ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
18 مئی 2014
غیر مسلم ممالک میں یہ سوال زوروں پر ہے کہ کیا مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پر امن بقائے باہم کا قیام ہو سکتا ہے؟ ان کے اس سوال کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ انہیں اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسلم ممالک میں غیر مسلموں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ قرآن اور رسول اللہ کی تعلیمات کی رو سے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ان کے درمیان پر امن بقائے باہم کا قیام ہو سکتا ہے اور انہیں ایسا ضرور کرنا چاہیے۔ لیکن یہ صرف ایک بیان بازی نہیں ہے۔ مجھے اپنے اس دعوی کی بنیاد بھی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سوال پر ایک مثبت جواب کا برملا اظہار کرنا اسلامی اقدار پر مبنی ہے۔ میں ان میں سے چند اقدار کو بیان کروں گا جن کے ماخذ مکمل طور پر اسلام کے بنیادی مصادر و مراجع ہوں گے۔ پہلی قدر امن ہے۔ یہ کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے کہ اسلام کا مطلب ہی امن ہوتا ہے بلکہ اس کی بنیادیں حقائق پر مبنی ہیں۔ خود اسلام کا مطلب امن ہے اور اس کا تقاضااللہ کی مکمل اطاعت قبول کرنا ہے جس کے نتیجے میں انسان کو دلی سکون اور تمام مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگی حاصل ہوتی ہے خواہ وہ انسان (مسلمان یا غیر مسلم) ہو یا جانور یا پودے یا ماحولیات ہوں کوئی بھی انسان صدق دل سے اور مکمل طور پر اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اور اس کی ہدایات پر عمل کر کے امن اور ہم آہنگی کا قیام کر سکتا ہے۔
دوسری قدر اللہ پر کامل یقین ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہر چیز کا خالق ہے۔ یہ محض ایک اصول یا عقیدہ نہیں ہے؛ جب ہم خدا کی وحدانیت کااقرار کرتے ہیں تو پوری انسانیت بھی ایک ہی ہے جس کا مصدر و منبع بھی ایک ہی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے: تمام لوگ (صرف مسلمان ہی نہیں) اللہ کے تابع ہیں اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بندے وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے ساتھ زیادہ رحمدلی اور محبت سے پیش آنے والے ہیں۔
تیسری قدر اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں کو قبول کرنا اور اس کی تعظیم و توقیر کرنا ہے جن تمام کا بنیادی پیغام ایک ہی تھا جس کا مقصد ہر سطح پر ایک قادر مطلق، اور خود کے اندر اور اللہ کی تمام مخلوقات کے ساتھ امن و ہم آہنگی حاصل تھا۔
چوتھی قدر خود قرآن کی اخلاقی تحریک ہے۔ در حقیقت رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسلام کے پیغام اور اپنے مشن کو ان الفاظ کے ساتھ اختتام تک پہنچایا "میں صرف اچھے اخلاقی کردار کو کامل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں"۔ یہی اسلامی تعلیمات کا لب لباب ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انصاف، توازن اور تقویٰ یہ تمام اخلاقی خوبیوں میں شامل ہیں۔
پانچویں قدر یہ ہے کہ قرآن صرف مومنوں یا مسلمانوں ہی نہیں بلکہ تمام لوگوں کے وقار اور اس کی حرمت جان کی توثیق کرتا ہے۔ اسلام میں انسانی جان کی عظمت و حرمت بہت اہم ہے۔ جب انسانی جان کی عظمت و حرمت کو اچھی طرح سمجھ لیا گیا تو خود بخود آزادیٔ مذہب اور آزادیٔ اصول و معتقدات اور معمولات کا تصور واضح ہو جاتا ہے؛ ورنہ اگر مذہب کو لوگوں کے حلقوم میں زبردستی اتارا جائے تو پھر کی عظمت و حرمت کا تصور کہاں باقی رہ جاتا ہے۔
قرآن کہتا ہے " اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں۔
اور انسانی زندگی کی حرمت بھی بہت اہم ہے یعنی ایک بے گناہ شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک شخص کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
اگلی قدر عالمی اخوت ہے۔ اس نظریہ کا مصدر بھی قرآن ہے ‘‘لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے’’۔
دوسری قدر اعتدال یا توازن ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اس نے امت مسلمہ کو ایک معتدل اور متوازن قوم بنایا ہے۔ اور قرآن اور رسول اللہ کی تعلیمات دونوں میں ہر قسم کی انتہا پسندی کی مذمت کی گئی ہے۔
اگلی قدر مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان تعلقات استوار کرنے کے لئے بہت اہم ہے۔ بنیادی طور پر اس بارے میں قرآن مجید کا فرمان یہ ہے کہ اگر دیگر مذاہب کے لوگوں تمہارے ساتھ پر امن بقائے باہم اختیار کرتے ہیں تو اے مسلمانوں تمہیں بھی ان کے ساتھ امن اور خوشحالی کے ساتھ رہنا چاہئے اور ان کے ساتھ ہمدردی، انصاف، نیکی اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔
آخری اصول اسلام میں رحمت و شفقت اور محبت کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں (انسانوں، جانوروں، پودوں اور ماحولیات کے لئے بھی) ایک رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا۔
ہمیں اس سیاق و سباق کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں مسلمانوں کو لڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح (علیہ السلام) نے صرف امن کی تبلیغ کی ہے لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ آدھی سچائی کی ایک بہترین مثال ہے۔ در حقیقت اناجیل کے مطابق یسوع مسیح (علیہ السلام) نے کہا کہ ہر اس شخص کو جسے اپنے اوپر میری حکمرانی گوارہ نہیں ہے یہاں لا کر میرے سامنے قتل کر دینا چاہئے۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ اس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ہمیشہ جنگ و جدال سے گریز کیا ہے۔ لیکن جب اللہ کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خاطر ایسا کیا۔
‘‘(مسلمانو) تم پر (خدا کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے’’۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-pluralism/peaceful-coexistence-islam/d/87066
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/peaceful-coexistence-islam-/d/87464