New Age Islam
Sun Dec 01 2024, 10:30 PM

Urdu Section ( 28 May 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Can We subscribe our Good Deeds in the Account of our Parents کیا ہم نیک اعمال والدین کے کھاتے میں درج کر سکتے ہیں؟

 

مکاتیب

فرہاد صاحب السلام علیکم

فرہاد صاحب !السلام علیکم ۔ آپ نے ایک بارپہلے بھی میرے  سوال کا جواب دیا تھا اب بھی میں امید کرتا ہو ں کہ آپ جواب دیں گے ۔ کیونکہ ہماری عقل کام نہیں کرتی ہم قدم قدم پر سوچتے ہیں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں کہ ہم سے کہیں گستاخی نہ  ہوجائے اسی لئے ہم بال آپ کی کورٹ میں پھینک دیتےہیں ۔ کہ انگار جانے لوہار جانے ۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسناد ( کا بیان کرنا ) دین  کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو جس کا جو دل چاہتا وہ کہتا پھرتا ۔ حضرت عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ ہمارے او رلوگوں کے درمیان قوائم  ہیں یعنی اسناد۔

حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن عیسیٰ الطا لقانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں نے عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بن مبارک سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمان! یہ حدیث کیسی ہے جو حضور علیہ السلام سے منقول ہے ( اس  کا درجہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ اوپر تلے کی نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے مرحوم ) والدین کے لئے بھی نماز پڑھو او راپنے روزہ کے ساتھ ان کے واسطے بھی روزہ رکھو ۔  ’’ تو عبداللہ بن مبارک نے ان سے فرمایا اے ابو اسحاق ! یہ حدیث کس سے مروی ہے ؟ میں نے کہا یہ تو شہاب بن خراش کی حدیث ہے ۔ انہوں نے  فرمایا کہ ثقہ ہے ۔ انہوں نے کس سے روایت کی؟ میں کہا حجاج  بن دینار سے ۔ فرمایا کہ ثقہ ہے انہوں نے کس سے روایت کی ؟ میں نے عرض کیا کہ انہوں نے براہ راست حضور علیہ السلام نے نقل کی تو ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے ابو اسحاق ! حجاج بن دینار اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان بڑے طویل صحرا اور بیابان ہیں  جن کے اندر اونٹوں  کی گردنیں تھک کر ختم ہوجاتی ہیں ۔ البتہ ( میت کے ایصال ثواب  کے لئے ) صدقہ دینے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ بر سر عام یہ کہا  کرتے تھے کہ عمر بن ثابت کی احادیث  کو چھوڑ دو کیونکہ یہ شخص  سلف صالحین کو برا بھلا  کہا کرتا تھا ۔  ( مسلم ، جلد اوّل ، حدیث 31، صفحہ 164)

اس حدیث کے بارے میں آپ کی رائے چاہیے کیا ہم نیک اعمال والدین  کے کھاتے  میں درج کر سکتے ہیں؟ ۔ اور میں اپنے والد کے لئے کون سا عمل کروں جو انہیں فائدہ  مند ہو ۔ کیونکہ میرے والد نے میرے لئے  بہت  کچھ کیا ہے۔

محمد اشرف خان

پاپے ناڑ ۔ تحصیل  تراڑ کھل آزاد کشمیر

محمد اشرف صاحب اللہ کے عطا کردہ علم  و شعور کے مطابق جواب حاضر ہے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں  کسی بھی شخص کے نیک عمل کا اجر اور بُرے عمل کی سزا تحریر نہیں  کی جاتی بلکہ اس کے اچھے یا بُرے اعمال و اقوال درج کئے جاتے ہیں  یعنی کراماً کا تبین ہمارے اعمال  و افعال  نوٹ کیا کرتے ہیں ۔ ان کا ثواب  یا عذاب  نہیں لکھا کرتے کیونکہ عذاب یا ثواب کا فیصلہ تو قیامت کے بعد حشر کے دن سنایا جائے گا۔

 اس لحاظ سے غور فرمائیں تو ‘‘ ایصال ثواب ’’ کا نظریہ ہی سرے سے بے بنیاد قرار پاتا ہے ۔ اگر ایصال ثواب کے نظریہ میں ذرا بھی حقیقت  ہوتی تو اسے ایصال ثواب  نہیں بلکہ ‘‘ ایصال عمل کہا جاتا کیونکہ اعمال  ہی درج کئے جاتے ہیں ۔ اس کا عذاب یا ثواب درج نہیں کیا جاتا ۔ مگر کوئی شخص بھی نہیں کہتا کہ وہ ‘‘ ایصال عمل کررہا ہے جو لوگ ’’ ایصال ثواب  کے مرض کا شکار ہیں ۔ انہوں نے کبھی بھی کسی زندہ کو اپنے ثواب ایصال  نہیں کئے  اور نہ وہ خود اس بات  کے قائل ہیں کہ ان کے نیک اعمال دوسرے مستحق بھائیوں  یا بزرگوں کو منتقل  ہوتے ہیں ۔ گویا ‘‘ ایصال’’ صرف مردوں کے ساتھ مخصوص ہے اور زندہ اس کا مستحق  نہیں لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ‘‘ ایصال ’’ اگر ممکن  ہے تو وہ زندوں کےلئے بھی  ہوسکتا ہے تو ہماری درخواست  ہے کہ وہ اپنے  ایسے تمام  نیک اعمال  جو انہوں نے خالصتاً اللہ کے لئے  کئے ہوں ہمیں  ایصال  اور ارسال فرمادیں لیکن اگر وہ یہ خیال  کرتے ہیں کہ زندوں کا عمل صرف مُردوں  ہی کو پہنچ  سکتا ہے، زندوں کونہیں ۔ تو وہ اپنے  دشمنوں  اور بد خواہ مُردوں کو اپنے گناہ  اور ان کا عذاب ایصال کیوں  نہیں کردیا کرتے؟

اگر کسی کے گناہ  کا بدلہ دوسرے کونہیں پہنچا یا جاسکتا اور ایصال عذاب ممکن نہیں ۔ تو پھر اپنے کسی نیک  عمل کا اجر بھی دوسرے کو کسی طرح  پہنچ سکتا ہے اور ‘‘ ایصال ثواب ’’ کیوں کر ممکن ہے ؟

سمجھ دار لوگوں  کے لئے یہی  بہت ہے کہ وہ اپنی مہلت عمل کا بھر پور فائدہ اٹھا کر خود اپنے  لئے زیادہ  سے زیادہ نیک اعمال  کا ذخیرہ  کریں تاکہ کل حشر کے دن ان کے کام آسکیں  ایسا  نہ ہو کہ وہاں  لوگوں کے نیک اعمال  کا ثواب  تو ان کے مردے لے اڑیں اور وہ خود وہاں  خالی ہاتھ  ملتے اور افسوس کرتے رہ جائیں ۔

حالانکہ اللہ ربّ العزت نےاس بے بنیاد  عقیدے کے خلاف صاف طور پر آگاہ فرما دیا ہے کہ ‘‘ اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وہ اسی کے لئے ہے اور کوئی  کسی دوسرے کابوجھ  ہر گز نہ اٹھائے گا ’’۔ ( انعام :165)

نیز فرمایا ۔ ‘‘ اےلوگو! اپنے رب کی پکڑ سےبچو اور اس دن سے ڈرو جس دن نہ کوئی باپ اپنی اولاد کے کام آئے گا اور نہ کوئی اولاد اپنے باپ کے کچھ کام آنے والی بن سکے گی ۔’’ ( لقمان :33)

مزید برآں سورۂ فاطر :18 میں بتایا گیا ہے کہ ‘‘ اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی او رنہ کوئی  بوجھل  شخص اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے کسی  سے مدد طلب  کرے گا ۔ اگر چہ وہ قرابت  دار ہی کیو نہ ہو’’۔

اس حقیقت  کے باوجود  ایرانیوں  اور عجمیوں  کی تعلیمات  کے زیر اثر  ہندو پاک  کے بیشتر  لوگ اس مرض کا شکار ہیں کہ وہ اپنے لواحقین  کو خواہ وہ خود اپنی زندگی  میں کتنے ہی گنہگار رہے ہوں اور اپنی بد اعمالیوں کے سبب مستحق  عذاب ہی کیوں  نہ بن چکے ہوں مگر انہیں  ثوابوں کے پارسل ایصال  اور ارسال کر کے عذاب  سےبچایا جا سکتا ہے کہ یہ سب  تماشہ اسلام کے نام پر اسلام  سے دھوکہ  اور  فریب  ہے ۔ جسے اسلام دشمنوں  نے رائج  کیا تھا مگر آج اسلام کے نام لیوا یہی  سب غدّار یاں  بڑے ٹھاٹ  سے انجام دے رہے ہیں اور خوش  ہیں کہ انہوں نے آخرت کا معاملہ  بھی خود  اپنے ہاتھ  میں لے لیا ہے کہ جس کا چاہے عذاب گھٹا دیں اور جس کو چاہے ثواب منتقل کردیں ۔

جنوری، 2014  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/subscribe-our-good-deeds-account/d/87234

 

Loading..

Loading..