سہیل انجم
12فروری،2025
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں دہلی کے اسمبلی انتخابات کے بارے میں لکھا تھا کہ اگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس ’انڈیا‘ اتحاد سے الگ ہوکر تنہا تنہا الیکشن لڑیں گی اورمسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے تو بی جے پی کی جیت ہوجائے گی، اورہوا بھی وہی، یعنی ہمارا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ ہم نے اپنے کالم میں کسی پارٹی کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ مبنی برحقائق تجزیہ کیا تھا اور لکھاتھا کہ اس بار بہت سے مسلمان تذبذب کے شکار ہیں۔ وہ مسلمانوں کے بارے میں کجریوال حکومت کی مایوس کن کارکردگی سے نالاں ہیں لیکن خواہی نخواہی اسی کو ووٹ دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ممکن ہے کچھ مسلمان کانگریس کو بھی ووٹ دے دیں۔لیکن ہمارے کچھ قارئین کو یہ محسوس ہواکہ ہم نے کانگریس کی حمایت کی ہے۔ بہر حال قارئین کو اپنی رائے بنانے کا حق ہے۔ اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس الیکشن میں کانگریس او ر عام آدمی پارٹی کے الگ الگ لڑنے اور مسلمانوں کے ووٹ منقسم ہوجانے پرالگ الگ انداز سے تجزیہ کیا جارہاہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ آپس میں لڑنے اور انڈیا اتحاد کے بکھرنے کا خمیازہ عام آدمی پارٹی نے بھگتا او راب مسلمان بھی بھگتیں گے۔پٹ پڑ گنج کے نومنتخب بی جے پی ایم ایل اے رویندر سنگھ نیگی کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ ایک بازار کادورہ کررہے ہیں اور مسلمان دوکاندار سے اپنے نام کی تختی لگانے اور ہندو دوکاندار سے بھگوا پرچم لگانے پر زور دے رہے ہیں۔وہ مسلمانوں پرالزامات بھی عائد کررہے ہیں۔ اسی طرح مصطفی آباد کے نومنتخب بی جے پی ایم ایل اے موہن سنگھ بشٹ سے منسوب یہ بیان وائرل ہے کہ مصطفی آباد کانام شیوپوری یا شیووہار کیا جائے گا۔ بہر حال یہ تو ابھی ابتدائے عشق ہے۔ آگے آگے دیکھئے کیا ہوتاہے۔بعض تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ کانگریس انڈیا اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اتحاد کے تحفظ کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔اس نے کبھی اتحاد کو برقرار رکھنے یا فعال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی اس کی کوئی میٹنگ ہوئی اورنہ ہی اس کا کوئی قائد یا کنوینر چنا گیا۔ کانگریس کو بڑے بھائی کا کردار اداکرتے ہوئے دہلی میں الیکشن سے پیچھے ہٹ جانا چاہئے تھا۔ لیکن بعض دوسرے تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ کانگریس پر زور طریقے سے انتخابی مہم چلانے کے حق میں نہیں تھی۔ وہ صرف خانہ پرُی کررہی تھی۔لیکن جب اروند کجریوال نے پوسٹر نکال کر راہل گاندھی کو بدعنوان قرار دیا تو کانگریس نے بھی جم کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔اب جب کہ عام آدمی پارٹی کی شکست ہوگئی تو کانگریس کے خیمے میں خوشی کا ماحول ہے۔ دراصل عام آدمی پارٹی نے کانگریس کے ووٹ بینک پر قبضہ کرکے اپنی بنیاد مضبوط کی تھی۔ اس الیکشن میں جس طرح کانگریس کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہوا ہے اس کے پیش نظرپارٹی میں یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ وہ دہلی میں اپنی کھوئی ہوئی زمین حاصل کرلے گی۔ لیکن اسے یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دہلی میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوجانے سے اسے کوئی راحت نہیں ملے گی۔ بلکہ ممکن ہے کہ بی جے پی کانگریس کے بچے کچھے ووٹ کوبھی ختم کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کرے۔ وہ عام آدمی پارٹی کو تو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی تاکہ کجریوال نامی خطرہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ٹل جائے۔ یوں تو عام آدمی پارٹی کی شکست کے متعدد اسباب ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کی شکست کی ایک بڑی وجہ کانگریس کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہونا ہے۔ یہ دیکھاگیا ہے کہ اروندکجریوال اور منیش سسودیا سمیت عام آدمی پارٹی کے کئی رہنما جتنے فرق سے ہارے ہیں ان حلقوں میں کانگریس کو اس سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ یعنی اگر وہی ووٹ عام آدمی پارٹی کے ملتے تو اس کی کامیابی یقینی تھی۔ لیکن اس کے لیے صرف کانگریس کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنی کانگریس۔کجریوال نے راہل گاندھی کو انڈیا اتحاد سے باہر کرنے کی مہم چلائی تھی۔ شروع سے ہی انڈیا اتحاد کے سلسلے میں ان کا رویہ مشکوک رہاہے۔انہوں نے ہریانہ میں بھی الگ الیکشن لڑ ا جس کے نتیجے میں بی جے پی جیت گئی۔اگر انہوں نے کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا ہوتا تو وہاں کا نتیجہ کچھ او رہوتا۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سناجارہاہے کہ کانگریس نے عام آدمی پارٹی سے ہریانہ کا انتقام لیاہے۔ وہاں دونوں پارٹیوں میں عدم اتحاد کی کیا وجوہات رہیں یہ بحث کا الگ موضوع ہے۔
اب آئیے مسلمانوں کے ووٹ پر ایک نظر لیتے ہیں۔اس سلسلے میں اس اہم بات کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ اب مسلم ووٹ بینک کی اہمیت ختم ہوگئی۔لیکن دہلی کے انتحابی نتائج میں مسلم ووٹ بینک پر بھی خاصی چرچا ہورہی ہے اوریہ کہا جارہاہے کہ کئی حلقوں میں مسلم ووٹوں کی تقسیم نے بی جے پی کی جیت میں مدد دی۔2015 اور 2020 کے انتخابات میں مسلمانوں کے اجتماعی طور پر عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن اس بار بہت سے مسلمانوں نے کانگریس کوبھی ووٹ دیاہے۔ تاہم اس کے باوجود مسلمانوں کا اکثریتی ووٹ عام آدمی پارٹی کو ہی ملاہے۔ لہٰذا وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کی شکست کی واحد وجہ مسلم ووٹوں کی تقسیم ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم ووٹوں میں تقسیم کے باوجود مسلم اکثریتی حلقوں میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار کا میاب ہوئے ہیں۔ اس نے پانچ مسلم اکثریتی حلقوں اوکھلا، بلی ماران، مٹیا محل، مصطفی آباد اور سلیم پور میں مسلم امیدوار اتارے تھے اور ان پانچ میں سے چار کامیاب ہوئے۔ صرف مصطفی آباد میں اس کی ہار ہوئی۔ ایک اور مسلم اکثریتی حلقے چاندنی چوک میں بھی عام آدمی پارٹی کامیاب ہوئی ہے۔گویا وہاں بھی مسلمانوں نے اسی کوووٹ دیا۔ مسلم اکثریتی دوحلقوں اوکھلا اورمصطفی آباد کے بارے میں الیکشن کے دوران سب سے زیادہ گفتگو ہوتی رہی او رالیکشن کے بعدبھی ہورہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان حلقوں میں ایم آئی ایم کاالیکشن لڑنا ہے۔ اوکھلا میں اس کے امیدوار شفاء الرحمن کو خاصا ووٹ ملا۔ وہاں امانت اللہ خاں کو تقریباً 89 ہزرا او ربی جے پی کے منیش چودھری کو 23ہزار ووٹ ملے۔ جب کہ شفاء الرحمن کو 49 ہزار وو ٹ ملے۔ اتنے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود وہ امانت اللہ خاں کو ہرانہیں سکے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ جبکہ مصطفی آباد میں ایم آئی ایم کے طاہرحسین کو بھی خاصے ووٹ ملے۔ وہاں بی جے پی کے موہن سنگھ بشٹ کو 85 ہزار، عام آدمی پارٹی کے عادل احمد خان کو 67ہزار اورطاہر حسین کو 33ہزار ووٹ ملے۔ گویا اگر ایم آئی ایم نے وہاں الیکشن نہ لڑا ہوتا تو یقینی طور پر عام آدمی پارٹی کی جیت ہوتی۔ ہم یہاں ایک بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اسدالدین اویسی کی سیاست سے متفق نہیں ہیں۔
مذکورہ دونوں حلقوں میں دہلی فساد کے سلسلے میں جیل میں بند شفا ء الرحمن او رطاہر حسین کو امیدوار اس لیے بنایا گیا تاکہ انہیں ہمدردی کا ووٹ ملے۔ حالانکہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ دونوں بے قصور ہیں اور انہیں ضمانت ملنی چاہئے۔ اسدالدین اویسی نے اگر دوسرے حلقوں بالخصوص غیرمسلم اکثریتی حلقوں میں بھی الیکشن لڑا ہوتا تو ان پرکوئی الزام نہیں آتا۔ لیکن صرف ان دونوں حلقوں میں امیداوار اتارنے سے اس الزام کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ وہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ بہرحال یہ باتیں اپنی جگہ پرلیکن اروندکجریوال کو اپنی سیاسی حکمت عملی پراز سر نو غور کرناچاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے دہلی فسادات اور شاہین باغ احتجاج کے سلسلے میں مسلمانوں کو مایوس نہ کیا ہوتا تو مسلمانوں کا جھکاؤ کانگریس کی طرف نہیں ہوا ہوتا۔
12فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/defeat-aam-aadmi-party-muslims/d/134598
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism