New Age Islam
Fri Feb 07 2025, 01:06 PM

Urdu Section ( 16 Sept 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sharia or Law Part-2 شریعت یا قانون ۔ حصہ دوم

 

ناستک درّانی، نیو ایج اسلام

16 ستمبر ، 2013

اسلام پسندوں کا فرمان ہے کہ شریعت کے اطلاق کے لیے تگ ودو ایک ایسے آسمانی قانون کے لیے ہے جس کا موازنہ ان قوانین سے کیا ہی نہیں جاسکتا جو آئین ساز اسمبلیوں میں بنائے جاتے ہیں کیونکہ آسمانی قانون کو وضع کرنے والا مخلوق کا خالق ہے لہذا وہ مخلوق سے بہتر ان کی مصلحت جانتا ہے، اس لیے شریعت کا اطلاق معاشرے کے مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ ہے چاہے یہ مسائل اقتصادی ہوں، علمی ہوں یا معاشرتی، اس سے لوگوں میں انصاف قائم کیا جاسکے گا جس سے امن قائم ہوگا اور معاشرہ ترقی کرے گا اور ہم خالق کی مدد سے تمام اقوام عالم کو پیچھے چھوڑ جائیں گے، اسے ثابت کرنے کے لیے وہ دورِ نبوت اور راشدین کی مثال دیتے ہیں جب ننگ دھڑنگ جاہل بدو لوگ قدیم دنیا کے سردار بن گئے اور اسلامی خلافت قائم ہوئی۔

بات اگر یہی ہے تو خلافت کی یہ سلطنت ساقط ہوکر ظلم وپسماندگی کی تاریخ بن کر کیوں رہ گئی؟ اور اگر ان کی بات درست ہے تو اس زمانے میں ہمیں شریعت کے اطلاق میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شریعت کی سزائیں ساری کی ساری جسمانی ہیں جیسے گردن مارنا، ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا، سنگسار کرنا وغیرہ اور قید کا تو تصور ہی نہیں ہے، جبکہ شکست خورداؤں کی عورتوں کی عزت اتارنا بھی پایا جاتا ہے، تو کیا اقوامِ متحدہ کی دنیا اور جینوا کے معاہدے یہ بربریت کرنے دیں گے؟ اور اگر کسی اسلامی ملک میں شریعت نافذ کر بھی دی جائے تو کیا دوسرے اسلامی ممالک میں اس کا اطلاق لازمی ہوگا یا نہیں یہ فرض کرتے ہوئے کہ اسلام یہی چاہتا ہے؟ اگر دوسرے اسلامی ممالک انکار کردیں تو کیا موقف اختیار کیا جانا چاہیے؟

سادہ لوح لوگوں میں یہ تصور رائج کرنا کہ شریعت کا اطلاق فوری اور جادوئی طریقہ سے کام کرے گا اور چشمِ زدن میں امن وآشتی چھا جائے گی ایک فریب ہے، کیونکہ خلافتِ راشدہ کے دور میں شریعت کا معاشرہ خود خلفائے راشدین کو امن فراہم نہ کر سکا، نا ہی شریعت وہ شرمناک قتل عام روک سکی جو اس دور میں مسلمانوں کے بیچ اٹھ کھڑے ہوئے تھے، حتی کہ شریعت کے بانی کے آل بیت کو بھی چن چن کر مارا گیا اور ان کے نواسوں کو قتل کیا گیا اور جلیل القدر صحابہ اور تابعین کا خون بہایا گیا۔

اور اگر ہم خلافتِ راشدہ کی تاریخ پر ایک سرسری سی ہی نظر ڈال لیں تو ہم آسانی سے کالے دھاگے میں سے سفید ڈھاگے کو پہچان لیں گے، ابن جریر الطبری اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمر حضرت عبد الرحمن بن عوف کے پاس آئے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ اے امیر المؤمنین اس وقت کیسے آنا ہوا؟ تو حضرت عمر نے جواب دیا کہ بازار میں تاجروں کا ایک گروہ آیا ہے اور مجھے مدینہ کے چوروں سے ان کی فکر ہے چلو ان کی چوکیداری کرتے ہیں اور پھر وہ نکل پڑے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرماتے ہی رسول اللہ کے شہر میں چوری چکاری عام ہوگئی تھی اور شریعت چوروں کو روکنے میں ناکام ہوگئی تھی جو تاجروں کو لوٹ لیتے تھے، روایت میں حضرت عمر نے ترکیب ‘‘سراق المدینہ’’ کا استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔

حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں جب ام المؤمنین حضرت عائشہ کے ساتھ ان کا اختلاف ہوا جو مسلمانوں کو خلیفہ کو قتل کرنے پر یہ کہہ کر اکساتی رہتی تھیں کہ ‘‘ اقتلوا نعثلاً فقد کفر’’  یعنی اس نعثل کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے، طبری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان نے کوفہ کے کچھ لوگ جنہوں نے حضرت ام المؤمنین عائشہ کے گھر میں پناہ لے رکھی تھی کہا کہ: ‘‘ عراق کے مرتدوں اور فاسقوں کو صرف عائشہ کا گھر ہی ملتا ہے’’ (دیکھیے طبری جلد 4 صفحہ 477 اور الامامہ والسیاسیہ جلد 8 صفحہ 66) جس کا مطلب ہے کہ شریعت کا اطلاق لوگوں کو نا تو اسلام سے مرتد ہونے سے روک سکا اور نا ہی فسق وفجور سے اور نا ہی دورِ خلافتِ راشدہ اور ام المؤمنین کی صحبت انہیں اس سے باز رکھ سکی۔

شیخ قرضاوی اپنی کتاب ملامح المجتمع المسلم کے صفحہ 184 میں فرماتے ہیں کہ: ‘‘ عمر بن عبد العزیز یکمشت شریعت لاگو کرنے سے اس لیے ڈر گئے کہ کہیں لوگ اسلام نہ چھوڑ دیں’’ قرضاوی صاحب کے اس قولِ شریف سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عمر بن عبد العزیز کے دور تک شریعت معطل ہوچکی تھی اور مسلمان اسے بھول چکے تھے بلکہ انہیں اس کی خبر ہی نہیں رہی تھی کیونکہ اگر شریعت ان پر لاگو کی جاتی تو وہ اس سے بھاگتے ہوئے اسلام ہی چھوڑ دیتے؟! حالانکہ اسلام ابھی تازہ تھا اور ایک ‘‘ طاقتور اسلامی خلافت’’ بھی موجود تھی!۔

تاہم قرضاوی صاحب حسبِ ضرورت اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے ایک کتاب میں کوئی بات کہتے ہیں تو دوسری میں اس کا بالکل متضاد بیان دے رہے ہوتے ہیں، اپنی کتاب الشریعہ الاسلامیہ صفحہ 151 میں فرماتے ہیں کہ ‘‘ملکِ اسلام میں شریعت تیرہ صدیوں تک قائم رہی حتی کہ استعمار نے آکر اسے سول قوانین سے بدل دیا!!’’ ۔

خلافتِ راشدہ کے دور کی شریعت کی کچھ جھلک کا اوپر ذکر ہو ہی چکا ہے مگر دورِ نبوت کا کیا؟ ‘‘ابو حاتم اور ابن مردویہ نے ابی الاسود سے روایت کیا کہا: دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے تو نبی کریم نے ثبوت فراہم کرنے والے کے حق میں، ثبوت فراہم نا کرنے والے کے برخلاف فیصلہ سنادیا، جس کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا: ہمیں عمر بن الخطاب کے پاس چلنا چاہیے، تو ہم ان کے پاس پہنچ گئے، اس شخص نے کہا: رسول اللہ نے اس پر میرے حق میں فیصلہ دیا ہے تو اس نے کہا ہمیں عمر کے پاس چلنا چاہیے، تو عمر نے کہا: کیا ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، تو عمر نے کہا: اپنی جگہ پر رہو جب تک میں تمہارے پاس واپس نہ آجاؤں، تو عمر اپنی تلوار لے کر ان کے پاس آئے اور اس شخص کو قتل کردیا جس نے کہا تھا کہ ہمیں عمر کے پاس چلنا چاہیے، اور دوسرا بھاگ گیا، اور کہا: اے اللہ کے رسول عمر نے میرے ساتھی کو قتل کردیا، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے نہیں لگتا تھا کہ عمر کسی مؤمن کو قتل کرنے کی جرات کرے گا، تو اللہ نے نازل فرمایا: فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم) [تا آخر] آیت۔ (تفسیر ابن کثیر میں دیکھیے سورہ النساء کی آیت نمبر 65 کی تفسیر)’’

یہاں ہمارے پاس دو صحابی ہیں جو دوست بھی ہیں اور مؤمن مسلمان بھی، ان کا آپس میں کسی معاملہ پر اختلاف ہوگیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لیے پہنچ گئے، جس کے خلاف فیصلہ ہوا اسے لگا کہ اسے اس کا حق نہیں ملا لہذا اس نے حضرت عمر کے ہاں اپنا مقدمہ رکھا جسے یہ بات پسند نہیں آئی اور اس نے اس شخص کو قتل کردیا، وہ اس کے پاس شکایت لے کر آیا مگر اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے، ہمیں اپنے ملک کی پولیس پر سخت غصہ آئے گا اگر کوئی تھانہ میں اپنی رپورٹ درج کرانے جائے اور تھانیدار اسے ہی پکڑ کر جیل میں ڈال دے، کیا اس سب کے با وجود یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ شریعت کا اطلاق امن وانصاف کا ضامن ہے؟

URL for Urdu article Part-1:

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/sharia-law-/d/13295 

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/sharia-law-part-2-/d/13512 

      

Loading..

Loading..