New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 01:12 PM

Urdu Section ( 26 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Decline of Civilizations and the Dominance of Culture تہذیبوں کے زوال اور ثقافت کا غلبہ

تفہیم الرحمن

25 مئی 2025

دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ہر عظیم تہذیب اپنے عروج کے بعد بالآخر زوال پذیر ہوئی ہے۔ قدیم مصر، بین النہر ین، یونان، روم سے لے کر برصغیر،مایا اور عظیم اسلامی تہذیب تک سب نے اپنے عروج کے ادوار دیکھے اور پھر مختلف وجوہات کی بنا پر ان کا زوال ہوا۔ عام طور پرنئی اُبھرتی ہوئی اقوام نے زوال پذیر تہذیبوں پر سیاسی عسکری غلبہ حاصل کرلیا او ران کی جگہ نئی ثقافتی اور معاشروں نے لے لی۔ تاہم یہ نظریہ کہ کسی قوم کی تہذیب صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں محکوم ہوجائے،تاریخ کے تناظر میں نامکمل محسوس ہوتاہے۔ذیل میں مختلف تہذیبوں کے زوال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ تہذیبی زوال کی اصل وجوہات اکثر اندرونی کمزوریاں ہوتی ہیں نہ کہ صرف بیرونی حملے یا تسلط۔اس ضمن میں علمی انحطاط،سماجی ناانصافی اور فکری جمود جیسے عوامل کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

برصغیر کی قدیم ترین شہری تہذیب، وادی سندھ یا ہڑپہ کی تہذیب، اپنے وقت میں نہایت ترقی یافتہ تھی۔لیکن تقریباً 1800قبل مسیح کے بعد یہ تہذیب بتدریج زوال پذیر ہوگئی اور موہنجودڑو اور ہڑپہ جیسے اس کے عظیم شہر ترک کردیے گئے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ا س اچانک زوال کی مختلف وجوہات پیش کی ہیں۔ایک نظریہ کے مطابق شمال مغرب سے آنے والی ایک خانہ بدوش جنگجو قوم آریاؤں نے اس تہذیب پر حملہ کرکے اسے مسخرکرلیا۔ دوسری جانب بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس زوال کی بنیادی وجہ ماحولیات میں تغیر تھی مثلاً موسیماتی تبدیلی اور دریاؤں کا رخ بدل جانا۔ حالیہ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر دریا ئے سرسوتی کے خشک ہوجانے اورمون سون ہواؤں کے رخ بدلنے سے زرعی پیداوار شدید متاثر ہوئی جس کے باعث بڑی آبادیاں چھوٹے گاؤں دیہات کی طرف ہجرت کرگئیں۔ آبادی کے بکھرنے اورزرعی اضافی پیداوار میں کمی کے باعث شہروں کا نظام برقرار نہ رہ سکا او روہ ویران ہوگئے۔اگرچہ آریائی قبائل بعد میں ہندوستان کی تہذیب وزبان پرحاوی ہوگئے اور دیدک ثقافت نے جنم لیا، لیکن وادی سندھ کی تہذیب کا  اختتام دراصل داخلی عوام (جیسے ماحولیاتی تبدیلی اور انتظامی ناکامیاں) کانتیجہ تھا نہ کہ محض بیرونی حملہ۔

قدیم رومی سلطنت جس نے صدیوں تک یورپ،مغربی ایشیا اورشمالی افریقہ پر حکمرانی کی، پانچویں صدی عیسوی تک آتے آتے اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ رومی سلطنت کے زوال کے اسباب پرتاریخ دانوں نے مفصل بحث کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ مانا جاتاہے کہ روم کا زوال اندرونی کمزوریوں اور بیرونی دباؤ کے امتزاج کا نتیجہ تھا۔ایک طرف سلطنت اندرونی طور پر سیاسی بدعنوانی، معاشی ابتری اور اخلاقی انحطاط کاشکار تھی تو دوسری طرف بیرونی حملہ آور (مثلاً گوتھ،ہن اور دیگر قبائل) مسلسل اس پر یلغار کررہے تھے۔رومی حکمراں طبقات عیش وعشرت میں مبتلا ہوگئے تھے فوجی نظم ونسق کمزور پڑچکا تھا او رمعیشت زرِ نقرہ کی قدر گھٹ جانے او ربے تحاشا ٹیکسوں کے باعث تباہی کے دہانے پر تھی۔ جب اندر سے سلطنت کاڈھانچہ کھوکھلا ہوگیا تو بیرونی حملہ آور وں کے لیے روم کوزیرکرنا آسان ہوگیا۔ چند دہائیوں میں ہی جرمن قبائل نے مغربی رومی سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اگر رومی معاشرہ اندرونی طور پر مضبوط اورمتحدرہتاتو بیرونی حملے شاید اتنے کاری ثابت نہ ہوتے۔ جنوبی امریکہ کی مایا تہذیب اپنی شاندار اہرام نما معبدوں، فلکیات اور تحریری نظام کی وجہ سے مشہور ہے۔تاہم آٹھویں سے دسویں صدی عیسوی کے دوران مایا تہذیب کے کئی بڑے شہر ویران ہوگئے اور آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔اس زوال کی ایک بڑی وجہ شدید خشک سالی، زرعی وسائل کی کمی، داخلی سیاسی انتشار اور مقامی حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگیں تھیں۔ جب عوام کو خوراک اور تحفظ نہ مل سکا تو وہ شہر چھوڑکر بکھر گئے او رایک عظیم شہری تہذیب ٹوٹ گئی۔ بعد ازاں ہسپانوی حملہ آور آئے، لیکن اس وقت تک تہذیبی بنیادیں پہلے ہی کمزور ہوچکی تھیں۔اس مثال سے واضح ہوتاہے کہ ثقافتی غلبہ اور زوال ہمیشہ بیرونی تسلط سے شروع نہیں ہوتا بلکہ یہ اندرونی شکست کی نشانی ہوتاہے۔اسلامی تہذیب قرون وسطیٰ کی سب سے روشن مثال ہے،جس نے سائنس،فلسفہ، طب، فنون، تعمیرات،اورمعاشرتی عدل میں دنیا کی قیادت کی۔ لیکن اسی تہذیب کا زوال بھی اندرونی بیماریوں کانتیجہ تھا۔علمی اجتہاد کی جگہ تقلید نے لے لی، علم کو مخصوص طبقے تک محدود کردیا گیا، عورتوں کی معاشرے سے کاٹ کر گھروں میں قید کردیا گیا اور فرقہ واریت نے امت کوبانٹ دیا۔ خلافت کے ادارے کوموروثی بادشاہت میں تبدیل کردیا گیا۔ جب بغداد میں بیت الحکمہ تباہ ہوا، توصرف کتابیں تھیں بلکہ فکری چراغ بھی بجھنے لگے تھے۔ بعد ازاں منگول یلغار اور یورپی استعماری طاقتوں نے اسلامی دنیا کو سیاسی طور پرکمزور کیا لیکن تہذیبی پستی کاعمل اس سے کہیں پہلے شروع ہوچکا تھا۔

افریقہ کی عظیم سلطنتیں مثلاً مالی، سنگھائی، اور عظیم زمبابوے صدیوں تک ترقی کرتی رہیں،لیکن اندرونی خانہ جنگیوں، غلامی کے فروغ اورمعاشی انحطاط اور سیاسی تقسیم نے ان کے زوال کی راہ ہموار کی۔یوروپی طاقتوں نے بعد میں ان پر قبضہ کیا لیکن جب ان کی اپنی دیواریں گرنے لگیں تو کوئی طاقت انہیں، سنبھال نہ سکی۔ تہذیب کبھی باہر سے نہیں مٹتی جب تک اندرسے کمزور نہ ہوچکی ہو۔موجودہ دور میں مغربی تہذیب کا غلبہ بظاہر ہرشعبے پر ہے۔ لباس سے لے کر زبان، تعلیم،معیشت اور سیاسی نظریات تک مغربی ماڈل کو عالمی معیار مانا جاتاہے۔لیکن اگر ہم غور کریں تویہ غلبہ بھی ان علمی، اخلاقی اور فکری اصولوں پر قائم ہے جن کی بنیاد قرآنی تعلیمات میں موجود ہے۔ مغرب نے تحقیق، آزادی اظہار، مساوات اور قانون کی بالادستی کو اپنایا، جب کہ ہم نے اپنی کتاب کو تبرک بنا کر رکھ دیا، عمل کی بجائے رسم پرستی اپنائی، اور دلیل کی جگہ جذبات اور نعرے بازی کو فوقیت دی۔مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ ان کی تہذیب زندہ رہے اور دوسروں کے غلبے سے آزاد ہوتو انہیں صرف ماضی پر فخر کرنے کی بجائے حال کی اصلاح کرنی ہوگی۔ اپنی زبان، تاریخ، ثقافت، علمی ورثے، اور اخلاقی اصولوں کو زندہ رکھنا ہوگا۔ تعلیم، تحقیق، اختراع، اور عدل پرمبنی نظام قائم کرناہوگا۔ صرف اسلامی نعروں سے نہیں بلکہ عمل، خلوص اور تدبر سے تہذیبوں کی بقا ممکن ہے۔ ہمیں بچوں کو صرف قرآنی آیات یادنہیں کرانی،بلکہ قرآن کا پیغام سمجھانا او راسے زندگی میں برتنا سیکھانا ہے۔صرف نماز نہیں، دیانت، شرافت، تحمل، اور علم کا شعور دینا ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی تہذیبیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں، نئی سوچ اپناتی ہیں، اور عوام کو شعور دیتی ہیں۔ اور وہی تہذیبیں مٹتی ہیں جو صرف فخر، تفاخر، اور ماضی پرستی میں مگن رہتی ہیں۔ تہذیب صرف عمارتیں یا رسم ورواج نہیں بلکہ ایک اجتماعی اخلاقی ضمیر ہے۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/decline-civilizations-dominance-culture/d/135663

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..