New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 09:02 AM

Urdu Section ( 25 Jun 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Content: Identity of the Believers قناعت : مومن کی پہچان

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

25جون، 2012

قرآن کے مطابق ،قناعت مومن کی پہچان ہے ۔ صبر، شکر اور پرہیز گاری قناعت کے اجزاء ہیں ۔ ایک مومن ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے ۔ اللہ نے اپنی نعمتیں اسے جتنی مقدار میں عطا کی ہیں اس پروہ قانع رہتا ہے اور زیادہ کی حرص نہیں رکھتا ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ماپ کر بقدیہ ضرورت دیتا ہے اور بہتوں کو تنگدستی ، ڈرا ، بھوک او رکاروبار میں خسارے کے ذریعہ آزماتا ہے لہٰذا ، ایک مومن ہر آزمائش پر پورا اتر تا ہے۔ اللہ فرماتا ہے ۔

‘‘ سو کھاؤ روزی جو دی تم کو اللہ نے حلال اور پاک اور شکر کرو اللہ کے احسان کا اگر تم کو پوجتے ہو۔ ( النحل :115)

ہر انسان کے دل میں حرص و طمع موجود ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی خوش حالی، دولت اور مادی وسائل کی افراط کو دیکھ کر خود بھی ان وسائل کے حصول کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔ یہ خواہش کبھی کبھی غلط صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ  دنیا وی آسائشوں کے حصول کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے لگتا ہے ۔ اسے جائز ، ناجائز، حلال، حرام اور صحیح و غلط کو ہوش نہیں رہ جاتا ۔ قرآن انسان کے اس جذبے پر تنبیہہ کرتے ہوئے کہتا ہے

‘‘ اور ہوس مت کرو جس چیز میں بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر ۔’’ (النساء :32)

قرآن کہتا ہے کہ اللہ کچھ لوگوں کو دنیا میں زیادہ رزق ، مال ودولت ، جائیداد او رمادی وسائل عطا کرتا ہے تو اس میں اس کی مصلحتیں ہیں وہ لوگوں کو مال ودولت سے آزماتا ہے جس طرح سے کچھ لوگوں کو بھوک اور افلاس کے ذریعےسے آزماتا ہے ۔لہٰذا ، دوسروں کو دیکھ کر رونق دنیا اور آسائشوں کے حصول کیلئے پریشان رہنا حماقت ہے۔ قرآن کہتا ہے

‘‘ اور مت پسار اپنی آنکھیں اُس چیز پر جو فائدہ اُٹھانے کو دی  ہم نے ان طرح طرح کے لوگوں کو رونق دنیا کی زندگانی  کی ان کے جانچنے کو اور تیرے رب کی دی ہوئی روزی  بہتر ہے اور بہت باقی رہنے والی ۔(طٰہٰ :131)

اللہ نے ہر انسان کی روزی  اس کے مقدر میں لکھ دی ہے ۔ لہٰذا ،اپنے مقدر سے شاکی رہنا اور اپنے حال سے نالاں رہنا گویا خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرنا ہے ۔ اور ناشکری بہت بڑا وبال ہے۔ اللہ نے ناشکری کی بنا پر کئی قوموں کو تباہ کردیا۔ قرآن کہتا ہے

‘‘ اور ہم نے تم کو جگہ دی زمین میں اور مقرر کردیں اس میں تمہارے لئے روزیاں تم بہت کم شکر کرتے ہو۔( الاعراف :10)

لہٰذا ،قناعت انسان کو صبر اور شکر کے ساتھ رہنا سکھا تی ہے ۔ تنگدستی اور دنیا کی وقتی  محرومیوں پر صبر اور حرص و طمع سے دوری انسان کو پرہیز گار بناتی  ہے اور خدا کی نعمتوں کے اعتراف سے دل کو روحانی سکون ملتا ہے خدا کاشکر ادا کرنے والا انسان نہ تنگدستی پر خدا سے مایوس ہوتا ہے اور نہ خوش حالی  میں شیخی بگھار نے اور اترانے لگتا ہے:

قرآن  میں آیا ہے :

‘‘ کوئی آفت نہیں پڑتی ملک میں  اور نہ تمہاری جانوں میں جو لکھی نہ ہو ایک کتاب میں پہلے اس سے کہ پیدا کریں ہم اس کو دنیا میں ۔ بیشک یہ اللہ پر آسان ہے تاکہ غم نہ کھایا کرو اُس پر جو ہاتھ نہ آیا اور نہ سیخی کیا کرو اُس پرجو تم کو اُس نے دیا اور اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا ۔( الحدید :22-23)

اس طرح اللہ قرآن میں چار مقامات پر انسان کو قناعت کی تلقین کرتاہے ۔ وہ اسے دوسروں کی خوش حالی سےحسد کرنے سےمنع کرتا  اور زیادہ کی ہوس سے بچنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

‘‘اور اگر تم صبر کرو او رپرہیز گاری تو یہ ہمت کے کام ہیں ’’ ۔(آل عمران : 186)

ایک دوسرے مقام پر قرآن قناعت کے ذیل میں کہتا ہے :

‘‘مت ڈال اپنی آنکھیں ان چیزوں پر جو ہر تنے کو دین ہم نے  ہم نے اُن میں سے کئی طرح کے لوگوں کو اور غم نہ کھا ؤ ان پر اور جھکا اپنے بازو ایمان والوں کے واسطے ’’ ( الحجر:88)

لہٰذا ،قرآن واضح طو ر پر مسلمانوں کو قناعت کی تعلیم دیتا ہے  کیونکہ قناعت نہ صرف انسان کو اللہ کا شکر گذار بناتی ہے بلکہ اسے حرص وطمع سے باز رہنے میں مدد دیتی ہے کیونکہ حرص وطمع ہی انسان کو مال ودولت اور مادی آسائشوں کے حصول کے لئے ہر جائز ناجائز طریقے آزمانے پر مجبور کرتی ہے بلکہ قناعت انسان کو پرہیز گار بناتی ہے۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/content-identity-believers-/d/7737

Loading..

Loading..