New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 06:53 AM

Urdu Section ( 7 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Germany and Islamophobia جرمنی اور اسلاموفوبیا

اسد مرزا

6 جون 2021

 حال ہی میں جرمنی میں برسراقتدار کرسچین ڈیموکریٹک یونین پارٹی(CDU ) نے جو وفاقی جمہوری جرمنی کے وجود کے ۷۲ برسوں کے منجملہ ۵۷برسوں سے اقتدار پر قابض ہے اور جرمنی میں سب سے بڑے پارلیمانی گروپ کا حصہ ہے اور باویرین صوبے میں اس کی اتحادی سیاسی جماعت کرسچن سوشیل یونین (CDU ) نے اسلامی فوبیا پر مبنی ایک ایسی دستاویز کو منظوری دی ہے جو جرمنی میں سیاسی اسلام ازم کی توسیع پر محیط ہے۔

سیاسی خطوط پرمبنی یہ قرطاس ’آزادانہ سماج کا تحفظ ، سماجی ہم آہنگی کو فروغ اور سیاسی اسلام ازم کے خلاف جدوجہد‘ کے نام سے تیار کیا گیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جرمنی میں ایسے علاقوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جہاں شرعی قوانین کو جرمن قوانین پر فوقیت دی جانے کی کوشش ہورہی ہے جس کی وجہ سے متوا زی سماج کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس دستاویز میں اس بات پر بھی خبردار کیا گیا ہے کہ مختلف غیرملکی حکومتیں جرمنی میں مساجد اور مسلم تنظیموں کو کنٹرول کررہی ہیں جس کی وجہ سے جرمنی کے آزاد جمہوری نظام و ضوابط کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

نئی حکمت عملی

اس دستاویز کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس میں قانون کے پابند ان مسلمانوں کی ستائش کی گئی ہے، جو جرمنی کے جمہوری نظام کا احترام کرتے ہیں تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اسلام پرستی پر بحث ، تشدداور دہشت گردی کو ہمیشہ کم کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی نظریاتی بنیادوں پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔

 تجاویزمیں یورپ میں سیاسی اسلام ازم پر تحقیق اور تجزیہ کو بہتر بنانا بھی شامل ہے اور ان طریقوں کا جائزہ لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے جن کے ذریعہ سے یہ پھل پھول رہے ہیں۔ دستاویز میں مساجد کو غیرملکی عطیات دیے جانے کو روکنے، جرمنی میں غیرملکی کار گرد اماموں کی تعداد کم کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس دستاویز میں جو سب سے اہم تجویز پیش کی گئی ہے وہ جرمن حکومت کی دیرینہ پالیسی میں تبدیلی سے متعلق ہے، جس میں حکومت اب تک ایسے افراد اور گروپس کی مدد کرتی آئی ہے، جو جرمنی میں بات چیت کو فروغ دینا اپنی اولین ترجیح ظاہر کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ جرمنی میں سیاسی اسلام ازم کو بھی پھیلارہے تھے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ توجہ صرف اسلام پرستی کے پرتشدد حصہ ، اسلامی دہشت گردی پر مرکوز کرنے سے منجملہ مسئلہ سے انصاف نہیں ہوسکتاہے۔ دیگر انتہاپسندوں کی طرح اس میں بھی نظریاتی بنیادیں موجود ہیں اورلازمی مقصد پران نظریاتی بنیادوں کی جڑوں کو تلاش کرکے انھیں ختم کرنا ہونا چاہیے۔

مثبت منصوبہ

 اس دستاویز میں سیاسی اسلام ازم کا مقابلہ کرنے اور اسے سمجھنے کے لئے ۵ ؍نکاتی منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔

سب سے پہلے جرمنی اور یورپ میں سیاسی اسلام ازم پر بنیادی تحقیق کی تائید کی گئی ہے ۔اس میں اسلام پرستی پر مخصوص تعلیمی اور تحقیقی ماہرین کا انتخاب اور اس کا ڈھانچہ تیار کرنا ، سیاسی اسلام پرستی کے بچوں ، بالغوں اور نوجوانوں پر اثرات کو بہتر سمجھنے کے لئے سائنسی مطالعہ پر عمل آوری شامل ہیں ۔ دوسرے اس میں سیاسی اسلام ازم کی تنظیموں کے ساتھ روا بط ، تعلقات اور تعاون کو ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ تیسرے اس میں جرمنی میں ائمہ کی تربیت کی بات کہی گئی ہے۔ تجویز ہے کہ جرمنی میں ائمہ کے لئے تعلیمی و روحانی تربیت کا انتظام کیا جائے جب کہ ان کی مذہبی آزادی کو بھی برقرار رکھا جائے اور مملکتی و مذہبی برادریوں کو الگ کیا جائے ۔ چوتھے اس دستاویز میں رکنیت سازی کے ڈھانچہ اور مالیہ کی فراہمی میں شفافیت کے لئے بات کہی گئی ہے جن میں جرمنی میں کارکرد مساجد کو عطیات ، سبسڈی ، کنٹراکٹ اور اشتراک کو وفاقی ٹیکس دفتر سے جوڑنا شامل ہے ۔ آخر میں اس میں وفاقی ، مملکتی اور مقامی حکومتوں کے علاوہ سماج کے مختلف طبقات کے درمیان تعاون کو بہتر بنانے کے ذریعہ انتہا پسندی کو روکنے کی اپیل کی گئی ہے۔ جرمنی میں تعزیراتی نظام میں انتہا پسندی کے عمل کے جوکھم کی تحقیقات کے ذریعہ پولیس ، عدلیہ ، اسکول اور تعلیم ، سماجی کام ، نوجوانوں کی بہبودی اور پناہ گزینوں کی مدد کے میدانوںکے ماہرین کے لئے معلوماتی و بیداری پروگراموں کو توسیع دینے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔

حکمت عملی میں خامیاں

اس دستاویز پر ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے جہاں رضامندی کا اظہار کیا گیا وہیں تنقیدیں اور خدشات بھی سامنے آئے ہیں۔ چند نقادوں نے اسے انتخابی حربہ بھی قرار دیا ہے کیوں کہ جرمنی میں اگلے وفاقی انتخابات۲۲؍ ستمبر کو منعقد ہونے والے ہیں۔ CDU کی حکمت عملیAFDنامی پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنا ہے جو کہ ایک طویل عرصہ سے سیاسی اسلام پر پابندی کا مطالبہ کررہی ہے۔

اس دستاویز کو کئی مغربی ممالک کو درپیش مسئلہ سے یعنی اسلاموفوبیا اور مغربی سماج میں مسلمانوں کے رول سے نمٹنے میں صحیح سمت میں قدم سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے۔ تاہم کسی بھی حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار خیالات اور عمل میں توازن برقرار رکھنے پر ہوتا ہے۔ خاص طور سے سماجی اور معاشرتی پس منظر میں ۔

اس دستاویز میں اسلام کو جس روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مغربی تجزیہ نگاروں کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے جس میں اسلام پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، بغیر اسے بہتر طور پر سمجھتے ہوئے، اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جرمنی سیاسی اسلام ازم جیسی ایک نئی اصطلاح پیش کرکے اسلاموفوبیا کے مسئلے کو اور پیچیدہ بنارہی ہے، جبکہ درحقیقت سیاسی اسلام یا سیاسی اسلام ازم جیسی کوئی بھی سوچ مسلمانوں کے درمیان نہیں پائی جاتی ہے۔

 اگر مسلمان پیغمبراسلامؐ کی توہین کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو انہیں انتہاپسند مسلمان کہا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلمان پناہ گزیں اپنے لیے مساوی سہولتوں اور خدمات کا مطالبہ کرتے ہیں تو انھیں شدت پسند کہا جاتا ہے۔ ہم یہاں بھول جاتے ہیں کہ اظہار خیال کی آزادی کا حق دونوں فریقین کو ہوتا ہے، نہ کہ صرف اکثریت کو۔ یقینی طور پر اسلام حکمرانی کے لئے رہنمائی اصول فراہم کرتا ہے، لیکن اس کا اطلاق صرف ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اسلامی طرز حکومت ہے۔ اسلام کبھی بھی اس ملک میں قواعد تبدیل کرنے کے لئے احتجاج کرنے کا مشورہ نہیں دیتا جہاں آپ پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ دیگر یہ کہ اس منطق میں بھی کوئی وزن نہیں ہے کہ اسلام پسند گروپس مغربی ممالک میں شریعت کا نفاذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلمان شریعت کا پابند ہے لیکن اس کو ماننے کے لئے کسی پر زور زبردستی نہیں ہے۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حلال غذا کو طلب کرنا بنیاد پرستی ہے جب کہ یہ فراموش کردیا گیا ہے کہ ہر مذہب اور معاشرہ کے غذا اور کھانے پینے کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور اس کا انتظام کرنے کا مطالبہ غیردستوری نہیں ہے۔کیا جرمنی اپنے یہودی شہریوں سے کہہ سکتا ہے کہ وہ کوشر غذا کا مطالبہ نہ کریں۔ تاہم مجموعی طور پر اس دستاویز کو اس بنا پر بھی سراہا جاسکتا ہے کہ پہلی مرتبہ کسی مغربی ملک نے شدت پسندی، انتہا پسندی اور اس میں مسلمانوں کے لیے ممکنہ روک کو سمجھنے کے لئے تحقیق و تجزیہ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس ضمن میں جرمنی حکومت اس موضوع پر برطانیہ حکومت کے مختلف پروگراموں جیسے کہ Contest Strategy Prevent Programmeاور’ امام بطور چیپلن‘ جیسے پروگراموں سے بھی سبق حاصل کرسکتی ہے جو کہ کافی کامیاب رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اگر وہ زمینی سطح پر سرگرم مسلم رہنماؤں سے گفت و شنید کا ذریعہ استعمال کرتی ہے تو اس سے بھی اس حکمت عملی کو کامیاب بنانے میںکافی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ خاص طور سے ان رہنماؤں سے جن کا تعلق دیوبند سے ہے۔ کیونکہ جرمنی میں پناہ گزینوں کی اکثریت دیوبندی خیالات کے حامی ہیں اور ان پروگراموں میں دیوبندی رہنماؤں کو شامل کرکے اسے اور بہتر اور کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔

6 جون 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/germany-islamophobia/d/124943

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..