New Age Islam
Sun Jun 15 2025, 08:21 PM

Urdu Section ( 12 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Contributions of Muslims in the Promotion of Religions مذاہب کے فروغ میں مسلمانوں کی خدمات

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

12 اپریل 2025

آج جس طرح سے سماج میں خلفشار اور انتشار برپا کیا جارہاہے اس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ اسی پر بس نہیں پیہم مسلم کمیونٹی کو ٹارگیٹ کیا جارہاہے اور ان کے روشن و تابناک ماضی کو مخدوش و مجروح کرکے پیش کیا جارہا ہے ۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتاہے کہ دیگر مذاہب و ادیان کے ساتھ روادار نہیں ہیں اس مضمون میں ہم مطالعہ کریں گے کہ مسلمانوں نے رواداری کے فروغ کے لیے دیگر مذاہب پر خاصا کام کیا ہے ۔

 ہندوستان میں مختلف افکار و نظریات ، مذاہب و ادیان ، متعدد رسوم و رواج اور بھانت بھانت کی بولیوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ سچ  بات یہ ہے کہ یہی انیکتا میں ایکتا ، مذہبی و فکری تنوع  ہندوستان کے جمہوری اور سیکولر نظام کو مستحکم کرتی ہے ۔ رنگا رنگی سے ہندوستانی سماج کا حسن بڑھتا ہے اور عالمی سطح پر ہندوستانی معاشرے کی ایک شناخت اور پہچان بنتی ہے ۔ لہذا ہندوستان کی اس شناخت اور تہذیبی تنوع کی عظمت کو معدوم کرنا یا یہاں کے تنوع پسند نظام و مزاج کو مجروح کرنے کی کوشش کرنا مناسب عمل نہیں ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ آج دنیا میں وہی معاشرے اپنے پورے وجود کے ساتھ زندہ رہتے ہیں جن کے اندر تحمل و برداشت اور بردباری کا جذبہ پایا جاتاہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ تنوع پسند معاشروں کے اندر مخالف نظریات و تصورات کو برداشت کرنے کا مادہ زیادہ ہوتا ہے، برعکس ان معاشروں کے جو کسی ایک رنگ اور نظریہ سے مسلح ہوتے ہیں ۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات میں سماجی ہم آہنگی کے لیے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن و سنت اور سیرو تواریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جو ہمیں سماجی ہم آہنگی اور رواداری کی پر زور نہ صرف دعوت دیتے ہیں بلکہ  اس پر عمل کرنے کے لیے ابھارتے ہیں ۔

 چنانچہ قرآن کریم میں  بیشتر مقامات پر معاشرے میں امن و امان اور اتحاد و یگانگت قائم کرنے کے لیے ہدایات ملتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

"دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے"

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

" اور ہر گز نہ اکسائے تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر کہ تم عدل نہ کرو عدل کیا کرو یہی زیادہ نزدیک ہے تقوی سے "

متذکرہ آیات کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اسلام اس بات کا ہر گز قائل نہیں ہے کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنایا جائے، یا اسے دین اسلام میں داخل کیا جائے ۔ کسی کے مذہب و عقیدہ  پر ضرب لگانا یا کسی کے مذہب کو زبردستی بدلوانے کی سعی کرنا نہ صرف دنیاوی قوانین میں ممنوع ہے بلکہ اس کی شدت سے ممانعت قرآن مجید بھی مذکور ہے ۔ اسی طرح قومی عداوت و تفاخر کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی کرنا اور ظلم و تعدی کو روا رکھنا بھی ممنوع ہے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ کسی بھی فرد و کمیونٹی کے مذہب و ملت اور ایمان و عقیدہ سے چھیڑ چھاڑ کرنا یا عدل و انصاف سے گریز کرنا ایسے قبیح جرائم ہیں جو معاشرتی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے سد باب ہیں ۔ البتہ جن معاشروں میں مذہب و ملت یا قوم و نسل اور رنگ و وطن جیسے بھید بھاؤ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے وہاں امن و سکون اور اطمینان و سلامتی کا راستہ ہموار رہتا ہے ۔ آج جو طاقتیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور فکر و نظر سے ہو اگر وہ معاشرتی امن اور یکجہتی کو کمزور کرنے کی سعی کررہی ہیں تو ان کے اس طرح کے اقدامات و عوامل مناسب نہیں ہیں ۔

اسی طرح جب ہم سیرتِ طیبہ کو پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سماجی ہم آہنگی کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود اقدامات کیے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل حلف الفضول جیسے معاہدہ میں شرکت فرما کر سرزمین مکہ میں امن و امان کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی فلاح و بہبود اور ہم آہنگی کے لیے جو عملی اقدام کیے تاریخ میں اس سے پہلے ایسی مثال نہیں ملتی ہے ۔ اسی طرح نبوت کے بعد اور ہجرت کے معا بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ کے نام سے جو معاہدہ کیا وہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی جملہ اقوام وملل کو جوڑنے کی کامیاب سعی کی ہے ۔ جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مغرب نے دنیا کو میگنا کارٹا کے نام سے جو دستور دیا وہ اس کے بہت بعد یعنی 1215ء میں دیا ۔ مگر پہلی ہجری میں مرتب ہونے والے میثاق مدینہ نے معاشرتی سطح پر جو اثرات مرتب کیے ان کی اہمیت و افادیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی بہت سارے اقدامات ایسے کیے جو معاشرتی ہم آہنگی کے لیے مفید و موثر ثابت ہوئے ۔ ہندوستان جیسے تکثیری میں مخصوص فکر کے حاملین جس طرح سے ہندوستانی معاشرے کو دولخت کرنے کی سعی کررہے ہیں وہ نہایت شرمناک ہے ۔ بھارت کی تہذیب اور ثقافت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ  یہاں مذہب و ملت کے نام پر پرخاش کبھی نہیں رہی ہے ۔ البتہ کبھی بھی اس طرح کے فتنے نے سر اٹھایا بھی تو یہاں کے رہنے والوں نے اسے پنپنے نہیں دیا ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ سماجی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ و ترویج اور بقاء و تحفظ کا  سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ بات اگر ہندوستانی معاشرے کے تناظر میں کی جائے تو ایسی انگنت مذہبی اور دینی ہستیاں یا مفکرین و دانشور گزرے ہیں۔ جنہوں نے گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے اور یہاں کی تکثیریت  کو جلا بخشنے  کے لیے علمی اور عملی دونوں اقدامات کیے ہیں ۔ علماء اسلام کی ایک بڑی تعداد نے سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے ۔ اس بابت جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں آکر ابو ریحان البیرونی نے ہندو دھرم پر ایک اہم ترین کتاب تصنیف کی جسے " تحقیق ماللہند" کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ابو ریحان البیرونی نے یہ کتاب ہندوؤں کے مٹھوں اور منادر میں رہ کر اور ان کی  مذہبی زبان یعنی سنسکرت سیکھ کر لکھی ہے ۔ اسی کتاب کے اندر ابو ریحان البیرونی نے ہندوؤں کے مذہبی مصادر سے ثابت کیا ہے کہ ہندو دھرم میں خدا کی وحدانیت کا ثبوت ملتا ہے ۔ اس کتاب نے ہندوستانی سماج یا عالمی سطح پر جو اثرات مرتب کیے ہیں اس نے قوموں اور معاشروں کے اندر تفریق کو مٹایا اور محبت و الفت کا پیغام عام کیا ہے ۔ ابو ریحان البیرونی کی یہ کاوش اس بات پر شاہد عدل ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی مخالف نظریات و افکار اور عقائد و اعمال کا تجزیہ کیا ہے تو انصاف اور معروضیت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے ۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ مولانا نے قرآن کریم کی تفسیر " ترجمان القرآن" کے نام سے تصنیف کی ہے ۔ مولانا کی اس تفسیر کی پہلی جلد کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے مولانا نے سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے بہت سارے شواہد پیش کیے ہیں ۔ سچ بات یہ ہے کہ  مولانا آزاد کی اس تفسیر نے سماجی ہم آہنگی کے لیے جو نقوش مرتب کیے ہیں وہ بڑے اہم ہیں۔

نیز مغلیہ دور حکومت میں ہندو دینی مصادر، مہابھارت ، رامائن ، وید اور دیگر ہندو کتب کا ترجمہ کیا گیا ۔ یہ  ترجمہ عہد مغلیہ کے مسلم حکمرانوں نے  کرایا ۔  ابو ریحان البیرونی کی تحقیق ما للہند ، مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن ، یا عہد مغلیہ میں ہندو مذہبی کتابوں کے تراجم ہوں ان تمام کا بنیادی اور اہم ترین مقصد یہی تھا کہ معاشرے میں ہم آہنگی اور رواداری پیدا ہو ۔ مذہب و ملت کے نام پر کسی بھی طرح کی تفریق و امتیاز نہ برتا جائے ۔ آج بھی ان تمام چیزوں کا پیغام یہی ہے کہ بھارت کا تنوع اور رنگارنگی برقرار رہے گی تبھی جاکر یہاں کی خوبصورتی اور حسن و جمال محفوظ رہے گا ۔

معاشروں کو جو لوگ بھی قوم و ملت اور مذہب و مسلک کے نام پر توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سماج میں تفریق پیدا کرنے سے جو نقصانات ہوتے ہیں اس کا خمیازہ معاشرے کے سبھی طبقات کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس لیے مذہب کے نام پر سماج میں تفرقہ پیدا کرنا کسی بھی کمیونٹی کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/contributions-muslims-promotion-religions/d/135143

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..