باسل حجازی، نیو ایج اسلام
24اپریل، 2014
جب سے دہشت گردی نامی یہ بلا متعارف ہوئی ہے تب سے اسلامی دنیا بالخصوص اور باقی دنیا بالعموم ایک عذابِ مسلسل میں مبتلا ہے، ہم بلا مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں، دیکھا جائے تو دراصل یہ ایک افسوس ناک قصہ ہے جو ہابیل کے ہاتھوں اپنے بھائی قابیل کے قتل سے شروع ہوتا ہے، آگے کے زمانوں میں یہ قصہ مختلف شکلوں میں دہرایا جاتا رہا تاہم آج کے دور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ایسے آلات اور ٹیکنالوجی آگئی ہے کہ وہ قابیل کی فکر کو جدید دور کے ان اوزاروں سے کئی طریقوں سے لاگو کر سکتے ہیں۔
دہشت گردی کے اس مظہر کی تاویل کے لیے کئی توجیہات پیش کی گئیں، یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ باقاعدہ کئی ❞نظریات❝ پیش کیے گئے، شروع میں کہا گیا کہ اس کی وجہ غربت ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے غریب اپنی روزی روٹی کے حصول کے لیے دن رات ایک کر کے محنت کرتے ہیں اور اسی میں ہی مصروف رہتے ہیں تاکہ نہ صرف اپنے پیٹ کی آگ بجھائی جا سکے بلکہ اپنی ضرورتیں بھی پوری کی جاسکیں، اور اگر غربت دہشت گردی کی علت ہوتی تو دنیا دھماکوں سے لرز اٹھتی کیونکہ دنیا کی زیادہ تر آبادی غریب ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔
ایک تاویل جمہوریت کے فقدان کے طور پر پیش کی گئی، لیکن ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ دہشت گرد جمہوریت کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے، دہشت گردوں کو تو جمہوریت ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ اسے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے ہیں، مزید برآں معاشرتی اور سیاسی تشدد نے نمو ہی ان ممالک میں پائی ہے جہاں ہر طرف جمہوریت کا دور دورہ تھا اور لوگ اس کے مزے لوٹ رہے تھے۔
یہ اور ایسی کئی دیگر تاویلوں کے بعد جو غلط ثابت ہوئی ہیں اصل الزام انسانی جسم میں موجود ایک عضو کو دیا جاسکتا ہے جسے ❞دماغ❝ کہتے ہیں، اگر آپ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور آپ انسانی دماغ کو اس سے مبرا قرار دینا چاہتے ہیں تو بھی کوئی بات نہیں، ہم لفظ ❞دماغ❝ کو ❞ذہن❝ یا ❞فکر❝ سے بدل لیتے ہیں، میرے خیال میں سب سے زیادہ توجہ دراصل اس نکتے پر دی جانی چاہیے تھی، انہیں بھی جو ہتھیار لے کر دہشت گردی کو دہشت گردی سے ختم کرنے نکلے تھے یعنی امریکہ واتحادی وغیرہ کیونکہ خدا کی زمین پر ہر ارادی جرم سے پہلے ایک سوچ یا فکر کارفرما ہوتی ہے، لہذا دہشت گردانہ فکر ابتدائی مرحلے کا جرم ہے اور فعل یا اس کا ارتکاب یعنی پریکٹیکل اسی ابتدائی فکر کی پیداوار یا نتیجہ ہے۔
لہذا دہشت گردی کے اسباب کی تلاش کا دائرہ کار چاہے جس قدر بھی وسیع کر لیا جائے فکری انحراف ہمیشہ پہلے نمبر پر رہے گا اور اس کا اثر سب سے غالب پایا جائے گا۔۔ یہ فکری مرض کسی بھی ماحول میں کئی شکلوں میں پیدا ہوسکتا ہے اور ہر اس شخص کو لاحق ہوسکتا ہے جو نفسیاتی اور ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہو، بات بس ماحول کے سازگار ہونے کی ہے۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کو محض اور فقط اسلام سے منسوب کر دینا انتہائی متعصبانہ سوچ ہے بلکہ میں تو اسے عالمی میڈیا کی بے راہ روی ہی قرار دوں گا۔
تو جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ خرابی دراصل فکر میں ہے تو اس کے ساتھ مزید دو عناصر کو بھی کم اہمیت حاصل نہیں، نفرت انگیز فکر کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک ایسی شخصیت بھی درکار ہے جو نفسیاتی طور پر مضطرب ہو، اور ایسی مضطرب نفسیاتی شخصیت کا نمو اس کے لیے سازگار ماحول کے بغیر ممکن نہیں، لہذا یہ تینوں عناصر دہشت گردی کا تکون ہیں، نفرت انگیز فکر خود بخود انسانی بم میں تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اسے نفسیاتی طور پر ایک مضطرب شخصیت میسر نہ آ جائے جو معاشرے اور زمانے سے خود کو ہم آہنگ نہ کر پا رہی ہو ایک ایسے ماحول میں جو ایسی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے سازگار ہو۔۔ بد قسمتی سے کچھ ممالک میں ایسا ماحول بڑا ہی سازگار ہے جن میں اول نمبر پر سعودی عرب، پاکستان، افغانستان، ایران، سوڈان، مصر اور یمن ودیگر شامل ہیں، حالانکہ ان ممالک میں پنپنے والی دہشت گرد تنظیمیں خود ان ممالک کے قوانین کا اعتراف نہیں کرتیں بلکہ وہ خود کو مملکت کے مقابلے میں اتھارٹی تسلیم کرتی ہیں جیسے لبنان میں حزب اللہ، پاکستان اور افغانستان میں طالبان، اور نائیجیریا کے بوکو حرام وغیرہ، افسوس ناک بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام تر تنظیمیں خود کو ❞مسلمان❝ کہتی ہیں اور یہ سب اسلامی ملکوں کی پیداوار ہیں!
تاہم اگر ہم تاریخ اسلام میں ذرا پیچھے جائیں تو ہمیں خالد بن الولید کے ہاتھوں مالک بن نویرہ اور اس کی قوم کے قتل اور ان کے سروں کو پکانے کے علاوہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا جسے دہشت گردی کہا جاسکے یا جو دہشت گردی کے متنازعہ معیار پر ہی پورا اتر سکے، اس واقعے پر بھی مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی تھی لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کی نا تو پذیرائی کرتا ہے اور نا ہی پشت پناہی، ہاں یہ درست ہے کہ امویوں نے آکر تمام تر اسلامی احکامات کی دھجیاں اڑا دیں تاہم یہ ایک سیاہ تاریخ تھی جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا وگرنہ اسلام کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ فی زمانہ شاہد ہے کہ یہ دہشت گرد کافر تو کافر مسلمان تک کو نہیں چھوڑتے۔
نیو ایج اسلام کے کالم نگار باسل حجازی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ فری لانسر صحافی ہیں، تقابل ادیان اور تاریخ ان کا خاص موضوع ہے، سعودی عرب میں اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کی، عرب سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، لبرل اور سیکولر اقدار کے زبردست حامی ہیں، اسلام میں جمود کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں لچک موجود ہے جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جمود پرست علماء اسلام کے سخت موقف کے باعث دور حاضر میں اسلام ایک مذہب سے زہادہ عالمی تنازعہ بن کر رہ گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جدید افکار کو اسلامی سانچے میں ڈھالے بغیر مسلمانوں کی حالت میں تبدیلی ممکن نہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/deviation-thought-important-reason-terrorism/d/76706