکن اگر دورزی خراب ہے تو اچھے اور قیمتی کپڑے کو برباد کردے گا۔اسی طریقہ سے اگر استاد اچھا ہوگا تو جاہل اور کاہل طالب علم کو بھی زیور علم سے آراستہ کردے گا لیکن اگر جاہل اور بداخلاق ہوگا تو ذہین اور سمجھدار طالب علم کو بھی خراب کردے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اساتذہ اچھے اخلاق و کردار سے آراستہ ہوں اور دینی امورپر عمل پیرا ہوں اور اساتذہ کو چاہئے کہ ابتدا میں بچوں کو عقائد کا درس دیں کیونکہ سارے اعمال کا دارومدار عقیدہ پر منحصر ہے کیونکہ اگر عقیدہ غلط ہوگا تو کوئی عمل منفعت بخش نہیں ہوگا لہٰذا عقیدہ کا پختہ ہونا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین اپنے فرزند سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے چاہا تھا کہ پہلے تمہیں کتاب خدا اور احکام شرع اور حلال وحرام کی تعلیم دوں اور اس کے علاوہ دوسری چیز کا رخ نہ کروں لیکن یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں وہ چیزیں جن میں لوگوں کے عقائد اور مذہبی خیالات میں اختلاف ہے تو پر اسی طرح مشتبہ نہ ہوجائیں جیسے ان پر مشتبہ ہوگئی ہیں۔باوجود یہ کہ ان غلط عقائد کا تذکرہ تم سے مجھے ناپسند تھا مگر اس پہلو کو مضبوط کردینا تمہارے لئے مجھے بہتر معلوم ہوا تو زمانے کے اختلافات سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے اعتقاد کی بنیادوں کو مضبوط کریں تاکہ کہیں اختلافات کی ہوائیں اور شیطان کے مکر وفریب کے جال ہمارے عقائد کی بنیادوں کو کھوکھلا نہ کردیں لہٰذا عقائد پر زور دینا چاہئے اور تعلیم میں ہر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو طلبا کی ذہبی نشو ونما کا باعث ہو اور حصول تعلیم میں رغبت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے نثری ادب کا آغاز کیا اور بہتر ین نثر نگار کو انعامات سے نوازا اور اس کاثمر ہ یہ ہوا کہ بہت سارے نثر نگار پیدا ہوئے اور آپ نے شروع میں تین جج مقرر کئے تھے دوشاگرد تھے اور خود آپ پھر بعد میں یہ کمیٹی پانچ ججوں پر مشتمل ہوگئی ۔ جسے تین جج انعام کا مستحق قرار دیتے وہ انعام کا حقدار ہوتا تھا تو اس طریقہ سے امام نے لوگوں کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا اور نثری ادب پر ابھارا لہٰذا مدارس میں کھیل اور ورزش بھی نصاب کا ایک جز ہونا چاہئے کیونکہ یہ ذہن کو تازہ اور جسم کو متحرک اور فعال بناتے ہیں اور سستی اور کاہلی کو دور کرتے ہیں اوربہت سی بیماریوں کی مدافعت کا ذریعہ ہیں لہٰذا تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل اور ورزش پر بھی توجہ دینا چاہئے اور ان سارے نظام اور اصول کا ذمہ دار ایک ہی شخص کو ہونا چاہئے جو سب پر نگراں ہو کیونکہ مولاعلیؑ فرماتے ہیں کامیاب وہ ہے جو اٹھے تو پروبال کے ساتھ ورنہ اقتدار کی کرسی دوسروں کے لئے چھوڑ دے۔ اس طرح خلق خدا کو بدامنی سے محفوظ رکھے کیونکہ جب کئی حاکم ہوں گے تو نظام درہم برہم ہوجائے گا اور نیک شخص اپنا اعتماد کھودے گا لہٰذا ضروری ہے کہ ذمہ دار اساتذہ کو چاہئے کہ طالب علم کو اس بات پر متوجہ کریں کہ وہ اپنا مقصد معین کرلے اور حصول علم تقریب الی اللہ کے لئے ہونہ کہ ذریعہ معاش کے لئے اور معاش کے لئے کسی فن کو سیکھے یا بزنس کرے تاکہ عوام کا محتاج نہ رہے لیکن مذہبی ذمہ داریوں کو فراموش نہ کرے کیونکہ مولا علیؑ فرماتے ہیں جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کیلئے دین سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں تو خدا اس دنیوی فائدہ سے کہیں زیادہ ان کے لئے نقصان کی صورتیں پیدا کردیتا ہے لہٰذا اپنی ذینی ذمہ داریوں کا خیال رکھنا چاہئے اور آخر میں پروردگار سے دعا ہے کہ ہم سب کو علوم اہلبیتؑ کے جاننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین!

URL: https://newageislam.com/urdu-section/demotion-madrasas-/d/5165

Loading..

Loading..