New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 04:15 PM

Urdu Section ( 31 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Crackdown on Mosques in Germany جرمنی میں مساجد پر چھاپے اور پابندی

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

30جولائی،2024

یوروپ کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی اسلاموفوبیا میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ اس بات کا ثبوت خود حکومت جرمنی کے اپنے سرکاری اعدادوشمار ییں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف اسلام دشمن طبقوں اور افراد کے ذریعہ بھی جرمنی کےمسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند پروپیگنڈہ چلایا جارہا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی جرمنی اور یوروپ میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ مواد گردش کررہا ہے ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے ہی کچھ انتہا پسند عناصر بھی اپنی ناعاقبت اندیشی اورغلط اقدامات کی وجہ سے اہنے ملک کے غیر مسلموں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کررہے ہیں۔جیسے اسی سال مارچ میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں مسلم انٹرایکٹیو نامی ایک انتہا پسند تنظیم نے ایک ریلی نکالی اور جرمنی میں خلافت کے قیام اور جمہوریت کی تحلیل کا مطالبہ کیا جس نے مقامی آبادی میں شدید ردعمل پیدا کیا۔

گزشتہ اکتوبر سے اسرائیل فلسطین جنگ اور غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کے خلاف پوری دنیا بشمول جرمنی میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ان مظاہروں میں اکثریت یوروپ کے غیر مسلموں کی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کی حکومتیں ان مظاہروں کو حماس کی حمایت اور دہشت گردی کی تائید قرار دے کر مظاہروں کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کررہی ہیں۔دراصل ایسا وہ امن وامان قائم کرنے کے مقصد سے نہیں بلکہ اسرائیل کی حمایت میں کررہی ہیں کیونکہ ان تمام ممالک کے اقتصادی اور سیاسی مفادات مشرق وسطی سے جڑے ہیں۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی گزشتہ 24 جولائی کو جرمنی میں53 مساجد پر پولیس کے چھاپے اور ان پر پابندی ہے۔ پولیس نے ہیمبرگ میں واقع ملک میں شیعوں کی سب سے پرانی مسجد امام علی مسجد جو اسلامک سینٹر آف ہیمبرگ کا حصہ ہے اس پرچھاپہ مارا اور اسے بند کردیا۔ پولیس نے یہ دعوی کیا اس چھاپے میں کمپیوٹر ، موبائیل فون ، دستاویزات اور نقد رقم برآمد ہوئی ہے۔ حکومت جرمنی نے ایک ییان جاری کرکے کہا کہ اسلامک سینٹر کے حزب اللہ سے تعلقات ہیں اور یہاں سے یہودی مخالف منافرت پھیلائی جارہی تھی۔جرمنی کی وزیرداخلہ نے یہ بھی کہا کہ اسلامک سینٹر آف ہیمبرگ ایران کا ایک فرنٹ ادارہ ہے اور یہ جرمنی میں بھی انقلاب ایران جیسا تختہ پلٹ کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔

دراصل جرمنی کی مساجد اور اسلامک سینٹر آف ہیمبرگ پر پابندی یوروپ میں اسرائیل مخالف مظاہروں اور فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج کو دبانے کے مقصد سے حکومت کے اقدامات کا حصہ ہے۔ ایران کے وزیرخارجہ علی باقر کانی کے مطابق اسلامک سینٹر آف ہیمبرگ بھی فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج میں شامل تھا۔ گزشتہ مہینوں میں اس سینٹرنے کئی بیان جاری کرکے اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج کیا تھا اور یوروپی ممالک سے اسرائیل کی حمایت ترک کرنے کی اپیل کی تھی۔ مسجدوں پر کریک ڈاؤن کی اصل وجہ یہی معلوم پڑتی ہے۔ حکومت جرمنی نے اسلامک سینٹر پر حزب اللہ سے تعلقات رکھنے کا الزام لگایا لیکن 53 مساجد پر چھاپے ماری کے بعد بھی اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قانونی کارروائی کا حق ہرملک کو ہےلیکن صرف پروپیگنڈہ اوربے بنیاد بیانئے کی بنیاد پر ملک کی 53 مساجد پر چھاپے ماری اور پابندی کسی بھی مذہبی طبقے کی مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔

جرمنی کی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے اسلامک سینٹر پر پابندی اور چھاپے کی وجہ یہودی مخالف منافرت کے فروغ کے لئے اس کی مبینہ سرگرمیاں ہیں جبکہ خود جرمنی کی ایک سرکاری رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کی ایک تہائی مسلم آبادی کو زندگی کے ہر شعبے میں کنڈر گارٹن سے لے کر ضعیف العمری تک نسلی منافرت اور امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2023ءمیں حکومت جرمنی کی ایما پر ماہرین کے ایک گروپ نے تین سال کی تحقیق کے بعد حکومت کو اپنی 400 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی تھی جس میں اعداد وشمار کی مددسے یہ دکھایا گیا تھا کہ جرمنی میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اپریل 2024ء کی ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے ۔:۔

"ستمبر 2023ء کے اواخر تک سال بھر میں منافرتی جرائم کے ابتدائی اعدادوشمار سے اسلام مخالف جرائم کی تعداد 686 ظاہر ہوتی ہے جو 2022ء کے پورے سال کے جرائم کی تعداد 610 سے متجاوز ہے۔وسط 2024ء میں وزارت داخلہ نے ہیومن رائٹس واچ کوبتایا کہ وہ اکتوبر سے دسمبر تک کے اعدادوشمارسردست مہیا نہیں کراسکتی لیکن جرمنی کے سول سوسائٹی گروپس نے اکتوبر میں اسرائیل فلسطین جنگ کے آغاز کے بعد مسلم مخالف واقعات میں اضافے سے خبردار کیا ہے۔"۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۔:

۔"اس رپورٹ کے ایک مرتب نے اس بات پر ناگواری کا اظہار کیا کہ وزارت داخلہ نے اس رپورٹ پر نہ تو رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین سے اظہار خیال کیا اور نہ ہی ان کی سفارشات پر عمل درآمد کرایا۔ وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کی ہر بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔"۔

اپنی حکومت کی رپورٹ پر جرمنی کی وزیرداخلہ کا یہ بیان اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے منافرتی جرائم سے نینسی فیزر کی چشم پوشی اور ڈھٹائی اوریہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے محض الزام پرمسلمانوں کی 53 مساجد پر چھاپے اور پابندی ان کی مسلم مخالفت ذہنیت اور صیہونیت نوازی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دراصل وہ جرمنی میں عوام کے ذریعہ اسرائیل مخالف مظاہروں سے بوکھلا گئی ہیں اور فلسطینیوں کے تئیں عوامی حمایت کو کسی بھی طرح کچل دینا چاہتی ہیں۔کیوں کہ جرمنی بھی اسرائیل کے حامی ممالک کا حصہ ہے جس کے تجارتی اور سیاسی مفادات اسرائیل سے وابستہ ہیں۔ جرمنی اسرائیل کے کٹر حامیوں میں سے ایک ہے اور اسے ہتھیار بیچنے والے ممالک میں شامل ہے۔ جرمنی کی بوکھلاہٹ کی وجہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس کے خلاف نکاراگوا کے ذریعہ دائر کیا گیا مقدمہ ہے جس میں اس نے جرمنی پر فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہونے کا الزام لگایا ہے۔ چونکہ ایران فلسطینیوں کی حمایت میں عملی طور پر سرگرم ہے اس لئے جرمنی نے اسرائیل کے اشارے پر شیعوں کے ادارے اور مساجد کو انتقاماً نشانہ بنایا ہے۔

لہذا، تمام حقائق اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جرمنی کی حکومت کی طرف سے شیعوں کی مساجد کے خلاف کریک ڈاؤن بظاہر تو یہودی مخالف منافرت اور دہشت گردی کے سدباب کے لئے ہے لیکن حقیقت میں اس کا مقصد اسرائیل۔کے ذریعہ فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی اور عالمی عدالت میں اپنے اوپر فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک ہونے کے الزام سے عالمی توجہ ہٹا نا ہے لیکن ان سیاسی کرتب بازیوں کا اسرائیل کے حامی ممالک کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے ۔ حقیقت دنیا کے سامنے ہے۔

---------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/crackdown-mosques-germany/d/132833

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..