اشتیاق احمد
29 ستمبر 2010
(انگریزی سے ترجمہ مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
زیادہ تر مسلمان یہ یقین کرنا پسند کریں گے کہ ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے انتقال کے بعد 29 سال کا عرصہ سنہرا دور تھا ، جب ریاست کے ذریعہ سخت سزاؤں کا نفاذ ایمان داری کے ساتھ کیا جاتاتھا ۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر ہم کس طرح اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ چار متقی خلفاء میں سے تین کا وحشیانہ قتل کیا گیا تھا ؟
(ڈیلی ٹائمز، 14 ستمبر، 2010) میں میرے مضمون ‘Stoning to death’ کو پاکستان میں قارئین کے ذریعہ حوصلہ بخش رائے حاصل ہوئی، جس نے مجھے خوشی کے ساتھ حیران کر دیا ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لوگوں نے یہ احساس کرنا شروع کر دیا ہے کہ، وہ نام نہاد اسلامی سزا، جو جنرل ضیاء الحق نے، ایک اخلاقی اور معنوی طور پر اعلی سماجی نظام قائم کرنے کے لئے نافذ کیا تھا ، بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔ اس کے برعکس، مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں، خواتین اور اور یہاں تک کہ سیالکوٹ میں دو بھائیوں جیسے عام شہریوں کے خلاف حملے جیسے سنگین جرائم کے واقعات، جنہیں حال ہی میں ایک ہجوم کے ذریعہ مار دیا گیا تھا ، اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ معاشرے کو کافی تیزی کے ساتھ ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
تاہم، جرم کے تریاق کے طور پر، اس سخت اور عبرت ناک سزا کے حق میں کچھ آوازیں بلند کی گئی تھیں ۔ یہ نا قابل سمجھ ہے، نظریات کی تاریخ میں مسلسل موضوعات میں سے ایک، ایسے ریاست یا سماجی نظام، مثالی دنیا کی تلاش ہے ، جو تمام برے لوگوں اور ان جرائم سے پاک جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں ۔ تاہم، ایک زمانے سے ، ایک کامل ریاست یا معاشرے کی تخلیق کی کوششوں کے مجموعی تجربے تقریبا ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔
سعودی عرب ایک انتہائی مناسب مثال ہے۔ سعودی اشرافیہ بھی اعلانیہ طور پر بدعنوان ہیں ، جن کی پیری سعودی مڈل کلاس کے لوگوں کے ذریعہ کی جاتی ہے ، وہ بھی لاکھوں لونڈیوں اور ایشیائی اور افریقی کارکنوں کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں جو ان کے لئے کام کرتے ہیں ۔ ایران دوسرا برا مسئلہ ہے۔ ایرانی ملا اور اخلاقی پولیس آزادی کے ساتھ، اپنے شہریوں کے خلاف، ان کی طاقتوں کا غلط استعمال کرتی ہے ۔ دونوں حکومتوں نے ، اپنے شہریوں کے خون سے ، ان کی گردن مار کر ، سنگسار کر کے ،کوڑے برسا کے ،اور بہت کچھ کر کے ، اپنے ہاتھوں کو داغ دار کر لیا ہے۔ میں طالبان کا ذکر نہیں کروں گا ، کیونکہ ہر بار اسے خاص طور پر قابل ذکر سمجھنا انتہائی بے سرو پا ہوگا ۔
زیادہ تر مسلمان یہ یقین کرنا پسند کریں گے کہ ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے انتقال کے بعد 29 سال کا عرصہ سنہرا دور تھا ، جب ریاست کے ذریعہ سخت سزاؤں کا نفاذ ایمان داری کے ساتھ کیا جاتاتھا ۔ مجھے اس نقطہ نظر کی توثیق کرنے میں تأ مل ہے ۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر ہم کس طرح اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ چار متقی خلفاء میں سے تین کا وحشیانہ قتل کیا گیا تھا ؟ اس سے کم از کم، یہ ثابت ہوتا ہے کہ، اس وقت بھی مثالی لوگ موجود ہی نہیں تھے، جب یہ مثالی حکمران اقتدار میں تھے اور بغیر کسی رعایت کے سخت سزا نافذ کرنے کے لئے تیار تھے ۔ کسی کے قتل اور وہ بھی مسلم کمیونٹی کے معزز رہنماؤں کے قتل سے زیادہ گھناؤنا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ تاہم، یہ سب کچھ ایک طویل عرصہ پہلے ہوا تھا ،اور مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ہم عصر حاضر کے معاشرے میں 7وی صدی کے معیار اور طریقوں کو بہ افراط دوبارہ نافذ کر سکتے ہیں ۔
جرم اور مجرموں کے بارے میں علم، علم جرائم، میں اس کے بعد سے بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں جرم اور مجرموں کے بارے میں موجودہ بحث کا ادراک رکھنا چاہئے۔ جرم کی ایک سادہ تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے، جو چیز عوامی فلاح و بہبود کے لئے یا ریاست کے مفادات کے لئے ذہنی طور پر یا اخلاقی طور پر یا جسمانی طور پر نقصان دہ سمجھی جاتی ہو اور یہ کہ وہ قانونی طور پر ممنوع ہو ۔ اس کے بعد سزا جرم کا ارتکاب کرنے والے پر ایک جرمانہ ہے۔ یہ ایک اخلاقی کردار ہے، کیونکہ ا س کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب کچھ غلط کیا گیا ہو۔ ایک لحاظ سےوہانصاف کی ایک مثال ہے۔ اگر چہ ،سزا خصوصی افراد اور تنظیموں کے ذریعہ دی جا سکتی ہے، قانوناً پابند جرمانہ یا سزا مسلط کرنے کا حق ریاست کو حاصل ہے ۔
