New Age Islam
Mon Jun 16 2025, 09:52 AM

Urdu Section ( 3 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Trying To Take The Country Towards Communalism ملک کو فرقہ پرستی کی طرف لے جانے کی کوشش

 

مولانا عبدالحمید نعمانی

30دسمبر،2024

 ہندوتو ہمیشہ سے فساد پسند، تنگ نظر،فرقہ پرست اور خود غرض رہا ہے، اس کو ہندو، مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے، ہندوتو وادی عناصر تمام تر مذہبی علائم اور سماجی، تہذیبی شناختوں کا اپنے خصوصی مفاد اور تفوق کے لیے بری طرح استعمال و استحصال کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ سچ اور حق کی آواز اور فکر و تحریک کو اپنے لیے تباہ کن اور خطرہ سمجھتے ہوئے اس کو دبانے اور ختم کرنے کے لیے تمام تر وسائل اور طاقتیں صرف کر کے اپنا تفوق و غلبہ بنائے رکھنے کا بھر پور جتن کرتے رہے ہیں۔ اسی کا حصہ، سنگھ سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت کے ایک مشترکہ سماج میں پیش کردہ صحیح مشورے پر پردہ ڈالنے اور اس کے خلاف محاذ آرائی اور پرشور مہم ہے۔

 ڈاکٹر بھاگوت کی نیت پر بحث و سوال زیادہ بامعنیٰ نہیں ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ آر ایس ایس کے کردار و تاریخ میں بے پناہ تضادات پائے جاتے ہیں،لیکن ڈاکٹر بھاگوت کے،  سب کا ڈی این اے ایک ہونے اور ہر مسجد میں شیو لنگ نہ ڈھونڈنے والے بیانات کے ساتھ یہ بیان کہ رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ کو ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ایسے مسائل اٹھا کر ہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں، یہ قابل قبول نہیں، دنیا کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ملک رواداری، ہم آہنگی سے ایک ساتھ رہ سکتا ہے، ہم طویل عرصے سے رواداری، میل ملاپ سے رہ رہے ہیں، اگر ہم دنیا کو یہ تعلیم دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک آدرش بنانے کی ضرورت ہے،جس سے کوئی بھی واقف حال اختلاف نہیں کر سکتا ہے۔ ایسے بیانات کا خیر مقدم کیا ہی جانا چاہیے، مسلم سماج سمیت ہر اتحاد پسند طبقے نے خیر مقدم کیا بھی ہے، لیکن تفریق پسند، فرقہ پرست عناصر کے علاوہ مبینہ دھرم گروؤں، سوامی رام بھدر چاریہ، چکر پانی، دیانند سرسوتی، دیوکی نندن ٹھاکر، شکتی پتر،یتی نرسنہا نند جیسے لوگوں حتی کہ سنگھ کے انگریزی ترجمان، آرگنائزر کو بھی ڈاکٹر بھاگوت سے نہ صرف یہ کہ اتفاق نہیں ہے بلکہ بہت سے تو ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے بیان کو غیر ذمہ دارانہ اور جہادی سوچ سے متاثر بتا رہے ہیں۔ رام بھدر چاریہ تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر بھاگوت صرف اپنی تنظیم کے سربراہ ہیں نہ کہ ہندو سماج کے رہنما، وہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق بھی بے تکی اور بے بنیاد باتیں کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جگت گرو ہونے کے ناتے ہندو سماج، ہماری حکمرانی کے تحت ہے نہ کہ بھاگوت کی امارت کے زیر سایہ، وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مسجد میں مندر تلاش کرنے کی مہم سے لیڈر بننے کی کوشش قابل قبول نہیں ہے‘۔

سوامی بھدر چاریہ جیسے لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں سے بڑی دقت و نفرت ہے، وہ بار بار  بہت قابل ہونے کے دعوے کرتے رہتے ہیں، یقیناً ان کو ہندو دھرم گرنتھوں کے شلوک، دوہے، چوپائیاں بڑی تعداد میں یاد ہیں لیکن اسلام، مسلمانوں اور تاریخ کے متعلق معلومات انتہائی ناقص اور کچی ہیں، وہ بسا اوقات ہندوستانی روایات کی بھی غلط تشریحات کرتے ہیں، ان کی یادداشت اچھی ہے لیکن فکر و عمل میں کجی اور کھلی جانبداری و فرقہ پرستی ہے۔ جتنے لوگ بھی مسجد، مزار میں مندر ہونے کے حامی ہیں وہ بلا شبہ فرقہ پرستی میں مبتلا، قومی اتحاد کے مخالف ہیں، جبکہ بھارت جیسے متنوع مذاہب و روایات والے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی ضرورت ہے۔ مسلم سماج اور اس کے نمائندہ طبقے، علماء، صوفیاء، بھارت سمیت دنیا کی معروف عظیم شخصیات کا ہمیشہ سے احترام کرتے رہے ہیں، وہ کائنات کے خالق و رب بتانے والے الفاظ و اصطلاحات کو بھی مسترد نہیں کرتے ہیں۔ برائے افہام و تفہیم، مخاطب کے لحاظ میں ان کے استعمال سے گریز نہیں کرتے ہیں، بھارت میں بھی پہلے ہندو مسلم ایسا کرتے رہے ہیں، نفرت و تفریق کا سلسلہ، ہندوتو وادی تنظیموں کے عروج اور ۲۰۱۴ءسے شروع ہوا ہے، کچھ دنوں سے بڑی شدت کے ساتھ، عربی فارسی اور اردو کے الفاظ و اصطلاحات کو ختم کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے، اس طبقے کی کم علمی، بے شعوری اور فرقہ پرستی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ ایشور، اللہ میں تفریق کر کے ملک کو تنگ نظری کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، ابھی حال ہی میں پٹنہ میں گاندھی جی کے بھجن، ایشور، اللہ، تیرو نام گانے پر زبردست ہنگامہ برپا کیا گیا، تنگ نظری اور فرقہ پرستی کے تحت ہی، سماجی بائیکاٹ، مسلمانوں کو کرایہ پر مکان نہ دینا، ہندو اکثریتی محلے میں کسی مسلم فیملی کی رہائش اور مکان خریدنے پر فتنہ و فساد برپا کرنے کا مطلب صاف ہے کہ ہندوتو وادی سماج، تہذیب و شرافت سے عاری اور فرقہ پرستی اور اپنی روایتی تنگ نظری کے بھیانک روگ میں مبتلا ہے، پہلے وہ ایسا دلتوں وغیرہ کے ساتھ چھوا چھوت کی سوچ کے تحت کرتا تھا، اب ان کی جگہ مسلمانوں کو لانے کی مہم زوروں پر ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ اسے نفرت و حقارت عداوت کے اظہار کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ضرور چاہیے، اس کے بغیر وہ زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔

 اسی ذہنیت کا اظہار اسلامی و مسلم معابد و ماثر اور آثار کے خلاف مہم ہے، اس کا شکار تقریباً تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے ہندوتو وادی عناصر و افراد ہیں، انھوں نے پہلے گوتم بدھ اور ان کی مورتیوں، ستوپوں اور مقامات پر قبضہ کر کے ان کو اپنا بنانے کا کام کیا اب اسلام اور مسلم معابد و ماثر اور آثار و مقامات پر قبضہ کر کے ان کو اپنا بنانے کی، مختلف شعبہ ہائے حیات کے افراد کے تعاون سے کوششیں کر رہے ہیں۔ان کا اعلانیہ آغاز بابری مسجد کی جگہ، رام مندر کی تعمیر ہے، اس سلسلے میں موہن بھاگوت اور دیگر کا یہ نقطۂ نظر صحیح اور مبنی بر حقیقت نہیں ہے کہ رام مندر کی تعمیر،ہندو عقیدہ،آستھا کا معاملہ ہے، مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کے دعوے کو سپریم کورٹ نے بھی مسترد کر دیا ہے، ویسے بھی رام کو ہندوؤں اور مندر سے جوڑ کر پیش کرنا بنیادی طور پر صحیح نہیں ہے، رام کو کسی خاص کمیونٹی، ہندو فرقہ سے منسلک کر کے دیکھنا، فرقہ وارانہ تقسیم و تفریق کی غلط ذہنیت و سیاست کا حصہ ہے۔ اب تک کی تحقیقات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رام چندر کے عہد، تریتا یگ میں مورتی، مندر کا وجود نہیں تھا، دونوں بدھ کی مورتی اور ستوپ کی نقل، بدھ مت کے ردعمل و جواب دینے کے عمل کا حصہ ہیں،گرچہ بعد کے دنوں میں گوتم بدھ کو برہمن وادی ہندو اوتاروں میں شامل کر کے بدھ مت کی تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تاہم اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی ہے۔بدھ کے نظریہ و عمل میں بھگوان کے اوتار لینے کا سرے سے کوئی حوالہ نہیں ہے، غالباً اسی لیے ڈاکٹر امبیڈکر کے ۲۲؍ عہود میں برہما، وشنو، مہیش اور ان کے اوتار کا انکار بھی شامل کیا گیا ہے۔

 آنحضرت ؐ کو ویدک تصور کے مطابق نراشنس اور پرانک تصور کے تحت آخری پیغام رساں کلکی اوتار کے روپ میں، بھارت کی مذہبی روایات میں شامل تسلیم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہندو دھرم گرنتھوں کے ماہر ڈاکٹر وید پرکاش اپادھیاے نے بہ حوالہ اپنی کتابوں، نراشنس اور حضرت محمدؐاور کلکی اوتار اور حضرت محمدؐمیں آخری درجے میں ثابت کر دیا ہے۔ اب اس کا انکار کرنے کے لیے،کلکی اوتار، آخری پیغام رساں کو آئندہ کے بھارت میں بتانے، دکھانے کی کوششوں کا تعلق گوتم بودھ کے برعکس ایک الگ طرح کی سوچ کی علامت ہے، جب کہ آنحضرتؐ کے بغیر، بھارت کے عالمی تعلقات اور وشو گرو بننے کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ہے۔بھارت میں حضرت آدم علیہ السلام کے ہبوط (اترنا) اور آنحضرت ؐ کے ملک عرب میں ظہور کو تسلیم کیے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی ہے، جامع مسجد سنبھل کے سلسلے میں خلاف حقیقت باتیں، بھارت کو انسانی وحدت اور قومی اتحاد سے فرقہ پرستی اور روحانی و تہذیبی وسعت سے تنگ نظری کی طرف لے جانے کی کوششوں کا حصہ ہیں، اس تعلق سے مختلف جہات و پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔n

30 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------

URL:    https://www.newageislam.com/urdu-section/country-communalism/d/134226

 

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..