ساحل رضوی، نیو ایج اسلام
13 مارچ 2025
حضرت بابا حیدر ریشی نے تصوف اور کشمیری رشی روایات کو ایک کر دیا، اور کرامات اور تھیولوجکل عملیت کے درمیان ایک توازن قائم کیا۔ سنی قدامت پرستی میں رشی معمولات کا ان کا انضمام، جس کی توثیق سہروردی صوفیاء نے کی ہے، کشمیر کے روحانی تانے بانے کی عکاس ہے، جس کی بنیادیں ثقافتی موافقت پذیری اور تعظیم و تکریم پر ہیں۔
اہم نکات:
1. گوبر کو رقم میں تبدیل کرنے اور آسمانی خطوط وصول کرنے جیسی کرامات آپ سے منسوب ہیں، جس سے انسانوں اور اللہ کے درمیان وسیلہ کے طور پر آپ کا کردار اجاگر ہوتا ہے۔
2. انہوں نے حضرت بابا داؤد خاکی جیسے مریدوں کے ذریعے سنی راسخ العقیدگی میں رشی معمولات کو ضم کیا، اور اورادِ فتحیہ جیسے معمولات کے ساتھ رشی معمولات کو ملایا۔
3. حضرت حمزہ مخدوم کے زیر تربیت وقتی طور پر سنی غذائی اصولوں کو اپنایا لیکن پھر وجیٹیرین بن گئے، اور اس طرح مقامی رسوم و رواج اور اسلامی راسخ العقیدگی کے درمیان ایک توازن قائم کیا۔
4. حضرت حمزہ مخدوم کی جانب سے ٹوپی اور پگڑی کے تحفے سے، کشمیر میں اسلامی ثقافت کو فروغ دیتے ہوئے، تصوف کے اندر رشی معمولات کی توثیق ہوتی ہے۔
5. صوفی تصوف اور مقامی روایات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے، موافقت پذیری اور مکالمے کے ذریعے کشمیر کے روحانی تانے بانے کی تشکیل کی۔
-----
Shrine of Hazrat Baba Hyder Reshi R.A., courtesy: kashmirsufis.wordpress.com
--------
حضرت بابا حیدر رشی رحمتہ اللہ علیہ (جنہیں ہردی ریشی یا ریشی مولو کے نام سے جانا جاتا ہے) کشمیر کے روحانی منظر نامے میں ایک بلند پایہ شخصیت ہیں، جنہوں نے صوفی تصوف اور مقامی رشی روایات کو ایک کر دیا۔ ان کی زندگی، جیسا کہ سہروردی سوانح نگاروں اور مریدوں نے تحریر کی ہے، کرامات، دینداری، اور ثقافتی موافقت پذیری کے درمیان ایک منفرد تعامل کو ظاہر کرتی ہے، جس کی بدولت انہیں اسلامی آرتھوڈوکس کے اندر رشی تحریک کو رائج کرنے کے حوالے سے ایک اہم شخصیت مانا جاتا ہے۔
حضرت بابا حیدر ریشیؒ 29 رجب 909 ہجری (1504 عیسوی) کو ایک لوہار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابتدائی بچپن سے ہی غیر معمولی روحانی قوت و صلاحیت کے مالک تھے۔
حضرت ہردی ریشی کی زندگی کا سہروردی پہلو ایسے غیر معمولی واقعات سے بھرے پڑے ہیں، جن سے ان کے قرب الہی کا پتہ چلتا ہے۔ ایک ممتاز سوانح نگار اسحاق قاری آپ کی ایک کرامت یوں نقل کرتے ہیں، کہ آپ نے اپنے ایک مرید کو جو کہ فوت ہو چکا تھا، قبر کے عذاب سے بچانے کے لیے گوبر کے ڈھیر کو رقم سے بدل دیا، جس سے اس کے قرضوں کی ادائیگی کی گئی۔ اس عمل سے نہ صرف حضرت ہردی ریشی کی ہمدردی اجاگر ہوتی ہے، بلکہ اس سے اللہ اور مخلوقات کے درمیان وسیلے کی ان کی حیثیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔
ایک اور اہم واقعہ ایک آسمانی خط کے حوالے سے ہے، جو ایک آسمانی قاصد کے ذریعہ ہردی ریشی کے گھر پہنچایا گیا تھا۔ اسحاق قاری، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس خط کو ذاتی طور پر کھول کر دیکھا ہے، کہتے ہیں کہ اس میں اس ولی اللہ کے مریدوں اور زاہدوں کے لیے معافی کا ایک الہی پیغام موجود ہے۔ ایسی حکایتیں، جن کا اگر چہ سخت شرعی معیار پر کھرا اترنا مشکل ہے، لیکن اس سے ایک ولی کے طور پر ہردی ریشی کی ساکھ مضبوط ہوئی، اور انہیں براہ راست بارگاہ خدا تک واصل مانا گیا۔
مزید برآں، مریدین اور معاصرین کا خیال تھا کہ ہردی ریشی کی محض ایک نگاہ بھی، لوگوں کو قطب یا غوث جیسے اعلیٰ ترین روحانی مقام پر فائز کر سکتی ہے۔ یہ کہانیاں، اگرچہ مافوق الفطرت عناصر سے بھری ہوئی ہیں، قرون وسطیٰ کے صوفی افکار و نظریات کی عکاسی کرتی ہیں، جہاں کرامات کو ایک صوفی کی روحانی قوت کا ایک ٹھوس ثبوت مانا جاتا تھا۔
حضرت ہردی ریشی کا دائرہ اثر، ان کے قریبی مریدوں سے بھی کہیں زیادہ بڑا تھا، یہاں تک کہ عظیم سہروردی شخصیات جیسے حضرت بابا داؤد خاکی بھی آپ سے متاثر تھے، جو حضرت حمزہ مخدوم کے مرید تھے۔ خاکی کی تخلیقات، قصیدہ لامیہ اور رشی نامہ، حضرت ہردی ریشی کی مدح و ستائش سے بھری ہیں، جبکہ ان میں اسٹریٹجک طور پر رشیوں کو سنی راسخ العقیدہ (اہل سنت و جماعت) کے پیروکار قرار دیا گیا ہے۔
حضرت خاکی نے حضرت ہردی ریشی کے مراقبات کی تفصیلات بیان کی ہیں، جن میں پاس و انفاس، خلوت در انجمن، اور ہوش در دم کا ذکر ہے، جو نقشبندی اور کبروی دونوں سلسلوں میں رائج ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی، وہ رشی معمولات کی سختی سے پابندی کرنے پر بھی زور دیتے ہیں، جیسے 'اورادِ فتحیہ'، کا ورد کرنا۔ اس دوہرے توجہ سے خاکی کا مقصد رشیوں کے معمولات کو مرکزی دھارے کے سنی معمولات سے ہم آہنگ کرنا ہے، اور اسلامی تصوف کے اندر ان کے کردار کو جواز فراہم کرنا ہے۔
سہروردی اسکالر علی رینہ نے اگرچہ سب سے پہلے رشی بزرگ حضرت نورالدین کی تعلیمات کو دستاویزی شکل نہیں دی، لیکن حضرت ہردی ریشی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے۔ رینہ نے انہیں ولئ مادرزاد کہا ہے، اور ان کی کرامات کا حوالہ دیتے ہوئے، آغوش مادر میں رمضان کے دوران دودھ پینے سے رکے رہنے کا واقعہ درج کیا ہے، جس سے ان کے روحانی مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
رینہ کی تحریروں میں حضرت ہردی ریشی کے مقام و مرتبے کی شان میں، بطور تمثیل ایک آیت قرآنیہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ وہ آیت سورہ 31:27 سے ہے:
"اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہوجائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو اس کے پیچھے سات سمندر اور تو بھی ہردی رشی کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔"
ایسی مبالغہ آرائی پر مبنی تعریف سے قرون وسطی کے صوفی طور طریقوں کی عکاسی ہوتی ہے، جس میں مافوق الفطری باتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ رینہ جیسے سوانح نگاروں کے لیے، یہ باتیں محض عامی کہانیاں نہیں، بلکہ ولی اللہ کے مقام و مرتبے کا ثبوت ہیں۔
حضرت ہردی ریشی کی زندگی کا ایک اہم واقعہ، ان کا کشمیر کے عظیم صوفی حضرت حمزہ مخدوم کے دست پر سہروردی سلسلے میں داخل ہونا تھا۔ رشی کی سخت vegetarianism سبزی خوری کے باوجود، جس کی بنیاد عدم تشدد (اہنسہ) پر ہے، حضرت حمزہ مخدوم نے انہیں سنی معمول پر عمل کراتے ہوئے، ایک بار گوشت چکھنے پر آمادہ کیا۔ میرام بزاز جیسے مریدوں کے ذریعہ ریکارڈ کیا گیا یہ عمل زبردست علامتی وزن رکھتا ہے۔
بزاز کے مطابق، ہردی ریشی نے ابتدا میں اس سے انکار کیا، خضر اور موسیٰ جیسے انبیاء کی تعلیمات کا استعمال کرتے ہوئے پرہیز کرنے پر زور دیا۔ تاہم، حضرت حمزہ مخدوم نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روحانی طور پر موجود ہونے کی درخواست کی، جس سے رشی اس حکم کی تعمیل پر مجبور ہوئے۔ یہ داستان، اگرچہ مافوق الفطرت مناظر میں ڈوبی ہوئی ہے، لیکن ایک اٹل سچائی کو ظاہر کرتی ہے: سہروردیوں نے اپنی ممتاز شناخت کو مٹائے بغیر، رشی معمولات کو اسلامی راسخ العقیدگی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت حمزہ مخدوم نے مقامی رسم و رواج کو، سنی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بعد میں حضرت ہردی ریشی کو دوبارہ vegetarianism سبزی خوری کی اجازت دیدی۔ اس مصالحت پسندی نے ان تصورات کو ختم کر دیا، کہ رشیوں کے معمولات صوفی روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
حضرت حمزہ مخدوم کا حضرت ہردی ریشی کو اپنی ٹوپی اور پگڑی تحفے میں عطا کرنا ایک ذاتی عمل بڑھ کر تھا: یہ اس بات کا اعلان تھا کہ سہروردی سلسلے نے رشی تحریک کی تائید کر دی ہے۔ اس عمل نے کشمیر کی اسلامی ثقافت میں رشیوں کے کردار کو قانونی حیثیت دی، جس سے ان کے معمولات، جیسےvegetarianism سبزی خوری اور تنہا مراقبہ، کو وسیع تر صوفی فریم ورک کے اندر ایک ساتھ جمع کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی۔
آپ کے ایک دوسرے مرید میر بابا حیدر تلمولی نے، حضرت ہردی ریشی کو ’سلطان الاولیاء‘ کہا، جس سے ہندوستان کے طول و عرض سے عقیدت مند ان کی طرف کھنچے چلے آئے۔ تملولی کے بیانات علی رینہ کے دعووں کی تصدیق کرتے ہیں، جس سے راہ سلوک میں رشی کی مہارت، اور تجربہ کار صوفیاء کی رہنمائی کرنے کی، ان کی صلاحیت اجاگر ہوتی ہے۔
حضرت بابا حیدر ریشیؒ یکم ذوالقعدہ 982ھ (1574ء) کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا سالانہ عرس اسی تاریخ کو منایا جاتا ہے، اننت ناگ میں عقیدت مند اس سے پہلے اور اس کے بعد کئی دنوں تک ان کی یاد مناتے ہیں۔ خاص طور پر، خطے میں ہندو اور مسلم دونوں کمیونٹی مشترکہ طور پر، ان تاریخوں میں گوشت سے پرہیز کرنے کی روایت جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے ان ولی اللہ کی محبت، اتحاد اور زندگی کے لیے احترام پر مبنی پائیدار پیغام کی عکاسی ہوتی ہے۔
حضرت بابا حیدر ریشی کی میراث، ان کی ماورائی تصوف اور عملی موافقت پذیری، دونوں کی عملی تصویر پیش کرنے کی صلاحیت میں پنہاں ہے۔ علاقائی رشی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے، سنی راسخ العقیدگی کو اپنا کر، وہ کشمیر کی روحانی روایت کا ایک مضبوط ستون بن گئے۔ سہروردیوں کا ان کی روایات کو قبول کرنا، جیسا کہ حمزہ مخدوم کے عمل سے ظاہر ہے، ایک وسیع تر تاریخی سچائی کی نشاندہی کرتا ہے: کشمیر میں اسلام کا پھیلاؤ زور بازو سے نہیں بلکہ ایک مکالمہ کے ذریعے ہوا، جہاں مقامی رسم و رواج اور صوفی نظریات نے ایک دوسرے کو تقویت بخشی۔
حضرت ہردی ریشی کی زندگی کو دستاویزی شکل دینے میں، قرون وسطی کے سوانح نگار جیسے اسحاق قاری، علی رینہ، اور میرام بزاز نے محض ان کی کرامات کو درج کرنے سے کہیں زیادہ کام کیا؛ انہوں نے ثقافتی ہم آہنگی کے لیے ایک خاکہ محفوظ کیا ہے۔ ان کے بیانات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ روحانیت سخت مذہب پرستی میں نہیں، بلکہ ایمان اور روایت کے درمیان نازک توازن میں پروان چڑھتی ہے۔
حوالہ جات:
-----
1. Kashmir’s Transition to Islam: The Role of Muslim Rishis (15th to 18th Centuries). (2002). Manohar Publishers and Distributors. (316 pp.).
2. (22, May 2023).حضرت بابا حیدر ریشی المعروف ریشہ مول صاحبؒ. Daily Chattan. https://dailychattan.com/columns/opinion/2023/05/22/14180/
3. Kashmir Sufis. (9, June 2021). Hazrat Baba Hardi Reshi رحمۃ اللہ علیہ (alias Resh Molu Sahab رحمۃ اللہ علیہ). WordPress. https://kashmirsufis.wordpress.com/2021/06/09/hazrat-baba-hardi-reshi-%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-alias-resh-molu-sahab-%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%83-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81/
4. Awliya Kashmir, Facebook page.
5. (1 July 2019,). Remembering Baba Hardi Reshi. Countercurrents. https://countercurrents.org/2019/07/remembering-baba-hardi-reshi/
----------
English Article: Hazrat Baba Hyder Reshi: Sufi-Saint of Kashmir
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hazrat-baba-reshi-sufi-saint-kashmir/d/135030
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism