مبارک حیدر
احساسِ مظلومیت
نرگسیت کی ایک اور علامت سازش کا خوف اور احساس مظلومیت ہے۔ مریض کو لگتا ہے کہ لوگ اس کی عظمت سے خائف اور حسد کی حالت میں ہیں۔ چنانچہ اسے نقصان پہنچانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ لہٰذا وہ پوری طاقت اور استعداد سے ارد گرد کی دنیا کو اپنے ماتحت یا اپنے سے کم تر حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔ جب لوگ اس کے اس جبر یا دباؤ سے نکلنے کی کوشش کریں تو وہ شدت کا رستہ اختیار کرتا ہے، ہر ظلم کو جائز سمجھتا ہے۔ لیکن جب شکست ہو جائے تو شدید احساس مظلومیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تنظیموں میں اعلیٰ مرتبہ پر فائز لوگ اگر نرگسیت کا شکار ہوں تو تنظیموں کے دوسرے کارکن شدید دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور اس طرح بغاوتیں اور رسہ کشی معمول بن جاتا ہے۔ اگر ماتحت حالتوں میں ہوں تو خود رحمی اور خول بندی کا شکار نظر آتے ہیں اور اس جدوجہد میں لگے رہتے ہیں کہ تنظیم کا نظام درہم برہم ہو جائے، یا کم از کم تنظیم کی ترقی اور بہتری کے عمل سے لاتعلق ہو کر بدنظمی کا باعث بنتے ہیں۔ تہذیبی نرگسیت کا معاملہ بھی بہت حد تک ایسا ہی ہے۔ ہماری تہذیبی نرگسیت کا اظہار ہمارے تارکینِ وطن کے رویوں سے ہوتا ہے، یا ہمارے عوام کی قانون سے نفرت یا لاتعلقی اور اس کے نتیجے میں بدنظمی بازاروں سے لے کر سڑکوں کی ٹریفک تک دیکھی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف ہمارے سیاسی رہنماؤں ، دینی علماء اور دانشوروں کے علاوہ سرکاری افسروں میں قول و فعل کا تضاد اور خودغرضی، خود پسندی اور بے اصولی اسی تہذبی نرگسیت کا وہ انداز ہے جو حاکم اور فائز لوگوں کی نفسیات میں دکھائی دیتا ہے۔ مولانا مودودی مرحوم کے بعد ڈاکٹر صاحب موصوف چونکہ اس نفسیات کی نمائندہ شخصیت ہیں اس لئے اُن کا ایک اور اقتباس دیکھتے ہیں۔
اقتباس 5۔ ’’ قائد اعظم نے فرمایا:’ اگر ہم پاکستان کے حصول کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے تو ہندوستان سے مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا‘۔۔۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی بلکہ یوں سمجھئے کہ اس طرح ہسپانیہ کی تاریخ دہرائی جاتی۔ وہاں بھی مسلمانوں نے آٹھ سو برس حکومت کی تھی۔ لیکن پھر وہ وقت آیا کہ پندرھویں صدی کے آخر اور سولہویں صدی کے شروع وہاں مسلمانوں کا ایک بچہ تک باقی نہ رہا۔ سارے کے سارے مسلمان یا تو قتل کر دئیے گئے یا زندہ جلا دئیے گئے یا انہیں جہازوں میں بھر بھر کر افریقہ کے شمالی ساحل پر پھینک دیا گیا۔ وہاں غرناطہ کے محل اور مسجدِ قرطبہ اب بھی قابل دید ہے ، جو مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی تہذیب کا مرثیہ کہتے ہیں۔‘‘
’’ وہی معاملہ ہندوستان میں بھی ہو سکتا تھا۔ یہ قائد اعظم کے الفاظ ہیں جن کی میں تائید کرتا ہوں۔ اس لئے کہ اس وقت ہندو جارحیت اور تشدد پرستی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور ہندو کے جذبات انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ اور اس کے بعد یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔۔۔
’’ ہندوستان میں مسلمانوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر ہندوستان ’ ایک فرد ایک ووٹ‘ کے اصول پر آزاد ہو گیا تو ہندو انہیں مٹا دے گا اور ختم کر دے گا۔۔۔
’’ تو اللہ نے تمہیں جائے پناہ مہیا کر دی اور اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں پاکیزہ رزق پہنچایا تاکہ تم شکر کرو‘ ‘۔
جب ہم خود بھی تہذیبی نرگسیت کا شکار ہوں تو اس طرح کے بیانات ہمیں سچائی کے عین مطابق سنائی دیتے ہیں۔ بلکہ ہمارے نرگسی جذبات کو تسکین دیتے ہیں۔ لیکن اگر انسانوں کو برابر تسلیم کر لیا جائے تو معاملہ یکسر بدل جاتا ہے۔ مندرجہ بالا بیان میں مسلمانوں کی ہسپانیہ میں مظلومیت اور ہندوستان میں ممکنہ مظلومیت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ جیسے مسلمان ہونا اس بات کے لئے کافی ہے کہ ہم لوگوں پر مسلط رہیں۔ لہٰذا ہم یہ سوال ہی نہیں پوچھتے کہ آخر اتنی طویل مدتوں تک ہسپانیہ یا ہندوستان میں رہنے کے باوجود ہم اِن ملکوں کے لوگوں سے الگ ایک مخلوق کیسے رہ گئے یا وہاں کے لوگ ہم سے الگ مخلوق کیسے رہ گئے۔ اور ایسا کیوں ہوا کہ نہ تو مسلمان ان سرزمینوں کے لوگوں کو پسند آئے نہ یہ لوگ مسلمانوں کو عزیز ہوئے۔ اگر حکمران اپنی رعایا کو عزیز رکھے تو رعایا حکمران سے نفرت پر قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر رعایا حکمران سے نفرت کرتی رہے اور حکمران اس نفرت کو ختم کرنے میں ناکام ہوتا رہے تو حکمران کو رعایا کے کندھوں سے اتر کر تالیف قلب کی کوشش کرنی چاہیے، یا رعایا کے وطن سے نکل جانا چاہیے، جیسے جدید دور کے مغربی حکمرانوں نے کیا۔ انگریز دو سو برس حکومت کر کے گئے تو ان کا قتل عام نہیں ہوا۔ جو انگریز یہاں آباد ہوئے ابھی تک لوگوں کے درمیان پرامن طور پر زندہ ہیں۔ ہمارے ہاں نہیں کیونکہ یہاں تو ہمارے اپنے غریب عیسائی لوگ جنھیں ہم نے نفرت اور تحقیر کا نشانہ بنایا اور عیسائی ہوئے تو ہم انہیں عیسائیوں کی حیثیت سے برداشت نہیں کر پا رہے۔ حتیٰ کہ اپنے مسلم بھائی اگر فکری اختلاف کریں تو ملحد ، کافر اور گستاخِ رسول قرار دئیے جاتے ہیں۔ لیکن برصغیر ہند، ساؤتھ افریقہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انگریز نے حکومت کی۔ اس کے خلاف تحریکیں چلیں۔ افریقہ کے کتنے ہی ممالک پر فرانس نے حکومت کی اور تحریکوں کے نتیجے میں حکومت چھوڑی۔ اِن حکمران قوموں کے لوگ اپنی رعایا قوموں میں آباد ہوئے اور پرامن طور پر زندہ ہیں۔ مسلمانوں کو ہسپانیہ میں اگر ایسے وحشیانہ رد عمل کا سامنا کرنا پڑا تو اُن کی کوئی کوتاہی تو ہو گی۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے علمی کام کو نفرت سے بچا کر رکھنے والے دانشور بھی ہسپانیہ میں موجود تھے۔ اور مسجد قرطبہ اور غرناطہ کے محل سلامت ہونے کا بھی مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے مسلمان آقاؤں سے بغاوت کی، وہ اچھائی اور تہذیب سے نفرت نہیں کرتے تھے ۔
فوری اور اہم سوال بھارت میں مسلمانوں کا ہے، جو ایک زندہ مسئلہ ہے اور ہماری نفسیات پر ابھی تک شدت سے اثر انداز ہے۔ ایک بات قابل غور یہ ہے کہ بقول ڈاکٹر صاحب ہندوستان میں مسلمانوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ وطن کا ترانہ گائیں اور مسلمان ابھی تک اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا بھارت میں سلامت موجود ہونا اور وہاں کی زندگی میں پورے حقوق کے ساتھ شریک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں ہسپانیہ والی صورت حال نہ تھی۔ جس خوف کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے جو یقیناًمسلمانوں کے مفاد یافتہ رؤوسا اور مڈل کلاس میں تھا، اس کا سبب باہر سے زیادہ ہمارے اندر تھا۔ مسلمان برصغیر میں بھی باقی دنیا کی طرح ایک پسماندہ ہجوم تھے، جسے حکمرانی اور تلوار کا نشہ ایسا تھا کہ ذہن و فکر کام نہیں کرتے تھے۔ مذہبی اقتدار پر قابض دینی طبقہ طاقتور تھا اور مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے کے باوجود ان کی زندگی پر اثرانداز تھا۔ اقتدار کی تمنا اور صلاحیتوں کا فقدان ایسے عوامل ہیں جو انسانی نفسیات پر بہت منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کے بھیانک انجام کی دھمکیاں دراصل ہمارے رؤوسا اور دینی طبقوں کے ذہن کی ایجاد تھیں۔ حقیقت صرف اتنی تھی کہ ہندو نرگسیت کے کچھ مریضوں کی دھمکیوں اور ہمارے اقتدار پسند عناصر کے خدشوں کا حقیقی جواز کم تھا۔ ہاں اگر انگریز کا اقتدار نہ آیا ہوتا اور برصغیر میں ہندؤوں کی کسی کامیاب تحریک کے نتیجہ میں مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوتا تو قتل عام ہسپانیہ جیسا ہو سکتا تھا کیونکہ مسلمان ہمیشہ یہ اعلان کرتے آئے تھے کہ ہندوستان اُن کا وطن نہیں اور ان کی تمام تر وفاداریاں اعلانیہ طور پر سرزمینِ عرب سے تھیں ۔ لہٰذا تصادم اور قتل عام کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ لیکن انگریز کے اقتدار کے کم سے کم سو برس نے صورتحال کی سنگینی ختم کر دی تھی۔ یعنی دو طرح سے نفرت کی شدت کم ہو گئی تھی۔ اول یوں کہ مسلمان حکمران نہ ہونے کی وجہ سے کسی براہ راست نفرت کا نشانہ نہیں رہے تھے اور دوسرے یوں کہ انگریز کے جدید طرزِ حکومت نے دونوں قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک نئے طرزِ حیات سے روشناس کرا دیا تھا۔ اس کے علاوہ علم و ہنر کی جدید تہذیب کے نتیجہ میں اندھے تعصبات کی شدت ویسی نہ رہی گئی تھی جیسی ہسپانیہ میں تھی۔
دوسری بات یہ کہ حکمت اور پارسائی کا دعویٰ اگر تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیا جائے تو لگے گا کہ یہ ترانہ سننے یا گانے سے کسی تہذیب یا دین کا تختہ نہیں الٹ جاتا۔ مسلمانوں کو ہر سرزمین میں اجنبی بن کر رہنے کی جو ترغیب مسلسل دی جاتی رہی ہے، اس کے نتیجہ میں اس طرح مزاحمت اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے جو مسلمانوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا میں مثبت کردار ادا کرنے سے روکتی اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ کیا یہ دعویٰ درست ہے کہ برصغیر کے مسلمان اس سرزمین میں صرف اس لئے زندہ موجود ہیں کہ انہوں نے ایک الگ وطن لے لیا۔ الگ وطن بن گیا اور ہمیں اس کی سا لمیت ، اس کا وقار، اس کی خوشحالی اور طاقت اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں کہ بھارت کے مسلمان پاکستان کی وجہ سے زندہ اور باعزت ہیں۔ اس طرح کے ایٹمی دعوے بھی دراصل اسی نرگسیت کا کرشمہ ہیں جو ہمارا موضوع ہے۔
URL for Part 15:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-15/d/97725
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-16/d/97749