عدنان قمر،
نیو ایج اسلام
15 جولائی 2023
دلت اور ہندو
او بی سی دانشوروں کی اکثریت اور سوشل میڈیا انفلوئنسر پسماندہ مسلمانوں کا سوال کبھی
نہیں اٹھاتے
اہم نکات:
1. دلت اور بہوجن دانشو اشرافیہ
کے حلیف؛ جو پسماندہ مسلمانوں کی حالت زار کو نظر انداز کرتے ہیں
2. ایک بہوجن رہنما ومن میشرم
نے مسلمانوں میں ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک کے سوال پر غور کرنے سے انکار کیا
3. اشرافیہ، دلت اور بہوجن دانشوروں کے زیر اثر، کچھ
پسماندہ لوگ ہندو عقائد کی تنقید کر رہے ہیں، جو کہ غیر اسلامی عمل ہے، اور اسے روکنے
کی ضرورت ہے۔
4. پسماندوں کو کہیں اور حمایت
کی تلاش بند کر کے اپنی قیادت کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔
-------
بہت سے امبیڈکروادیوں کو ایس سی،
ایس ٹی، او بی سی اور مسلمانوں کو ایک زمرے میں لانے پر زور دیتے ہوئے سنا جا سکتا
ہے۔ تاہم، ان نام نہاد امبیڈکروادیوں کی اکثریت اونچی ذات کے مسلمانوں (اشرافیہ) سے
اس قدر مرعوب ہے کہ وہ ہندوستانی مسلم معاشرے کے اندر سماجی انصاف کے سوال کو بھول
چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اشرافیہ کی طرف سے پسماندہ اور نچلی ذات کے مسلمانوں کے
اخراج پر بالکل خاموش ہیں۔
دلت اور ہندو او بی سی دانشوروں
کی اکثریت اور سوشل میڈیا انفلوئنسر پسماندہ مسلمانوں کا سوال کبھی نہیں اٹھاتے۔ وہ
جان بوجھ کر ان سے اجتناب کرتے ہیں، انہیں نظر انداز کرتے ہیں، اور صرف اشرافیہ مسلمانوں
کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ اس سے اشرافیہ مسلمانوں کو پسماندہ مسلم کارکنوں کی توہین
کرنے اور ان کا مذاق اڑانے کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ مساوات، بھائی چارے اور آزادی کو
فروغ دینے کے لیے، وہ برہمنی سماجی نظام پر تنقید کرتے ہیں لیکن خود مسلم معاشرے میں
اسی طرح کے امتیازی سلوک پر خاموش رہتے ہیں۔ یہ اشرافیہ کی سیاست کے سوا کچھ نہیں ہے
یعنی مسلم معاشرے کے اندر موجود جبر و استبداد پر خاموش رہتے ہوئے ہندو سماجی نظام
کا مذاق اڑانا۔
بہوجن لیڈر
ومن میشرم کی خاموشی
چند دنوں قبل، حیدرآباد میں ایس
سی-ایس ٹی-او بی سی-مسلم فرنٹ کے زیر اہتمام ایک مکالمہ ہوا۔ اس مکالمے میں مجھے پانچ
سال کے طویل عرصے کے بعد ومن میشرم سے بات کرنے کا موقع ملا۔ مجھے یہ بتانا ضروری ہے
کہ میں ان کے ساتھ 2018 تک کام کر چکا ہوں، اس کے بعد میں نے ان کے ساتھ کام کرنا چھوڑ
دیا۔ میشرم نے ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتوں کو متحد کرنے کی بات کی۔ میٹنگ
میں موجود مسلم سامعین سے انہوں نے درخواست کی کہ انہیں ہندو نہیں بلکہ دلت کہا جائے۔
انہوں نے حاضرین سے کہا کہ ان پر ہندو کا لیبل لگانا انہیں گالی دینے کے مترادف ہے۔
حاضرین میں موجود مسلمان اس بیان سے بہت خوش ہوئے اور ان کی حمایت میں خوب تالیاں بجائیں۔
ومن میشرم کے مطابق، مسلمان 15
اگست 1947 سے ہی جبر و ناانصافی کا سامنا کر رہے ہیں، جب کہ نچلی ذات کے ہندو تین ہزار
سال سے جبر و استبداد برداشت کر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ تمام مظلوم لوگ
متحد ہو جائیں تو وہ 'فاشسٹ' بی جے پی-آر ایس ایس حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ جب میری
باری آئی تو میں نے ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی، اور یہ کہا کہ مسلمان کوئی یکسنگی
قوم نہیں ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ 90فیصد ہندوستانی مسلمان وہ ہیں جو ہندو نچلی ذاتوں
سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ لیکن مسلمان ہونے کے بعد بھی وہ اعلیٰ ذات کے مسلمانوں
یا اشرافیہ کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ میں نے انہیں تلنگانہ
کے پچاکنٹلا مسلمانوں کی مثال دی جن کے ساتھ اب تک اچھوت کا سلوک کیا جاتا ہے۔ میں
نے ان سے پوچھا کہ ان کی تحریک میں اشرافیہ کیسے شامل ہو سکتے ہیں جو اجلاف مسلمانوں
کی اتنی بڑی اکثریت پر ظلم کرتے رہے ہیں؟ میں نے پسماندہ مسلمانوں کی آواز کی حمایت
کرنے میں ان کی تنظیم (BAMCEF) کی ہچکچاہٹ پر بھی سوال
اٹھایا۔ بنیادی طور پر، میرے سوال کا مقصد ان کی دوغلی ذہنیت کو ظاہر کرنا تھا جو اعلیٰ
ذات کے ہندوؤں یا سورنوں کے خلاف اشرافیہ کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں،