عصر حاضر کے عالمانہ علم میں، سزا پر تین اہم اخلاقی مراتب پائے جاتے ہیں : انتقام ، عبرت اور بحال کرنا ۔ ان کو متحد کرنا ممکن ہے، اور وہ ایک دوسرے سے ضروری طور پر خاص نہیں ہیں۔ انتقام ایک آنکھ اور ایک دانت کے بدلے ایک آنکھ اور ایک دانت کے اصول پر مبنی ہے۔ قتل کے معاملے میں موت کی سزا انتقام کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح انصاف کا مطلب ہے کہ اس جرم کا بدلہ، آپ بالکل اسی طرح چکاتے ہیں جو کہ آپ کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ یہ سزا کی سب سے پرانی قسموں میں سے ایک ہے جسے بہت سے مذہبی صحیفوں میں منظوری حاصل ہے ۔
عبرت کےنظریہ میں مجرم کو نہ صرف یہ کہ سزا دی جائے گی بلکہ، اسے دوسروں کے لئے ایک مثال بنیا یا جائے گا ، تاکہ لوگوں کو جرم کے ارتکاب سے روکا جائے ۔ سنگساری ، چور کا ہاتھ کاٹنا، اور زنا کار کو کوڑے مارنا عبرت کی سزا کی مثالیں ہیں۔ سزائے موت کو بھی عبرت کی سزا سمجھا جاتا ہے جبکہ اسے ایک انتقامی سزا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ انتقامی اور عبرت کی سزا کے نظریات کو اس کے اعمال کے لئے ایک فرد کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ سماجی حالات، ثقافتی اور مذہبی دباؤ اور زندگی کی ایسی دوسری پیچیدگیاں جو افراد کے رویے پر اثر انداز ہوتی ہیں ، ان کا حساب نہیں لیا جاتا ۔
یہ ان لوگوں کے لئے غیر اطمینان بخش سمجھا جاتا ہے، جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ مجرم بھی حالات کا شکار ہے: اس وجہ سے جرم پر بحالی کا نظریہ مناسب ہے۔ ایک فرد، جو غربت میں پیدا ہوا، ایک ٹوٹے ہوئے خاندان میں، اور جو منشیات کے عادی والدین کی اولاد ہے ، اس کا اس سے زیادہ جرم کا شکار ہونے کا امکان ہے، جس بچے کی 'عام' پرورش ہوئی ہو ۔ اس طرح کے انسان کو سماجی و نفسیاتی لحاظ سے مریض سمجھا جاتا ہے۔ لہذا، ایسی سزا جو اس کی زندگی ختم کر سکتی ہے یااسے بد شکل کر سکتی ہے ، غیر منصفانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص بحالی کے معالجہ کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ وہ جیل یا ہسپتال میں بڑی رکاوٹ شامل کر سکتا ہے۔ امید اس کا علاج اور اس طرح اس کی بحالی ہے۔ بحالی نظریہ کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ بحالی کا معالجہ ہمیشہ کامیاب نہیں ہے۔ سخت مجرم صرف ایسے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں،جیسے ہی وہ رہا کئے جاتے ہیں ، اور زیادہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
مختصر میں، یہ تمام تینوں نظریات، مختلف خیالات ہیں کہ جرم اور مجرم پر کس طرح نظر رکھی جائے ۔ ان میں سے ہر ایک انصاف کے ایک نظریے کی نمائندگی کرتا ہے، ان کے انصاف کا نظریہ کئی طریقوں میں مختلف ہوں تب بھی ۔ ایک اصول کے معاملے کے طور پر، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو سزائیں انتقام جوئی اور خام ظلم پر مبنی ہوں وہ حق بجانب نہیں ہو سکتی ہیں۔ مغرب کے کھلے معاشرے اس بات کا خطرہ مول لیتے ہیں کہ کچھ لوگ ان کی آزادی کا غلط استعمال کریں گے اور خوفناک جرائم کا ارتکاب کریں گے ۔ اس کے بعد، یقیناً، خام سرمایہ دارانہ نظام منظم جرائم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ ڈرگ مافیا، اسلحہ فروش، عصمت فروشی کے گروہ اور بہت سے دوسرے ایسے عناصر ایک مافیا کا قیام کرتے ہیں جو سنگین اور سفاکانہ ہے ۔ اس طرح کی بری طاقتوں سے نمٹنے کے لئے، دنیا بھر میں سماجی جمہوریت کی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے ، جو ایک منصف ورلڈ آرڈر کی تخلیق کرتی ہے ۔ میں ایک ایسی مضبوط ریاست میں یقین رکھتا ہوں جو کہ مؤثر طریقے سے جرم کا خاتمہ کر سکے لیکن ظلم کا سہارا لئے بغیر۔ تاہم، ہم کچھ بھی کریں، کوئی سماج کبھی بھی جرم سے پاک نہیں ہو سکتا ۔ لہذا، ہمیں پیدا ہونے والے ہر ایک صورتحال سے نمٹنے کے لئے مناسب اقدامات کے ساتھ تیار رہنا چاہیے۔
مصنف پولیٹیکل سائنس، سٹاک ہوم یونیورسٹی کے ایک سبکدوش پروفیسر ہیں ۔ دی انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز، نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے اعزازی سینئر فیلو ہیں، ان سے billumian@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ماخذ: 29 ستمبر، 2010 بشکریہ: ڈیلی ٹائمس، پاکستان
https://newageislam.com/islamic-society/crime-islamic-punishments/d/3481
URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/crime-islamic-punishments-/d/11286