New Age Islam
Wed May 31 2023, 06:54 AM

Urdu Section ( 5 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Cultural Narcissism- Part 7 (تہذیبی نرگسیت حصہ (7

 

مبارک حیدر

مذہبی قیادت کا اضطراب

یہ اور ایسے کئی دوسرے سوال اس معاشرے پر چھائے ہوئے اضطراب اور بے سمتی میں اٹل اہمیت کے حامل ہیں۔ دین سے عقیدت ہماری سوسائٹی اور مسلح افواج کی نفسیات میں گُندھی ہوئی ہے، جس پر اعتراض کرنے کا یا اختلافی نظریات پیش کرنے کا کوئی قابلِ ذکر واقع ہماری قومی سطح پر رونما نہیں ہوا اور اگر ہوا تو اسے سختی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ اگر کسی دوسرے ملک میں بھی اسلام سے متعلق کوئی مخالفانہ رویہ سامنے آیا تو ہمارے ہاں شدت سے احتجاج کیا گیا۔ زندگی اور کائنات کے ہر موضوع پر بات اسلام پر ختم ہوتی ہے۔ عالم سے لے کر جاہل تک، سربراہِ مملکت سے لے کر چوکیدار تک، ڈاکو سے لے کر بھکاری تک کسی سے بات کرو، اسلام پر اس کا ایمان اٹل ہے۔ اس کے باوجود ملک کے طول و عرض میں مذہبی قیادت دعوتِ دین اور احیائے دین کے لئے مضطرب ہے اور اس اضطراب میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرہ میں اسلام سے اختلاف کی نہ کوئی لہر ہے نہ اجازت، تو پھر مذہبی قیادت میں اضطراب کا سبب کیا ہے؟

شاید ایک سادہ سا جواب یہ ہے کہ چونکہ معاشرہ اسلامی اقدار پر عملاً گامزن نہیں اور دینی قیادت کو اس معاشرے کی اصلاح مقصود ہے، لہٰذا وہ متفکر اور مضطرب ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یقیناً یہ بہت ہی قابل قدر بے قراری ہے۔ لیکن اصلاح کا مفہوم کیا ہے؟ کیا اصلاح سے مراد معاشرہ کے مسائل کی اصلاح ہے؟ لوگوں کی تکالیف کا ازالہ ہے؟ معاشرہ کے افراد اور طبقات کے مابین انصاف کا قیام ہے یا کچھ اور؟ اگر تکالیف کا ازالہ یا انصاف کا قیام مقصود ہے ، تو یقیناً یہ عظیم نصب العین ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے کے لئے واقعی ایسا ہے یا نہیں، ہمیں اس معاشرہ کے مسائل پر نظر ڈالنا پڑتی ہے، جو الجھے ہیں اور جن کی اصلاح کی جانی ہے۔ مسائل جو انگنت ہیں، ان میں عوامی اور انفرادی سطح کے مسائل میں غربت، مہنگائی، سینہ زوری، بدانصافی، بددیانتی، ملاوٹ، دھوکہ دہی، قانون سے نفرت، جہالت، بدنظمی اور آوارگی جیسے لاتعداد مسائل ہیں۔ قومی اور اجتماعی سطح کے مسائل میں اداروں کا زوال، آمریت، رشوت، قومی مفادات کی بربادی، معیشت کی بے سمتی، خارجہ پالیسی کا فقدان، دفاعی کمزوریاں، امن و امان کی ابتری، وفاق کا انحطاط اور ریاست کی بالادستی کو درپیش خطرات، جس کے نتیجے میں طوائف الملوکی اور عدم تحفظ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب اور کئی ایسے مسائل قوم کو درپیش ہیں۔

ملک میں مذہبی قیادت کے تین بڑے دھارے موجود ہیں۔(1) تبلیغی مذہبی قیادت (2) سیاسی مذہبی قیادت (3) جہادی مذہبی قیادت۔

تبلیغی مذہبی قیادت ان میں سے کسی مسئلے پر زیادہ تفصیل سے اظہارِ خیال نہیں کرتی۔ تبلیغی اجتماعات میں مسائل کا ذکر ایک اجمالی انداز سے اس طرح آتا ہے کہ معاشرہ کی حالت اچھی نہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اللہ ہمارے عوام کی تکلیفیں دور کرے اور مسلمانوں کو دنیا میں سرفراز فرمائے۔ تاہم عملی طور پر صرف ایک مسئلے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے لئے جیش اور لشکر تشکیل دیئے جاتے ہیں: یعنی تبلیغِ دین اور دینی عقائد کی اصلاح۔ اس کام کے لئے ملک بھر میں اور ساری دنیا میں سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے ان جماعتوں کے مخلص پیروکار سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سے چھٹیاں لے کر، اپنے کام کاج، خاندانی مسائل سے بے نیاز ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لانے کے لئے نکلتے ہیں۔ کئی لوگوں نے جن میں غیر ملکی سفارتخانے شامل ہیں یہ سوال پوچھا اور دہرایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں جانے سے پہلے آپ اپنے ملک کے عوام کا کردار اور اخلاق کیوں نہیں سنوارتے؟ اور جب تک یہ سنور نہ جائے، کیا آپ کا بیرونِ ملک جانا جائز ہے؟ تاہم اس تحریک کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر یہ کام بیک وقت ہونا چاہیے۔ بہرحال اس تحریک کی اس کاوش سے پاکستانی معاشرہ کے مسائل کا حل نکالنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ پیشِ نظر صرف اسلام کی تبلیغ ہوتی ہے، جسے معاشرہ پہلے ہی اپنا دین مانتا ہے۔

سیاسی مذہبی قیادت معاشرہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے سرگرم ہے۔ ہمارے یہ محترم رہنما مسائل کا ایک ہی حل بیان کرتے ہیں، یعنی اسلام کی حکومت، یعنی اُن کی حکومت۔ یہ واضح نہیں کہ کون سے عوامی یا قومی مسئلے کا کیا حل تجویز کیا گیا ہے، بجز اس کے کہ ایک اسلامی معاشرہ قائم ہو گا تو وہ چونکہ اسلامی ہو گا لہٰذا اس میں مسائل نہیں ہوں گے یعنی خود ہی حل ہو جائیں گے۔ مولانا مودودی جیسے کچھ علماء نے موجودہ معاشی، عوامی اور قانونی مسائل کا کسی قدر تفصیل سے حل پیش کیا، مثلاً عوامی مسائل میں سے طبقاتی بنیادوں پر پیدا ہونے والے کئی مسائل ہیں، مثلاً آجر اور اجیر کے درمیان، مالکِ اراضی اور مزارع کے درمیان، بڑے تاجر اور صارف عوام کے درمیان، دولت مند اور محکمہ انکم ٹیکس کے درمیان قائم رشتوں سے پیدا ہونے والے مسائل۔ اِن کا حل مولانا محترم کی تحریروں اور بعد میں جماعتِ اسلامی کے انتخابی منشورات میں یہی بیان کیا گیا کہ چونکہ معاشرہ صالح اور اسلامی ہو گا، لہٰذا سب کے درمیان خود ہی انصاف اور حسنِ سلوک رائج ہو جائے گا، معاشرہ چونکہ نیک ہو جائے گا لہٰذا بدی نہیں رہے گی۔ جماعت سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یہ معاشرہ اسلام کا دم بھرتا ہے، آپ اس ملک میں اسلام کے علاوہ کسی طرزِ فکر کا نام بھی نہیں لینے دیتے ، ہر حکومت اور ہر ادارہ آپ کی مداخلت اور جارحانہ تنقید کے آگے بے بس ہے جو آپ اسلام کے نام پر کرتے ہیں، آپ اس ملک اور اس قوم پر یہاں تک دعویٰ رکھتے ہیں کہ قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور آمروں کی حکومتیں بھی کسی مسئلے پر اسلامی حوالوں کو چھوڑ کر صرف علمی و عقلی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکیں۔ اور اگر انہوں نے کسی فیصلے میں خالص بنیادی اصولوں پر کوئی فیصلہ کیا تو آپ نے اسلام کے تحفظ کے نام پر اُن کے خلاف کامیاب مہم چلائی، آپ نے ملک کے نام اور تشخص اور اس کے مقصدِ اعلیٰ کی بنیاد اسلام پر رکھوائی اور آج تک ہر علمی و عقلی طرزِ فکر کو آپ نے یہ کہہ کر منتشر کر دیا کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، جو اسلام اور لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر لیا گیا تھا، لہٰذا سوائے اسلامی نظریات کے کوئی نظریہ یہاں نہیں چلے گا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلم عوام کے اس ملک میں آپ مسلمانوں کے آپس کے مسائل حل نہیں کروا سکتے، نہ ہی آپ ایسی کوئی تحریک چلاتے ہیں جیسی آپ ختم نبوت، توہین رسالت ، حدود اور فحاشی کے معاملات پر چلاتے ہیں، تب آپ کی جارحانہ شدت حکومتوں کو بے بس کر دیتی ہے۔ لیکن غریب عوام کی محرومیوں، صاحبِ ثروت طبقات کی چیرہ دستیوں، آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کے پیچھے چھپی ہوئی ذخیرہ اندوزیوں، ٹیکس چوریوں ، ذاتی محلات سے لے کر مسجدوں تک کے لئے کئے گئے ناجائز قبضوں پر آپ ذمہ دار افراد کے خلاف صرف افسوس کا اظہار کر کے ذمہ داری حکومتِ وقت پر ڈال دیتے ہیں۔ جب یہ سوال یا ایسے سوال کئے جاتے ہیں تو ہمیشہ جواب یہ ملتا ہے کہ یہ معاشرہ صرف نام کا مسلم معاشرہ ہے، پہلے اس کی دینی اصلاح ہو جانے دو اور ہمیں اقتدار میں آ جانے دو پھر دیکھنا کیسے صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ مختصر یہ کہ غالباً اضطراب یہاں بھی مسائل کو حل کرنے کے لئے نہیں۔