وہ ہندوؤں کے اندر سماجی انصاف کے سوال کے لیے پرعزم ہے لیکن مسلم معاشرے میں سماجی
انصاف کے معاملے پر خاموش ہے۔
میری مداخلت کے بعد ومن میشرم یہ
کہتے ہوئے جلدی سے میٹنگ سے روانہ ہو گئے: "امتیازی سلوک پر فیصلہ تم مسلمان آپس
میں خود ہی کرو۔" اسی میٹنگ میں موجود اشرافیہ مجھ سے بہت ناراض ہوئے، وہاں موجود
اشرافیہ اور بہوجن تنظیموں کے لیڈروں کی منافقت دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ مجھے یہ
احساس ہوا کہ ان کی سیاست سماجی انصاف کے لیے نہیں ہے، بلکہ ان کی سیاست اس بات کا
تعین کرتی ہے کہ انہیں کس قسم کے سماجی انصاف کی حمایت کرنی چاہیے۔ وہ دوسروں کی حمایت
پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔
ایک مسلمان
کو کبھی بھی دوسرے مذاہب کی توہین نہیں کرنی چاہیے
اپنی بات چیت کے دوران، میں نے
دیکھا ہے کہ جب دلت لیڈر اور بائیں بازو کے ملحد ہندو دیوی دیوتاؤں، ان کے عقائد اور
ان کی ثقافت کی تذلیل کرتے ہیں، تو اشرافیہ قہقہے لگاتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے
ہیں۔ یہ طرز عمل اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور
گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وه
براه جہل حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے ہم نے اسی طرح ہر طریقہ
والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے۔ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وه
ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وه کیا کرتے تھے‘‘ (قرآن 6:108)۔ قرآن پاک کی یہ آیت اس
بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دوسرے مذاہب کے معبودوں کی توہین کرنا حرام ہے۔ لیکن،
بائیں بازو کے اشرافیہ کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے، بہت سے ہندو، بدلے میں، اسلامی
تعلیمات اور یہاں تک کہ پیغمبر اسلام کی توہین اور تذلیل کرتے ہیں۔ اس سے مذہبی تصادم
جنم لیتا ہے جس کی وجہ سے پسماندہ مسلمانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کاریگر اور
خدمات فراہم کرنے والے مسلمانوں کا سابقہ ہندو سماج کے ساتھ روزانہ پڑتا رہتا ہے۔ اس
طرح کا تنازعہ ان کے کاروبار کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور یہاں تک کہ ان کی زندگیاں
بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اس طرح کے تشدد میں مارے جانے والوں
میں زیادہ تر پسماندہ مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان کو کبھی بھی دوسرے مذاہب
کے پیروکاروں کو بھڑکانا نہیں چاہیے۔ لیکن اشرافیہ معاشرتی حقیقت سے اس قدر دور ہو
چکے ہیں کہ وہ اس بنیادی اسلامی تعلیم پر بھی توجہ نہیں دیتے۔ کچھ پسماندہ، جو اشرافیہ
کی اندھی تقلید کرتے ہیں، ہندو مذہبی روایات کو داغدار کرنے کے کھیل میں بھی ملوث ہیں۔
معاشرے کے سماجی تانے بانے کو برقرار رکھنے کے لیے اسے روکنے کی ضرورت ہے۔
پسماندہ مسلمانوں
کی حالت زار
اس وقت پسماندہ مسلمان اچھی تعلیم،
ملازمت اور اہم عہدوں سے بہت دور ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلم آبادی کا تقریباً
نوے فیصد حصہ معیشت کے غیر رسمی شعبے سے وابستہ ہے، ان میں بھاری اکثریت پسماندہ مسلمانوں
کی ہے۔ سڑک کے ہاکروں سے لے کر مکینک اور رکشہ چلانے والوں تک، ہندوستانی سڑک پر پائے
جانے والے مسلم مزدور درحقیقت مختلف پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
متعدد کمیٹیوں نے یہ باور کیا ہے
کہ ان کی حالت ایس سی اور ایس ٹی سے بھی بدتر ہے۔ جیسا کہ سچر کمیٹی بتاتی ہے، اجلاف
اور ارزل مسلمان اول درجے کی ملازمتوں میں بالکل معدوم ہیں۔ پسماندہ جیسی محروم برادری
کے لیے، یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جماعتیں جو سماجی انصاف کو اپنا نصب العین قرار دیتی
ہیں، پسماندہ مسلم ذاتوں کو درپیش اس اخراج کے خلاف آواز بلند کریں۔ بدقسمتی سے ان
جماعتوں کا اشرافیہ کے ساتھ ایک خفیہ گٹھ جوڑ ہے جو ہندوستانی مسلم معاشرے میں ذات
پات کے وجود کے انکاری ہیں۔ پسماندہ تحریک پر لازم ہے کہ وہ اپنی قیادت خود کھڑی کرے
اور اپنے معاشرے اور پورے ملک کی بہتری کے لیے کام کرے۔
English
Article: Why the Dalit Bahujan Social Justice Excludes
Pasmanda Muslims: The Savarna Is An Enemy But The Ashraf Is An Ally
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism