ناستک درانی، نیو ایج اسلام
22فروری، 2014
نماز ارکان اسلام کا ایک رکن ہے، باقی ارکان میں شہادت، زکاۃ، حج اور ماہ رمضان کے روزے ہیں حدیث میں ہے کہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ،اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا، اور زکاۃ دینا، اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا 1، یہ بھی ہے کہ: اسلام یہ ہے کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور اس سے کسی بھی طرح شرک نہ کریں، فرض نماز قائم کریں، زکاۃ دیں اور رمضان کے روزے رکھیں 2۔
زکاۃ کا مکی سورتوں میں ذکر ہے 3، اس کا ذکر الگ بھی ہوا ہے اور نماز کے بعد بھی ہوا ہے 4، جبکہ مدنی سورتوں میں اس کا ذکر نماز کے بعد ہوا ہے 5۔
زکاۃ کا حکم مدینہ میں نازل ہوا یعنی ہجرت کے بعد، علماء میں اس کے وقتِ نزول میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض کا خیال ہے کہ زکاۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے پہلے سال فرض ہوئی، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ دوسرے سال میں اور کچھ دیگر کا خیال ہے کہ اس کے بعد 6، طبری کہتے ہیں کہ زکاۃ کا اخراج ہجرت کے دوسرے سال ہوا 7، بعض علماء نے زکاۃ کے فرض ہونے کی تاریخ پر تحقیق کی ہے مگر وہ ثابت نہ کر سکے، بعض علماء کہتے ہیں کہ زکاۃ کب فرض ہوئی اس امر نے انہیں عاجز کر کے رکھ دیا ہے 8۔
علمائے لغت کہتے ہیں کہ ”الزکاۃ“ دراصل ”الزکاء“ سے ہے جس کا مطلب نمو اور آمدنی ہے، اور یہ کہ زکاۃ کی ادائیگی زکاۃ دینے والے کو پاک کر دیتی ہے، اور لغت میں زکاۃ کی اصل طہارت، نمو اور برکت ہے، اور یہ بھی کہ زکاۃ بدن کو پاک کرتی ہے 9، سریانی زبان میں اس کا مقابل لفظ زاکوت (ZAKUTT) ہے جس کا اصل ”دکی“ ہے یعنی طہارت 10، یہودیت اور نصرانیت میں اس سے مراد اسلامی ”زکاۃ“ کا مترادف لیا جاتا ہے یعنی امیروں پر وہ مفروضہ حقوق جو انہیں اپنے مال کو پاک کرنے کے لیے غریبوں کو ادا کرنا ہیں، اس کا حکم توریت اور اناجیل میں دیا گیا ہے 11۔
چونکہ مکی سورتوں میں زکاۃ کی طرف اشارہ اور اس کی تلقین موجود ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فرض ہونے سے پہلے یہ اللہ سے قربت کے حصول کا ایک طریقہ تھی یعنی یہ ایک رضا کارانہ صدقہ تھی جو امیر غریب کو دیتا تھا، فقہ کی کتابوں میں لفظ ”صدقۃ“ زکاۃ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے 12، یعنی اس کے مترادف معنی میں، مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے صدقات بغیر کسی منت اور تفاخر کے ادا کریں 13۔
یہ نوٹ کیا جاسکتا ہے لفظ ”صدقۃ“ ”الصدقات“ اور ”صدقاتکم“ صرف مدنی سورتوں میں ہی وارد ہوئے ہیں 14، ایک آیت میں ہے: إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (ترجمہ: صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے) 15، آیت بیان کرتی ہے کہ زکاۃ کہاں کہاں خرچ کرنی ہے۔
یہودیت اور نصرانیت نے بھی صدقہ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے وہ بھی کسی تفاخر یا کسی پر منت لگائے بغیر، عبرانی میں اسے ”صیدقۃ“ ”صیداقا“ اور ”صیداقۃ“ کہا جاتا ہے 16، آرامی زبان میں اسے ”ZEDQTO“ کہا جاتا ہے یعنی غریب کا حسنہ 17۔
شریعتِ یہود میں صدقہ کو دین کے دیگر ارکان پر ترجیح حاصل ہے بھلے وہ نماز ہو یا روزے 18، یہ ایک رضا کارانہ عمل ہے جو امیر اپنا مال پاک کرنے اور اس کی تزکیت کے لیے غریبوں کو دیتے ہیں۔
سامی قوموں کے ہاں زکاۃ اور صدقۃ ارکانِ دین کے دو اہم رکن ہیں کیونکہ یہ ایک تقرب اور قربانی ہے جو مؤمن اپنے خدا کو دیتا ہے، ان مذاہب میں زکاۃ اور صدقہ کو بنیادی اور دین کے اولین ارکان کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ مؤمن اپنے مال کی قربانی دے کر جو اسے زیادہ عزیز ہوتا ہے اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے، اس طرح وہ ایک عبادت اور قیمتی قربانی ایک ساتھ دیتا ہے۔
روزے ہجرت کے دوسرے سال میں ماہ شعبان یا رمضان میں فرض ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ نے آل فرعون کو غرق کیا تھا اور موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بچایا تھا، تو آپ نے فرمایا: ہم موسی کے ان سے زیادہ حقدار ہیں، چنانچہ آپ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا، جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے نہ تو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا اور نا ہی اس سے منع فرمایا 19۔
احادیث واخبار کی کتابوں میں ہے کہ: جاہلیت میں قریش عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے فرمایا: جو چاہے رکھے اور جو چاہے افطار کرے 20، ایک اور خبر ہے کہ: قریش اس دن کو تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس دن کعبہ کو غلاف چڑھاتے تھے اور اس دن کا روزہ اس کی تمامِ تعظیم میں شامل تھا مگر وہ تاریخ میں ہیر پھیر کرتے تھے اس لیے یہ ان کے ہاں دس محرم تھا، تو جب آپ مدینہ آئے تو یہودیوں کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو آپ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ نے موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی 21۔
یہ بھی روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر دنوں کے مقابلے میں عاشوراء کے دن کے روزے کو فوقیت دیتے تھے اور رمضان کے روزوں کے فرض ہونے سے قبل اس دن روزہ رکھتے تھے، تو جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے فرمایا: جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے، مگر آپ خود رضاکارانہ طور پر یہ روزہ رکھتے رہے، چنانچہ آپ سے کہا گیا کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کی یہود ونصاری بڑی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: اگلے سال ان شاء اللہ ہم نویں دن روزہ رکھیں گے، مگر اگلا سال آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے 22۔
فرضِ رمضان پر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اکثریت علماء کی رائے میں ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا، یہ وہی سال ہے جس میں ”شریعت میں جو سب سے پہلی چیز منسوخ ہوئی وہ قبلہ تھا“ 23، اور یہ وہی سال ہے جس میں حرام مہینہ میں قتل کے جواز کی وحی آئی 24، اسی سال قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف بدلا گیا 25، اور زکاۃ الفطر کے اخراج اور نمازِ عید فرض ہوئی، اسی سال ”بدر“ میں فتح حاصل ہوئی، اور اسی میں پہلا خُمس، پہلی غنیمت، پہلا شہید اور اسلام میں پہلا قیدی بنایا گیا 26۔
ماہ رمضان کے روزوں کے فرض ہونے سے مسلمان روزوں کے رکھنے کے طریقہ میں دیگر مذاہب خصوصاً یہودیت اور نصرانیت سے مختلف ہوگئے، اسلام نے ایک خاص مہینہ مقرر کیا جس میں مسلمان سارا دن کھانے پینے اور بیویوں سے ہمبستری سے پرہیز کرتے ہیں، جبکہ یہودیوں کا روزہ مسلمانوں سے مختلف تھا، ان کا صرف ایک روزہ تھا جس کا حکم ناموسِ موسی میں دیا گیا تھا 27، تاہم یہودیوں نے دیگر کئی موقعوں پر مختلف روزے رکھے 28۔
جہاں تک بات نصرانیت کی ہے تو عہد نامہ جدید نے روزے کے اوقات شخص کی ذاتی مرضی پر چھوڑ دیے ہیں 29، ان کا روزہ یہودیوں کے روزے سے مختلف تھا جو غالباً سورج کے ایک غروب سے اگلے غروب تک کھانے سے پرہیز پر مشتمل تھا، وہ اپنے سروں پر خاک ڈالتے اور ہاتھ نہ دھوتے اور چیختے چلاتے، گڑگڑاتے اور روتے 30۔
حج کے فرض ہونے پر مختلف اقوال ہیں، کہیں پر چھ، کہیں پر سات، کہیں پر آٹھ ہجری اور کہیں کچھ اور مذکور ہے 31۔
یہ نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں حج کا ذکر صرف مدنی سورتوں میں ملتا ہے 32، خاص طور سے وہ مدنی سورتیں جو تاخیر سے نازل ہوئیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد رسالت میں اہلِ مکہ کے ساتھ حج نہیں کیا کیونکہ ان کا حج وثنی یعنی بت پرستانہ تھا، جبکہ مدینہ میں ان کے لیے مکہ جا کر حج کرنا ممکن نہیں تھا جس کی وجہ قریش کے ساتھ خصومت تھی، تاہم جب آپ کے غلبے سے یہ خصومت ختم ہوئی آپ کو حج کی اجازت دے دی گئی۔
بعض خبروں میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل دو حج پڑھے تھے اور ہجرت کے بعد ایک حج پڑھا تھا، تاہم علماء کی اکثریت نے آپ کے ہجرت سے قبل کے حج کا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف اس مشہور حج کا ذکر کیا ہے جب آپ کو قریش پر فتح حاصل ہوئی تھی، ہجرت سے قبل آپ کے حج کی صحت علماء کے ہاں خاصی مشکوک ہے 33۔
ان ساری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے پہلے دو رکن جو شہادتین اور نماز ہے مکہ میں ہجرت سے قبل فرض ہوئے، اور نماز دو رکعت فرض ہوئی، جبکہ دیگر ارکان جو زکاۃ، روزہ اور حج ہیں وہ مدینہ میں فرض ہوئے۔
مدنی دور کو اسلام میں تشریع کا دور کہا جاسکتا ہے، اسی میں تشریع وضع کی گئی، مسلمانوں کو ”امت“ کی شکل دی گئی اور وحی کا نزول اپنے اختتام کو پہنچا، اس طرح مدنی دور کو تاریخِ اسلام کا اہم ترین دور کہا جاسکتا ہے۔
ختم شُد
حوالہ جات:
1- صحیح مسلم 30/1۔
2- صحیح مسلم 29/1۔
3- الاعراف 156، الکہف 81، مریم 13، 31، 55، الانبیاء 73، المؤمنون 4، النمل 3، الروم 29، لقمان 4، فصلت 7۔
4- مریم 31، 55، الانبیاء 73، النمل 3، لقمان 4۔
5- البقرۃ 43، 83، 110، 177، 277، النساء 77، 162، المائدہ 12، 55، التوبۃ 5، 11، 18، 71، الحج 41، 78، النور 37، 59، الاحزاب 33، المجادلۃ 213، البینۃ 5، المزمل 20 یہ آیت مدنی ہے جبکہ سورت مکی ہے ما سوائے آیات 10 اور 11 کے جو مدنی ہیں۔
6- الطبری 418/2،
Shorter, P., 654.
7- الطبری 418/2۔
8- امتاع الاسماع 50/1۔
9- اللسان 358/14 ”صادر“، المفردات 212۔
10- غرائب اللغۃ 184،
Shorter, P., 654.
11- Hastings, P., 22.
12- الموطأ ”کتاب الزکاۃ“، ”صدقۃ الفطر“،
Shorter, P., 483, 654.
13- البقرۃ آیت 261۔
14- المعجم المفہرس 406۔
15- التوبۃ آیت 60۔
16- Shorter, P., 483.
17- غرائب اللغۃ 192۔
18- Hastings, P., 23.
19- الطبری 417/2۔
20- زاد المعاد 164/1۔
21- زاد المعاد 164/1۔
22- امتاع الاسماع 59/1۔
23- الطبری 415/2، امتاع الاسماع 56/2۔
24- الطبری 415/2۔
25- الطبری 418/2۔
26- امتاع الاسماع 58/2۔
27- لاویون، باب 16، آیت 29۔
28- قاموس الکتاب المقدس 32/2، جیسے یروشلم کا حصار، ارمیا 253 آیت 41، بختنصر کا ہیکل کو جلانا، سلاطین دوم، باب 25۔
29- قاموس الکتاب المقدس 32/2۔
30- اشعیاء 22، آیت 11، قاموس الکتاب المقدس 32/2۔
31- امتاع الاسماع 254/1۔
32- المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم 193۔
33- زاد المعاد 175/1۔
URL for Part 23:
https://www.newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-part-23/d/35829
URL for this concluding part:
https://newageislam.com/urdu-section/history-namaz-islam-pillars-islam-part-24/d/35870