تیسری جہادی مذہبی قیادت کی تحریک ہے۔ یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کی حفاظت اور بالآخر اسلام کے غلبہ کی خاطر ہے، اور عوامی یا قومی مسائل جن کا اوپر ذکر کیا گیا، اس تحریک کے لئے کسی فوری اہمیت کے حامل نہیں، سوائے اس کے کہ ان مسائل سے موجودہ نظام کی خرابی اور آنے والے اسلامی نظام کی فوقیت ثابت کی جائے۔2006ء کے زلزلہ زدگان کی خدمت کے لئے بعض جہادی عناصر اور سیاسی دینی جماعتوں کی سرگرمیاں قابلِ تحسین تھیں، لیکن عوام کے عمومی اور مستقل معاملات میں ایسی سرگرمیاں باالعموم مفقود رہی ہیں۔ اور ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی چیرہ دست ظالم کو، کسی ذخیرہ اندوز کو یا ہیبت ناک مالیاتی سکینڈل کے ذریعے راتوں رات ارب پتی بن جانے والے کسی شخص یا گروہ کو اِن جہادی تنظیموں نے نشانہ بنایا ہو، یا اجتماعی بدکاری کے مرتکب امیرزادوں کو دھمکی آمیز خط لکھے گئے ہوں یا انہیں اغوا کیا گیا ہو۔ قبائلی علاقہ جات میں اور افغانستان کے ان حصوں میں جہاں طالبان مجاہدین کا ایک مدت سے غلبہ ہے عوام کی معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی اصلاح کا کوئی قابلِ ذکر حال دنیا کی نظروں میں نہیں آیا۔ غرضیکہ جہادی مذہبی قائدین بھی مسلم عوام کے مسائل فوری طور پر حل کرنے سے معذرت کرتے ہیں اور اُن کا پیغام یہ ہے کہ پہلے مسلم عوام جہادی تنظیموں کے پرچم تلے جمع ہو کر ملک اور دنیا میں اسلام کی جنگ لڑیں۔ جب اسلام کا غلبہ مکمل ہو جائے گا اور اسلامی خلافت قائم ہو جائے گی تو تب عوام کے مسائل بھی خود ہی حل ہو جائیں گے۔ اس کے لئے کسی منشور کی یا عملی مثال کی ضرورت نہیں کیونکہ منشور اور عملی مثال تو چودہ سو سال پہلے آ چکے۔ عقیدت و احترام کا وہ ماحول جس میں ہر مسلمان کی پرورش ہوئی ہے، اسے سوال پوچھنے سے روکتا ہے۔ اور اس طرح قیادت کو کبھی اس مشکل صورتِ حال کا سامنا نہیں ہوتا جس کا سامنا جدید جمہوری معاشروں کی قیادت کو آئے دن رہتا ہے۔

URL for Part 6: https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-6-/d/87336

URL for this part: https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-7-/d/87370


Loading..

Loading..