New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 09:06 PM

Urdu Section ( 1 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Dangers of Aggressive Nationalism جارحانہ قوم پرستی کے خطرات

ابھے کمار

29اپریل،2025

پہلگام حملے میں 26 معصوم سیاحوں کی ہلاکت پر پوری انسانیت سوگوار ہے۔ معصوم لوگوں کا خون بہا کر کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ جوسیاسی مسائل ہیں، ان کا واحد حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہ صرف سیاسی طریقوں سے ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔خون خرابے اور طاقت کے زور پر نہ تو کبھی پائیدار سماجی تبدیلی لائی جاسکتی ہے او رنہ ہی بندوقوں کے سائے تلے کبھی امن اور شانتی قائم ہوسکتی ہے۔ افسوس کہ ان آسان مگر اہم باتوں کواکثر نظر انداز کیا جاتاہے، کیونکہ تشدد کی شعلہ انگیز تجارت سے کچھ مٹھی بھر لوگوں کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نازک حالات میں جذبات کے بہاؤ میں بہنے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لینا ضروری ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگ شاید اس بات سے متفق ہوں کہ قومی یکجہتی کو آج سب سے بڑاخطرہ فرقہ واریت سے ہے، مگر یہ خطرہ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب ملک کسی بڑے چیلنج سے دوچار ہوتاہے اور فرقہ پرست عناصر ان نازک لمحات میں بھی اپنی شرانگیز حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ جب پوراملک پہلگام حملے کے بعد غم میں ڈوبا ہواہے، ایسے کٹھن حالات میں بھی فرقہ پرست قوتیں دہشت گردی کو ایک خاص مذہب سے جوڑ کر اقلیتوں کو نشانہ بنارہی ہیں او رانہیں اکثریتی سماج کی نظروں میں ’کھلنایک‘ کے طو رپر پیش کررہی ہیں۔ ان تمام کارروائیوں کے پیچھے ان کا جارحانہ اور فرقہ پرست قوم پرستی کانظریہ کار فرما ہے۔

جہاں پہلگام حملے میں شہید عادل حسین شاہ بھی سیاحوں کی جان بچانے کی کوشش میں ہلاک ہوگئے، وہیں ملک بھر میں یہ فرقہ وارانہ بیانیہ پھیلایا گیا کہ دہشت گردوں نے دھرم پوچھ کر لوگوں کی جان لی ہے! سماجی انصاف او ر مساوات کی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے یہ بھی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ دہشت گردمذہب او ردھرم پوچھ کر ہندوسماج کے افراد کو گولی مار رہے ہیں، جب کہ اکثریتی سماج ذات پات کے نام پر آپس میں لڑرہا ہے۔ اس طرح کی افواہیں پھیلانے اوراقلیتوں کو دشمن بناکر پیش کرنے کے پیچھے فرقہ پرستوں کا مقصد یہ پیغام دیناتھاکہ ہندوسماج اپنی سلامتی کے لیے متحد ہوجائے او رذات پات کی غیر برابری پر خاموش ہوجائے،تاکہ اعلیٰ ذات کی بالادستی قائم رہے۔ قومی میڈیا بھی اپنے اپنے انداز میں فرقہ واریت کی آگ میں تیل ڈالنے والے پروگرام ہی نشر کررہا ہے اور ہندی نیوز چینلوں کا تو عالم یہ ہے کہ انہیں دیکھنے پراقلیتی سماج کے لوگ ڈر جاتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے خبر آرہی ہے کہ پاکستان مخالف ریلیوں میں کئی مقامات پراقلیتوں کو ٹارگٹ کیا جارہاہے او ران کے مذہبی مقامات کے نزدیک اشتعال انگیزی کی جارہی ہے۔ ملک کے دوسرے مقامات کی بات کیا ہی کی جائے، قومی دارالحکومت نئی دہلی میں کشمیری طلبہ کاریگر اور مزدور کو خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں او رانہیں ایسا لگ رہا ہے کہ کہیں کوئی انہیں پہلگام حملے کے لیے نشانہ نہ بنادے۔ جب سیاستدان انتخابی ریلیوں میں پہلگام کے سانحے پر تقاریر کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ سنجیدگی سے ا س مسئلے کا کوئی حل تلاش کریں تو کیا یہ طرز عمل اس بات کاعکاس ہے کہ ہم ایک بالغ اور ذمہ دار جمہوریت ہیں؟جب حزب اختلاف کی سابقہ تقریروں کو ایک خاص مقصد کے تحت ایڈٹ کیا جاتاہے اور انہیں توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ شدت پسندوں کے حمایتی ثابت ہوں، تو کیا بات یہ ثابت کرتاہے کہ ہم ایک زندہ اور باشعور جمہوریت ہیں؟ اس سے بڑا المیہ او رکیا ہوسکتاہے کہ فرقہ وارانہ بیا نیہ حکومت سے سیکورٹی میں ہونے والی کوتاہی پر سخت سوالات اٹھانے کے بجائے اقلیتوں اوراپوزیشن کو نشانہ بنارہاہے؟

زعفرانی جماعت کے نظریہ ساز بی ڈی ساورکر نے 1920 ء کی ابتدائی دہائی میں ایک چھوٹی سی کتاب ’ہندوتوا‘ لکھی تھی، جس میں انہوں نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہا تھاکہ ’کسی مشترکہ دشمن کا دباؤ ہی وہ چیز ہے، جو لوگوں کو قوم او رقوموں کو ریاست میں تبدیل کرسکتاہے‘۔ساورکر کا نظریہ قومیت اقلیت مخالف ہے،کیونکہ ان کولگتا ہے کہ کسی بھی سماجی جماعت کے مابین تب تک اتحاد پیدا نہیں ہوسکتا، جب تک ان کے سامنے کوئی دشمن موجود نہ ہو۔اگر کوئی دشمن نہ بھی ہویا کوئی خارجی خطرہ کہیں دکھتا بھی نہ ہو تو ساورکر نواز اسے مصنوعی طور پر گڑھتے ہیں اور بار بار اس کا پروپیگنڈہ کرکے اسے تصورات کی دنیا سے نکال کر حقیقت کا جامہ پہنادیتے ہیں۔اقلیتوں کو دشمن بناکر پیش کرنا ان کی مجبوری ہے، نہیں تو ہندوسماج متحدہوکر انہی ووٹ نہیں دے گا؟یہی وجہ ہے کہ دن رات فرقہ پرست عناصر اور ان کے پیسوں سے پلنے والا میڈیا ہربات میں مسلمانوں کو قصور وار بنانے کاکام کرتا ہے۔جہاں تک بات دہشت گردی کی ہے تو ہر دھرم کے پیروکار وں میں دہشت گرد موجود ہیں۔ اس لیے کسی دہشت گرد کے مذہب کو بنیاد بناکر اس مذہب ے ماننے والوں کو نشانہ بنانا ایک خطرناک سیاست ہے،جو بھارت جیسے سیکولر ملک کو کمزور کردے گی۔

جہاں ہمارے ملک کا نظریہ شہریت سیکولر، جمہوری اور مساوات پرمبنی ہے وہیں فرقہ پرست مذہب کے زاویے سے شہریت کو دیکھتے ہیں۔ وہ بھارت کے اقلیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں او ران کی حب الوطنی پرسوال اٹھاتے ہیں،جبکہ بیرون ملک میں رہنے والے ہندوؤں،جن کی حب الوطنی اپنے دیش کے ساتھ ہے، کو اپنا سمجھتے ہیں۔فرقہ پرست بھارت ے ان اقلیتوں کو جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی، اجنبی سمجھتے ہیں۔ فرقہ پرست تاریخ کوبھی ایک خاص مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں او ربھارت میں جو آریائی ویدک او رہندو کلچر ہے اسی کو ہندوستانی مانتے ہیں، جب کہ اسلام اور عیسائیت، جن کی تاریخ اس ملک میں ہزاروں سال پرانی ہے، کو بیرونی مذاہب سمجھتے ہیں۔فرقہ پرستوں کے نزدیک اقلیتیں جب تک اکثریتی جماعت میں اپنے آپ کو ضم نہیں کردیتیں، تب تک ان کی وفاداری شک کے دائرے میں رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست اقلیتوں کی تاریخ، ثقافت، لباس، کھان پان او رطرز زندگی کو قومی ثقافت کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

بھارت کے وہ علاقے جہاں اقلیتوں کی آبادی قومی اوسط سے زیادہ ہے، وہاں سیکورٹی کے سخت انتظامات تو کیے جاتے ہیں، مگر بنیادی سہولیات کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔فرقہ پرست ذہنیت کا خیال ہے کہ اقلیتوں کو بدنام کرکے اور ان پر دباؤ ڈال کر ہی اپنے مفادات کا تحفظ کیاجاسکتاہے۔مگر وہ یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ کسی کا حق چھیننا، اسے پیچھے دھکیلنا یا اس کے ساتھ امتیاز ی سلوک کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔مگر ان فرقہ پرستوں کو کون سمجھائے کہ مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب معاشرے میں انصاف، مساوات اوراخوت کو فروغ دیا جائے۔

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/dangers-aggressive-nationalism/d/135390

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..