مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
22 ، مئی ، 2014
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جاری کش مکش کے بارے میں احتیاط کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ضرور رنگ لائے گی اور چوکھا لائے گی کیوں کہ جس طرح ایک دوسرے کے خلاف پشتے مضبوط کیے گئے ہیں، یہ کوئی معمول کی بات نہیں۔بحثیت مجموعی پاکستانی ذرائع ابلاغ کی ساخت اور مزاج ابھی پختگی کے انتہائی ابتدائی مراحل ہی طے کرپارہے تھے کہ اُن پر ایک ایسی اُفتاد آن پڑی ہے، جس سے مکمل طور پر بچ جانا اِس کے بس کی بات نہیں۔مسئلہ کسی ایک خاص ابلاغی ادارے کا نہیں بلکہ مسئلہ اجتماعی تصور اور رویے کا ہے ،جس کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں جامع بحث ابھی شروع نہیں ہوسکی۔اس کی بڑی وجہ بیرونی مداخلتیں ہیں جو آسانی کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی عمارت میں سیند لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابلاغی اداروں کی کاروباری رقابت اس قضیے کی اصل جڑ ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی رقابتیں ہر جگہ اپنا وجود رکھتی ہیں لیکن یہ پہلو ہمیشہ مدنظر رہتا ہے کہ فریق ثانی سے صحت مند مقابلہ تو موجود رہے لیکن اِس کو تہس نہس کر دینے کا تصور حاوی نہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں رقابت کا مفہوم یہ لے لیا گیا ہے کہ مدمقابل کو شکست فاش دے کر نہ صرف اس کے وجود کا خاتمہ کردیا جائے بلکہ بعد میں اس کی لاش کو بھی پامال کرنا بہت ضروری ہے۔یہ رویہ ہمارے تمام تر سماجی تصور پر پوری قوت کے ساتھ حاوی ہوچکا ہے، چاہے اختلاف کی نوعیت سیاسی ہو یاسماجی یا مذہبی و مسلکی،ہم آخری فتح کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔جزئیات کو چھوئے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ واضح طور پراپنے بارے میں جزوی طور پر قائم کیے گئے تصورات پر پورا اُترنے سے ابھی تک قاصر ہے۔آزادی اور غیر جانبداری کے مصنوعی طور پر تیار کیے گئے خاکے میں لاتعداد سقم موجود ہیں اورمعروضیت کے ساتھ ابھی اس کا دور کا بھی کوئی واسطہ قائم نہیں ہوسکا۔لالچ اور تعصب اس کے ابھی تک تیار شدہ وجود کے تاروپود میں سمایا ہوا ہے جو اس کو حقیقی طور پر آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے اور محض جامد رہ کر لاف زنی پر اُکساتا رہتا ہے۔
اصل بات اس سے بھی آگے کی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر کراہت آمیز روایات اور تاریخ کے بعد مستقبل میں کیسے کیسے حالات پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔آج تک پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو سیاست،مخصوص مہم جو کرداروں،بعض ریاستی اداروں اور ہر قسم کے بالا دست طبقات کی دست برد سے نہیں بچایا جاسکا بلکہ صورت حال معکوس رخ میں نظر آتی ہے، لاتعداد ایسے واقعات اوراتفاقات پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ساتھ جڑے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔بہت سے عملی صحافی اس بات کے گواہ ہیں کہ اُنہیں ملازمتیں حاصل کرتے وقت یہ ثابت کرنا پڑا کہ وہ اپنے حقیقی کام یعنی صحافتی ذمہ داریوں سے ہٹ کر ادارے کے لیے کس قسم کے فوائد حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔اُن کے روابط کس نوعیت کے ہیں اور کہاں کہاں کام آسکتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نوئے کی دھائی کے آخر میں لاہور سے شائع ہونے والے ایک بہت عظیم الشان اخبار کے مالک نے ملازمت کے لیے درکار انٹرویو کے لیے مدعو کیا۔میں جو کچھ جانتا تھا، کر چکا تھا یا مستقبل میں کرنے کی اُمید تھی، وہ سب کچھ بیان کردیا تو موصوف نے نہایت مختصر انداز میں اپنا مدعا میرے سامنے رکھ دیا’’تم ادارے کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہو‘‘میرے استفسار پر اُنہوں نے نہایت شفقت کے ساتھ فرمایا کہ آپ کسی ادارے،جماعت،گروہ وغیرہ کے ساتھ کوئی ایسا تعلق رکھتے ہو جو بوقت ضرورت کام آئے؟ میں محض ایک فیلڈ رپورٹر تھا جو واقعات کی اُن کے مقامات پر جاکر تحقیقات کرتا اور میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ رائج الوقت توقعات و ضروریات پر پورا اُترتا، اس لیے میں نے صاف بتادیا کہ ابھی میں ایسے’’تعلقات‘‘ کے دائرے میں داخل نہیں ہوسکا۔اُنہوں نے کمال انکساری آمیز رعونت کے ساتھ جواب دیا کہ ابھی ہمارے پاس جگہ نہیں جب گنجائش ہوگی آپ کو مطلع کردیا جائے گا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں جس مصنوعی اور خود ساختہ آزادی کے دعوئے کیے جاتے ہیں اُس کے عقب میں بہت کچھ ایسا پوشیدہ ہوتا ہے کہ غلامی بھی اُس سے بہتر نظر آتی ہے۔کمزور ریاستوں اور اُلجھے ہوئے معاشروں میں مسئلہ اس وقت گھمبیر ہوجاتا ہے جب عام لوگ یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ کوئی ایک ادارہ، جماعت یا گروہ تمام پیچیدہ مسائل کو حل کردے یا آگے بڑھ کر ہر قسم کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کن کردار ادا کرے۔پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ریاست کے دیگر اداروں سے رکھی جانے والی توقعات بھی ذرائع ابلاغ سے باندھ لی گئی ہیں۔اس میں حیران کن امر یہ ہے کہ کچے پکے اذہان کے مالک ابلاغی پہلوانوں نے بھی ریاست اور اس کے عوام کے تمام تر بنیادی معاملات و مسائل کو خود سے حل کر نے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ذرائع ابلاغ تمام تر اداروں اور شعبہ ہائے زندگی کی حدود و قیود اور طرز عمل کی نشاندہی کرتا ہے لیکن اپنے بارے میں کسی قسم کے ضوابط یا ذمہ داری کے تصور کو بھی برداشت نہیں کرتا۔
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں محض روزانہ درجنوں کی تعداد میں برپا ہونے والے ٹی وی مذاکروں کو ہی دیکھ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ حتمی قطعیت اور اُلوہیت سے مزین بسیار گو فیصلے صادر کرتے نظر آتے ہیں۔پوری دنیا میں صحافت ایک استفہامی رنگ لیے نظر آتی ہے کیوں کہ یہ صحافت کا بنیادی وصف ہے کہ وہ پوچھے جانے اور جاننے کے لیے بے تاب ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں صحافت بتائے جانے اور صادر کرنے کے وصف سے مالا مال ہے۔ایک ماہر تجزیہ کار اونچائی سے محض کچھ بتانا چاہتا ہے اور حتمی گفتگو اُس کے دلائل کا خاصا محسوس ہوتی ہے، وہ کبھی یہ تاثر نہیں دے گا کہ اُس کی معلومات میں سقم ہوسکتا ہے یا اُس کی رائے خام ہوسکتی ہے۔اگر کریدنے کی کوشش کی جائے تو وہ فتاوی سازی پر اُتر آتا ہے اور بعید نہیں کہ عملی طور پر بھی کچھ کردے۔ہمارے ہاں تجزیہ نگار اور صحافی سے لوگ خوف زدہ ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ لوگوں کو اپنی روایتی پیشہ ورانہ مہارت اور معلومات سے اپنا ہمنوا یا قاری و سامع ہی نہیں بنانا چاہتا بلکہ اپنی ’’رسائی‘‘ اور طاقت کے زور پر مرعوب کرنے کی طرف زیادہ مائل نظر آتا ہے۔
شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ لوگ پھر ایسے طاقتور اور رسائی شدہ دانش وروں اور صحافیوں سے بہت زیادہ توقعات باندھ لیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا رحجان اور تعارف نے پاکستان میں صحافت کو چوہدراہٹ میں تبدیل کردیا ہے۔جس کے باعث اپنا صحافت کا پیشہ تو پسماندہ رہ گیا ہے صحافی ترقی کرگیا ہے۔رہی سہی کسر قومی اخبارات کے سرکردہ کالم نگاروں نے پوری کردی ہے، جو اس وہم سے باہر نہیں نکل سکے کہ لوگ اُن سے شدید محبت کرتے ہیں اور اُن کا مرتبہ نہایت بلند ہے۔حکومتیں اُن سے خوفزدہ ہیں اور وہ کسی کو بھی لمحوں میں نشان عبرت بنا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اکثریت تحریر کے لیے ناگزیر مطالعہ چھوڑ چکی ہے اور اپنے سفرناموں،رشتہ داروں،دوستوں،بیرونی اسفار کی خودستائشی کہانیوں سے کسی طور باہر نکلنے کو تیار نہیں۔کالم اُن کی ذات سے شروع ہوتا ہے اور اُن پر ہی ختم ہوجاتا۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-media-itself-pathetic-condition/d/87144