مولانا وحیدالدین خان برائے نیو ایج اسلام
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی حدیثیں امتِ مسلمہ کے حال اور مستقبل کے بارے میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: أُمَّتِی أَمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، قَدْ رُفِعَ عَنْہُمُ الْعَذَابُ، إِلَّا عَذَابَہُمْ أَنْفُسَہُمْ بِأَیْدِیہِمْ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 6909)۔ یعنی میری امت رحم کی ہوئی امت ہے۔ اس سے عذاب اٹھا لیا گیا ہے، سوائے اس کے کہ ان کا خود کو اپنے ہاتھوں سے عذاب دینا۔اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدی پر وہ عذاب نہیں آئے گا، جو پچھلی امتوں پر آیا تھا۔ یہ بات امت مسلمہ کے لیے بے حد اہم ہے۔ مگر یہ بات امت کی فضیلت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ امت کی ذمے داری کے اعتبار سے ہے۔
پچھلی امتوں کی ذمے داری محدود مدت کے اعتبار سے تھی۔ مگر امتِ مسلمہ کی ذمے داری ختم نبوت کی بنا پر قیامت تک کے لیے ہے۔ کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جو ساتویں صدی کے رُبع اول میں آئے، وہ اللہ کے منصوبے کے مطابق آخری پیغمبر (Final Prophet)تھے۔ اب آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کے مشن کی بات ہے، وہ بدستور قیامت تک جاری رہے گا۔اب مسلمان اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے درمیانی وسیلہ ہیں۔ یعنی اللہ کا پیغام جورسول کے ذریعے امت مسلمہ کو پہنچا ہے، اس پیغام کورسول کی نیابت میں قیامت تک آنے والی تمام قوموں کو پہنچانا امت مسلمہ کی ذمے داری ہے ۔ یہ اس دعوتی مشن کا تسلسل ہے، جس کو پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں جاری کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی نبوت شخصی وجود کے اعتبار سے ساتویں صدی کے لیے تھی، لیکن پیغام کے اعتبار سے وہ پوری تاریخ کے لیے ہے۔ اس بنا پر امتِ محمدی کو امتِ وسط کہا گیا ہے، یعنی پیغمبر اور اقوامِِ عالم کے درمیان کی امت۔ ایک اور آیت میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ (6:19)۔ یعنی مجھےیہ قرآن وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو انذار کروں، اور وہ بھی (انذار کریں) جن کو یہ پہنچے۔
امتِ مسلمہ کے بارے میں قرآن کا یہ اعلان بہت زیادہ بامعنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے لیے جائز نہیں کہ وہ پیغمبرانہ مشن، دعوت الی اللہ کے علاوہ کسی اور کام میں اپنے آپ کو مصروف کرے۔ دعوت الی اللہ کا کام ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ فرض کفایہ ۔ امتِ محمدی اگر پیغمبر کے مشن کو اپنا مشن بنائے تو اس پر اللہ کا وہ وعدہ پورا ہوگا، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (5:67)۔ یعنی لوگوں کی کسی امکانی زیادتی سے محفوظ رکھنے کی ضمانت اللہ کی طرف سے ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر امت اپنی اس منصبی ذمے داری پر قائم نہ رہے، تو اس کے بعد اس کا انجام وہی ہوگا، جو ایک حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے: رَفَعَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ یَدَہُ عَنِ الْخَلْقِ فَلَا یُبَالِی فِی أَیِّ وَادٍ ہَلَکُواُ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1752) ۔ یعنی اللہ عز وجل اپنا ہاتھ مخلوق سے اٹھا لیتا ہے، تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوجائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی کو ختم نبوت کے بعدتبلیغ ما انزل اللہ کے اصول کو اپنی قومی منصوبہ بندی کا مرکزی اصول بنانا ہوگا۔ اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اس معاملےمیں دوسرے پہلوؤں کو اللہ کے حوالے کریں، اور اپنے آپ کو اسی ایک مقصد کے لیے خاص کرلیں۔ امت محمدی اگر اس اصول کو اپنی قومی پالیسی بنائے، تو یہ اس کی جانب سے اللہ کی نصرت کرنےکے ہم معنی ہوگا۔ اس وقت امت اس خدائی فیصلے کی حق دار بن جائے گی، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہےوَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ (22:40)۔ یعنی اللہ ضرور اس کی مدد کرتا ہے، جو اس کی مدد کرے۔
ختم نبوت کے بعد کے زمانے میں فطرت کے قانون کے مطابق بار بار ایسا ہوگا کہ امت کے لیے مختلف قسم کے ڈسٹریکشن پیش آئیں گے۔ لیکن امت کے رہنماؤں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ہر مرحلے میں متعلق (relevant) کو غیر متعلق (irrelevant) سے الگ کریں۔ وہ مختلف حالات سے دوچار ہونے کے باوجود یہ کرتے رہیں کہ غیر متعلق کو نظر انداز کریں، اور صرف متعلق کی بنیاد پر اپنا قومی منصوبہ بنائیں۔ یہ اصول قیامت تک ان کی حفاظت اور کامیابی کا ضامن ہوگا۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/da-wah-definite-duty-ummah/d/121779
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism