مبارک حیدر
افغان، عراق مسئلے کی ترجیح
سماجی اور سیاسی اجتماعات حتیٰ کہ عزیزو اقارب کی محفلوں میں گرم ترین بحثوں کا موضوع یہ دو مسائل ہیں، یعنی افغانستان اور عراق پر امریکی ایکشن۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ ان دو مسلم قوموں کے معاملات میں ہماری دلچسپی اور کمٹمنٹ اس قدر گہری کیوں ہے؟ کیا اِن دو مسلم معاشروں کے علاوہ کوئی اور مسلم معاشرہ بھی ہماری دیوانہ وار لگن کا مستحق رہا ہے؟ فلسطین میں پچاس برس سے جو کچھ ہو رہا ہے اور لبنان میں جو کچھ ہوا ہے، پاکستان کے دینی حلقے اس سے بخوبی آگاہ رہے ہیں اور عوام بھی۔ عراق پر 1990ء میں امریکی ہوائی حملوں نے ایسی ہی تباہی مچائی تھی جیسی حال میں ہوئی ہے۔ اکتوبر 2007ء کے آواخر میں کشمیری رہنما علی گیلانی کے شکووں بھرے خط کی خبریں پاکستانی اخباروں نے بڑی بے رُخی سے چھاپیں اور ہمارے چینلز نے تو اس کا ذکر بھی نہیں کیا جس میں بیمار کشمیری لیڈر نے پاکستانی بھائیوں کی کشمیر سے لاتعلقی کا گلہ کیا تھا۔ یہ حقیقت سب کے علم میں ہے کہ اب بھارت کو ہمارے اسلامی جذبوں کا پہلے کی طرح سامنا نہیں۔ کشمیر بھی وہی ہے اور ہم بھی وہی، بھارت میں مسلمانوں کا جینا مرنا بھی ویسا ہی ہے جیسا تھا، لیکن اب کشمیر، گجرات یا دوسرے بھارتی علاقوں کے مسلمانوں میں ہماری دلچسپی برائے نام ہے۔ کیا اس تبدیلی کا تعلق کسی پاک بھارت معاہدہ سے ہے؟ یعنی کوئی ایسی خاموش مفاہمت قائم ہو گئی ہے جس نے جہاد کا رُخ بھارت سے پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے؟ کیا ایسی مفاہمت حکومتوں کے درمیان قائم ہوئی ہے یا جہادی تنظیمیں اپنے فیصلے خود کرتی ہیں؟ کیا حکومتِ پاکستان اپنے ہی سماجی اور انتظامی ڈھانچے کو ادھیڑنے کا فیصلہ کر سکتی ہے؟ یعنی پاکستان کے اندر پاکستان کی آبادی کے خلاف جہادی تنظیموں کے موجودہ ایکشن کیا حکومت کی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتے ہیں ایسی کوئی وجہ قابلِ فہم نہیں جس میں حکومتِ پاکستان کو ایسے فیصلوں تک پہنچا دیا ہو، نہ کسی ادارہ کی حکمتِ عملی اس رستے پر جا سکتی ہے جہاں تک کسی حساس ادارہ کے کسی طاقتور سربراہ یا گروہ کا تعلق ہے، اس کی ایسی کوئی سرگرمی دوسرے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے چند لمحوں تک ہی خفیہ رہ سکتی ہے۔ پھر بھارت کو معاف کر کے پاکستان کو اسلامی عتاب کا نشانہ بنانے کے محرکات کیا ہو سکتے ہیں، اس کا جائزہ بعد میں لیں گے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ اسلامی جذبوں کی اس بڑھتی ہوئی لہر کا سبب صرف یہ نہیں، یعنی یہ سبب تو ہے لیکن صرف یہ نہیں کہ کسی غیر مسلم، لادین یا اسلام دشمن قوت نے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا ہے اور ہم اس ظلم کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔
اگر یہ اندازہ لگایا جائے کہ شاید افغان اور عراقی مسلمانوں کا دینی مقام زیادہ بلند ہے ، اس لئے ان کے لئے پاکستانی عوام کی عقیدت کے تقاضے الگ ہیں تو مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ اِن عوام کی کوتاہیوں کے چرچے بھی اتنے ہی عام ہیں جتنے فلسطینیوں کے یا کشمیری مسلمانوں کے، یعنی افغان اور عراقی مسلمانوں کی فضیلت اس جذبۂ جہاد کی بنیاد نہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ افغان چونکہ ہمارے قبائلی علاقوں اور کسی حد تک صوبہ سرحد کے عوام سے روایت اور خون کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں تو بھی صورتِ حال پوری طرح واضح نہیں ہوتی، کیونکہ افغان عوام کے ساتھ پنجاب ، بلوچ اور سندھی مڈل کلاس کے خونی رشتوں کا کوئی ثبوت ڈھونڈنا مشکل ہو گا، جبکہ مذہبی بنیادوں پر امریکہ سے نفرت کی شدت اِن صوبوں کی مڈل کلاس میں اتنی ہی شدید ہے جتنی صوبہ سرحد میں۔ خود فاٹا اور سرحد کے علاقوں میں بسنے والوں کے جذباتی و فکری رشتے افغان قوم کے ساتھ ساٹھ برس میں کبھی مکمل ہم آہنگی کے نہیں رہے۔ افغان جنگ میں ضیاء حکومت کی حکمتِ عملی پر یعنی افغان مہاجرین کے سرحد میں آباد ہونے پر سرحدی عوام کو اعتراضات تھے، اور شاید اب تک ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے تک افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ سرحد کے عوام میں مقبول رہا۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں شمالی اتحاد کی قوت برسراقتدار رہی، جس کا جھکاؤ امریکہ اور پاکستان کی بجائے بھارت، ایران اور روس کی طرف تھا۔ طالبان کی حکومت آنے سے ہمارے حکمران طبقوں نے افغانستان کے لئے زیادہ خیرسگالی محسوس کی۔ روس کے خلاف افغان جنگ کے بعد دو بنیادی قوتیں قائدانہ حیثیت حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھیں۔ اوّل: شمالی اتحاد جو افغانستان کے روایتی حکمران طبقوں کا وسیع تر محاذ تھا جس میں برہان الدین ربانی کی قیادت میں کمانڈر احمد شاہ مسعود اور عبدالرشید دوستم وغیرہ جیسے تاجک اور ازبک قومیتوں کے سنی افغان سرگرم تھے۔ جنہوں نے گُلبدین حکمت یار سے بھی اتحاد بنایا لیکن اس اتحاد کی شناخت کا اہم پہلو یہ تھا کہ یہ غیر پشتون تھے اور انہیں روس، ایران اور بھارت کی حمایت حاصل تھی۔ اِن میں قوم پرست بھی تھے، شاہ پرست بھی اور مذہبی اصولِ سیاست کے حامی عناصر بھی تھے۔ لیکن پہلی طرز کے مزاحمتی محاذ کو امریکہ اور پاکستان کی بالادست حیثیت قبول نہ تھی اور امریکہ اور پاکستان کو اِن کی سیاسی فکر برداشت کرنا مشکل تھا۔ یہ عنصر افغانستان کو اپنی سرحدوں تک محدود رکھنے پر زیادہ یقین رکھتا تھا، یعنی وسط ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے لئے کوئی رول ادا کرنے یا کسی عالمی تحریک کے لئے سرگرم ہونے پرآمادہ نہ تھا۔ اِس اعتباد سے اس محاذ کو روس نواز بھارت نواز بھی سمجھا جاتا تھا۔
دوسری قوت افغان جنگ میں بیرون ملک سے آنے والے انقلابیوں کی تھی جن میں عرب اور افریقی مجاہدین کے علاوہ کئی ممالک کے مسلم جوان تھے اور پاکستان کے مدرسوں سے حصولِ علم کرنے والے نوجوان تھے جو طالبان کے طور پر مشہور ہوئے جس سے مراد طالبانِ علم بھی لیا جا سکتا ہے اور طالبانِ اسلام بھی۔ یہ پشتون عرب انقلابی لوگ تھے جن کا مقصد افغانستان کو روس کے قبضہ سے آزاد کرانا ہی نہیں بلکہ اس کے کہیں بڑے مقاصد اُن کے سامنے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اِن کے پیشِ نظر سب سے اہم مقصد ایسے اسلامی نظام کا قیام تھا جو ایک تو قرونِ اولیٰ کے یعنی خلافتِ راشدہ کے اسلامی معاشرہ سے مشابہت رکھتا ہو اور دوسرے عالمی سطح پر اسلام کو غالب قوت بنانے کے لئے مسلسل جہاد کر سکے۔ چونکہ اس محاذ میں عالمی اسلامی برادری کے ہر ملک سے لوگ شامل تھے یعنی اس کی بنیادی ساخت ہی کسی ایک قوم تک محدود نہ تھی، لہٰذا اس کے مقاصد فطری طور پر عالمی یا بین الاقوامی بنتے چلے گئے۔ جبکہ اسلام کا بنیادی تصورِ اُمت بھی جدید قومی ریاستوں کی حمایت نہیں کرتا (یا یوں کہہ لیں کہ جدید قومی ریاستوں کا تصور اسلام کے بعد کا تصور ہے) یعنی اسلام میں فرد کی شناخت کے دو بنیادی حوالے ہیں: اوّل قبیلے کی رکنیت اور دوسرے اسلامی اُمت کی رکنیت۔ یوں کسی ایک علاقہ پر مبنی قوم کا تصور مسلمان کی شناخت نہیں۔ لہٰذا اس جہادی قوت کا واضح ترین مقصد یہ طے ہوا کہ ایک اسلامی، قبائلی اور بین الاقوامی معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
پاکستان کی مقتدرہ یعنی فوجی اور سول افسران، زمین اور سرمایہ کے مالک طبقے، رازداری سے کام کرنے والے اداروں کے قائدین، کو یقین تھا کہ یہ قوت جو بعد میں القاعدہ مشہور ہوئی یعنی عرب شیوخ کی قیادت میں طالبان کی قوت، پاکستان کی مقتدرہ کو اس خطہ میں سب سے بڑی طاقت بنا دے گی۔ پاکستانی مقتدرہ کے بعض حلقوں کا یہ یقین اب بھی قائم ہے، جس کے نتیجے میں موجودہ افغان حکومت کی جگہ دوبارہ طالبان کی حکومت کا اقتدار میں آنا اُن کی نظر میں بہتر ہے۔ حال ہی میں عوامی نمائندگی کے ذریعے پاکستانی حکومت میں جو تبدیلیاں آئی ہیں جس کے نتیجے میں آمر کا دورِ حکومت ختم ہوا ہے۔ اس توقع کا باعث بن رہی ہیں کہ شاید پاکستانی مقتدرہ کے اِن نظریات میں تبدیلی آ سکے گی۔
یہ بات اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ طالبان کے سامنے پاکستان کی مقتدرہ کو بڑی طاقت بنانے سے کہیں زیادہ اہم نصب العین موجود ہیں۔ اِن کے لئے شاید پاکستان کے یہ علاقے اس اعتبار سے اہم ہیں کہ یہ گوریلا جنگ کے موجودہ مرحلے میں بے حد موزوں ہیں اور فکری اور تہذیبی لحاظ سے اسلامی انقلاب کے ہراول دستے کے طور پر پاکستان ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے، جس کے خوشحال طبقے اسلام کی سربلندی کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں اور جس کے پاس ایک سچی مسلمان فوج کے ساتھ ساتھ کافروں کا ایجاد کردہ ایٹمی اسلحہ بھی ہے، جو کہ امریکی کوڈ کے تحت محفوظ ہو چکا ہے لیکن ابھی ڈاکٹر قدیر خان کا اسلامی ایمان قائم ہے۔ لہٰذا افواجِ پاکستان اور پاکستان کی عسکری، جوہری طاقت اسلام کی عالمی پیش قدمی میں بے حد معاون ہو سکتی ہیں۔
اس تحریک کے سربراہ چونکہ عرب ہیں، لہٰذا عالمی سطح پر تحریک کا فوری مرحلہ عربوں کی آزادی اور قوت کی بحالی ہے، لیکن یہ تحریک عرب قوموں کی الگ الگ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی، بلکہ اُمتِ اسلامی کی حیثیت سے عرب قبائل کی بحالی کے لئے سرگرم ہے، تاکہ اہلِ عرب ایک بار پھر دنیا بھر کے مسلمانوں کے سربراہ کا کردار ادا کر سکیں اور عربوں کے وسائل پر تسلط بھی عربوں کا ہی رہے۔ ظاہر ہے اتنے مالی وسائل کے ساتھ ، جو عربوں کو حاصل ہیں، اگر ایک ارب سے زیادہ مسلم عوام کا جذبۂ شہادت بھی شامل ہو جائے تو ساری دنیا کو فتح کرکے اسلامی حکومت کے ماتحت لانا ممکن ہو جائے گا۔ اِس حکومت کا مرکز ظاہر ہے کہ حرمین شریفین کے قریب ہی ہو سکتا ہے اور اس مرکز کی قیادت یقیناً عرب ہی ہو گی۔ جب رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع والے خطبہ میں فرمایا کہ نسل و رنگ اور وطن کے امتیاز مٹا دئیے گئے ہیں تو توقع کی جا سکتی تھی آپؐ کے اعلان کی لاج رکھنے کے لئے ہی سہی، لیکن عرب کسی غیر عرب مسلمان کی سربراہی قائم کر کے مثال قائم کر دیں گے کہ ان میں انسانوں کے درمیان جاہلیت کے سب امتیاز ختم ہو گئے ہیں۔ جیسے بھارت اپنے آئین کی عزت قائم رکھنے کے لئے کسی مسلمان کو صدر بنا دیتا ہے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے جس کے آئین میں سربراہ کا کوئی مذہب مقرر نہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات میں اوباما کی کامیابی اس امر کا ثبوت ہے کہ قومیں اگر اپنے آئین کی وفادار ہوں تو اس پر عمل بھی کرتی ہیں، چاہے فوری ہو یا بتدریج۔ لیکن عربوں نے اس شاندار خطبہ کی آج تک عملی پیروی نہیں کی۔ لہٰذا عربوں کی سرزمین پر غیر عرب حکمران کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ عربوں نے خصوصاً سعودی عرب نے اپنے قوانین میں کسی غیر عرب کو شہری حقوق دینے کی گنجائش نہیں رکھی۔ اس کے برعکس پاکستان اور بھارت کے مسلمان بخوشی عربوں کو اپنا حکمران تسلیم کر لیں گے۔ یہ تاریخی اور دینی حقائق ہیں جن سے مسلم عوام کو اختلاف نہیں۔ صدیوں سے دنیا بھر کے مسلمان سرزمینِ عرب کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سُرمہ مانتے آئے ہیں جس کے سامنے اُن کے اپنے ملکوں اور علاقوں کی کوئی ہستی حیثیت نہیں۔ عقیدت کے ان جذبوں کو مزید تقویت دینے کے لئے موجودہ سعودی خاندان میں پچھلے پچاس ساٹھ سال سے ایک شاندار حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام سے اور بھی قریب لانے کے لئے اسلامی مدرسوں اور اسلامی تحریکوں کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ جہاں کہیں مسلمان موجود ہیں، وہاں سعودی مالی امداد پہنچتی ہے، یعنی علمائے کرام،ائمہ مساجد اور مدارس کی انتظامہ کو باقاعدگی سے مالی مدد حاصل ہوتی ہے۔ یہ انتظام اتنا مستعد ہے کہ وسط ایشیا کی مسلم آبادی والی ریاستیں جونہی روس سے الگ ہوئیں تو مسلمانوں کو مسجدیں اور مدارس آباد کرنے کے لئے فوراً مدد دی گئی۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بے شمار لوگ بے روزگار ہو گئے تھے۔ ایسے بے روزگار نوجوانوں کی خدمات حاصل کی گئیں جو اگرچہ اسلام سے واقف نہ تھے لیکن اسلام کی خدمت کے لئے تیار تھے۔ اسلام پھیلانے اور لوگوں کو حج کی ترغیب دینے کے لئے یہ طریقہ کار نہایت کامیاب رہا اور حاجیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یورپ ، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مسلم تارکین وطن کے لئے عرب امام مہیا کیے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں سرزمینِ حجاز کی روح پرور کشش میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ حج اور عمرہ کے لئے آنے والوں کی تعداد نصف کروڑ سالانہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔
بعض مغربی تجزیہ نگار اِس عظیم روحانی لہر کے مادی پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ عربوں کے لئے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے لہٰذا جب سعودی عرب کا تیل ختم ہو جائے گا تب بھی صرف حج اور عمرہ سے ہونے والی آمدنی اس خطے کو دنیا کا خوشحال ترین خطہ بنائے رکھے گی۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ اس مادی فائدے سے کہیں بڑا مقصد جو خاندانٍِ سعود اور دوسرے ذہین عرب قائدین کے پیش نظر ہے، وہ ہے دنیا بھر کے مسلمانوں میں سرزمینِ عرب سے ایسی وابستگی اور عقیدت پیدا کرنا جس کے سامنے ملک، وطنیت اور جمہوریت وغیرہ کے جدید تصورات بے حقیقت ہو جائیں۔ خاکِ حجاز کے لئے جینا مرنا مسلم ذہن کا خواب بن جائے۔ جدید دنیا کے تصورات کو باطل تصورات ماننا مسلمان کا فخر ہو اور جب آواز پڑے تو دنیا بھر کے مسلمان اپنے عرب سربراہوں کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی اولاد کی جان تک قربان کر سکیں۔ کیونکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ سعودی عرب کی وہ تمام دولت جو تیل کے موجودہ ذخائر کو بیچنے سے مل رہی ہے اور دنیا بھر کے بینکوں میں اس لئے جمع ہے کیونکہ وہاں سود یا منافع کی شرح بھی اچھی ہے اور سرمایہ محفوظ بھی ہے، یہ دولت دوسرے عربوں اور دنیا کی قوموں کو لالچ میں مبتلا کر سکتی ہے۔ چنانچہ اس کی حفاظت کے لئے انتظامات ضروری ہیں۔ اضافی فائدہ یہ ہے کہ مسلم اُمہ کی اس جانثاری کا رعب امریکی حکومت پر بھی رہتا ہے جو سعودی عرب کی فوجی محافظ ہونے کے ناطے اُس کے وسائل پر قابض ہونے کا سوچ سکتی ہے۔
نفاذِ شریعت کی یہ طاقتور تحریک فاٹا اور شمالی علاقوں سے نکل کر صوبہ سرحد کے کئی اضلاع میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ مملکت کی فوجی کارروائیوں کے باوجود اس کے قدموں کی چاپ اب پنجاب میں سنائی دینے لگی ہے۔ سرحدی صوبہ اور بلوچستان کے عوام کو اس تحریک سے نہ پہلے کوئی شکایت تھی نہ اب ہے۔ جہاں جہاں اسلامی لہر پہنچ رہی ہے، مردوں کی شیو بنانے والی دکانیں، ویڈیو فلموں کا کاروبار اور لڑکیوں کے سکول بند کئے جا رہے ہیں۔ اس بندش کے خلاف عوام کا کوئی بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاید عوام اِن اقدامات کو درست سمجھتے ہیں۔
URL for Part 8:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-8-/d/87421URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-9-/d/87539