باسل حجازی، نیو ایج اسلام
20 مئی، 2014
کہا جاتا ہے کہ اسلام رواداری اور میانہ روی کا مذہب ہے اور تشدد ودہشت گردی کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے، اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے کہ:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل 125)
دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔
چنانچہ مسلح اسلامی تنظیمیں جیسے القاعدہ اور داعش وغیرہ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔۔
یہ بات شیوخِ اسلام سے اکثر سننے میں آتی رہتی ہے، ایسی باتوں کا مقصد لوگوں میں خاص کر عام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں پر اسلام کی تصویر خوبصورت بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے جو اچھی خاصی بگڑ چکی ہے اور لوگ خاص کر نوجوان اور مثقف طبقہ اس سے جوق در جوق خارج ہو رہا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ باتیں اسلام کی معلوم بدیہیات اور تاریخ سے ٹکراتی ہیں جو جنگوں، مظالم، جابرانہ حکومتوں، فقہاء کے غیر انسانی فتؤوں اور مُتون سے لبریز ہے جیسے قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت جو تواتر سے درجنوں تاریخی مصادر میں مذکور ہے تاہم فی الوقت ایسی باتوں کا رد ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے بلکہ اسلامی دہشت گردی کی جڑیں اور فکری عمارتیں ہمارا موضوع ہیں جن کے علم کے بغیر ہم کبھی بھی اس خطرناک آفت کا علاج نہیں کر پائیں گے جس سے کرہ ارض کی تمام تر اقوام کو خطرات درپیش ہیں اور جس کی آگ میں غیر مسلم کیا مسلمان بھی جل رہے ہیں، اس فکر کی کچھ بنیادی بنیادیں یہ ہیں:
1- یہ اعتقاد کہ حقیقت صرف ایک ہے اس سے زیادہ نہیں (ناجی فرقہ)۔
2- یہ اعتقاد کہ ہر انسان حقیقت تک با آسانی پہنچ سکتا ہے کیونکہ دینِ حق عقل اور فطرت کے عین مطابق ہے (فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم آیت 30) - اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے) ۔
3- یہ اعتقاد کہ صرف ہمارے پاس ہی مطلق سچائی ہے اور ہم دینِ حق پر ہیں۔
4- اوپر کے تین مقدمات کا نتیجہ یہ ہے کہ مخالف لازماً باطل پر ہے، وہ حق جانتا ہے مگر وہ اپنی نفس اور شیطان کی پیروی کر رہا ہے (ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ (البقرہ 108) - اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو)۔
5- یہ اعتقاد کہ حق کی نصرت کے لیے باطل سے لڑائی ضروری ہے، یعنی جو لوگ باطل پر ہیں انہیں قتل کر کے ان کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا جائے (فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ (النساء 76) - سو تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو)۔
6- آخرت اور جنت وجہنم پر اعتقاد کہ یہی اصل حقیقی اور ابدی زندگی ہے اور یہ دنیاوی زندگی محض مقامِ امتحان ہے تاکہ مؤمن اور غیر مؤمن میں تفریق ہوسکے اس کے علاوہ اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔
7- آخری بنیاد جو مذکورہ بالا تمام تر مقدمات پر مبنی ہے یعنی اس کا نتیجہ ہے کہ اس دنیا میں انسان اور اس کے حقوق کی نا قدری کی جائے، انہی بنیادوں پر دہشت گردی کی عمارت استوار ہے اور انہی سے اپنی ساری قوت حاصل کرتی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ساری بنیادیں اسلام کے اندر موجود ہیں اسی لیے ہم کہتے ہیں بلکہ اب تو ساری دنیا کہتی ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے کہ وہ یا تو عمل سے دہشت گرد ہے یا اپنی فکر سے یعنی ہر صورت اپنے سر میں دہشت گردی کی بیج لیے گھومتا ہے۔
جہاں تک بات علاج کی ہے تو یا تو مسلمان اسلام چھوڑ دے اور دہریہ یا لادین ہوجائے جیسا کہ بیشتر مثقف حضرات کر رہے ہیں جوکہ زیادہ تر لوگوں کے لیے بہرحال ایک مشکل امر ہوگا خاص کر جبکہ الحاد ان کے نفسیاتی اور فکری مسائل پوری طرح حل نہیں کرتا، یا پھر عارفین کا مسلک اپنائیں جو دہشت گردی پر اکسانے والے مذکورہ بالا سات نکات سے بالکل پاک ہے اور مندرجہ ذیل موقف اختیار کرتا ہے:
1- یہ اعتقاد کہ حقیقت متعدد ہے اور ہر انسان یا مذہب کے پاس حقیقت کا صرف ایک حصہ ہے پوری حقیقت نہیں۔
2- یہ اعتقاد کہ حقیقت تک پہنچنا مشکل ہے کیونکہ یہ مسئلہ ذہنی اور عقلی نہیں ہے بلکہ قلبی ہے جس کے لیے سالوں کی ریاضت درکار ہے۔
3- مندرجہ بالا دو نکات کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ مطلق سچائی یا حقیقت کسی کے پاس نہیں چنانچہ ایسا کوئی ایک مذہب نہیں ہے جس کے پاس مطلق سچائی ہو اور نتیجہ کے طور پر باقی سارے باطل ہوجائیں۔
4- اور مندرجہ بالا تین نکات کا نتیجہ یہ ہے کہ مخالف کو مارنا جائز نہیں کیونکہ نا تو وہ باطل پر ہے اور نا ہی وہ شیطان کی پیروی کر رہا ہے۔
5- حق کی نصرت کا مطلب ہے کہ انسان راہِ حق کو پانے کے لیے خود حرکت کرے جس کا سب سے آسان طریقہ لوگوں کی خدمت کرنا اور ان کے مسائل حل کرنا ہیں نا کہ ان سے لڑنا اور دشمنی روا رکھنا۔
6- یہ اعتقاد کہ آخرت اسی زندگی میں موجود ہے بلکہ اسے اسی حیات کے باطن کا مقام حاصل ہے اور جنت وجہنم، میزان اور صراط اور حساب سب اسی حیات کا حصہ ہے موت کے بعد نہیں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد از مرگ زندگی کا کوئی وجود نہیں تاہم وہ صرف صالحین کے لیے ہے اگرچہ اس پر کوئی عقلی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک ایمانی قضیہ ہے اور اس دنیا میں انسان کی زندگی کے لیے قطعی مضر نہیں ہے تاہم اس کی تفصیل کافی طویل ہے جو یہاں بے محل ہے۔
7- مندرجہ بالا تمام نکات کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ ہر انسان چاہے اس کا مذہب ومسلک کچھ بھی ہو قابلِ احترام ہے، اس کے حقوق قابلِ احترام ہیں اور اس کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا جانا چاہیے، یہ زندگی بھی قابلِ احترام ہے کیونکہ یہ انسان پر خدا کی عظیم ترین نعمت ہے۔
اور مندرجہ بالا ساتوں نکات کی یقیناً ایک طویل تشریح وتفصیل ہے تاہم میں فی الحال قاری کی عقل پر انحصار کر رہا ہوں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/ideological-roots-terrorism-/d/87098