سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
2 ستمبر 2024
ادب کو سماج کا,آئینہ کہا گیا ہے۔ اردو ادب نے بھی ہر دور میں سماج کی آئینہ داری کی ہے۔ اردو شاعری اور افسانے نے خصوصاً سماج کے سلگتے ہوئے مسائل اور موضوعات کا احاطہ کیا ہے اور عوام کی رہنمائی کی ہے۔اردو شعروادب نے ترقی پسند دور سے سیاسی اور سماجی بیداری میں ایک طاقتور اور مؤثر کردار ادا کیا۔ اس نے آزادی کی تحریک میں سرگرم حصہ لینے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام میں جفاکش طبقوں کے استحصال کے خلاف بھی عوام میں بیداری پیدا کی۔اس دور کی اردو شاعری اور فکشن نے سیاسی اور معاشی انقلاب کی تحریک کو استحکام بخشا۔ فیض ، مخدوم، ساحر لدھیانوی ، مجروح سلطان پوری ، جوش ملیح آبادی وغیرہ شاعروں نے اپنی ترقی پسند شاعری سے تحریک آزادی میں جوش و جذبہ بھر دیا تو پریم چند سدرشن ، منٹو ، کرشن چندر اور راجبدر سنگھ بیدی نے اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوستانی سماج کو بیدار کیا اور ان کے سیاسی اور سماجی شعور کو فروغ دیا۔ اس طرح اردو شاعری نے ترقی پسند دور میں اس وقت کے سیاسی اور سماجی تقاضوں کو پورا کیا اور سماج کی آئینہ داری کا حق ادا کردیا۔
آزادی کے بعد پورے ملک میں جو بدترین فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اس نے تمام ہبدوستانیوں اور سرحد پار کے انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس سانحے نے اردو کے شاعروں اور ایبوں کو بہت زیادہ مضطرب کیا۔ لہذا ، انہوں نے فسادات کے دوران رونما ہونے والے انسانیت سوز واقعات کو اپنی تخلیقات میں قید کیا۔ تقسیم۔ہند کے فسادات ہنگامی نوعیت کے تھے لیکن پھر بھی وہ اتنے بڑے پیمانے پر رونما ہوئے تھے کہ اردو کے شاعر و,ادیب ان سانحات کو نظرانداز نہیں کرپائے اور فسادات کی ہلاکت خیزی اور انسانیت سوزی پر نظمیں اور افسانے تخلیق کئے۔ اس دور میں فسادات کی ہلاکت خیزی اور دل دہلانے والے قتل عام کی عکاسی شاعری سے زیادہ فکشن میں ہوئی۔ ارو کے افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں تقسیم ہند کے فسادات کو مختلف زاویوں سے پیش کیا اور ادب میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔ فسادات کے موضوع پر منٹو نے جو افسانے لکھے وہ اردو فکشن کے شاہکارہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں فسادات کے دوران یندؤں اور مسلمانوں کی نفسیات کو جس سنگدی اور فنکاری سے گرفت میں لیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
آزادی کے بعد بھی ہندوستان میں بے شمار سانحے ہوئے جیسے بڑے بڑے فسا دات ، بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع اور بابری مسجد کا انہدام اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات ، وغیرہ لیکن اردو کے شاعروں اور ادیب منٹو ، بیدی ، اور حیات اللہ انصاری کی طرح ان سانحات اور مسائل پر یادگار اور پراثر افسانے لکھنے میں ناکام رہے۔ اس دوران کوئی قابل ذکر افسانہ اردو میں نہیں لکھا گیا جو منٹو کے افسانوں کی طرح اردو ادب میں لازوال ہوجاتا۔
اکیسویں صدی میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی نے دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ کئی انتہا پسند تنظیموں نے مسلم نوجوانوں کو ورغلایا اور انہیں دہشت گردی کی راہ میں دھکیل دیا۔ اس طرح دہشت گردی برصغیر کے مسلم معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ بن گئی۔ دہشت گردی کی وجہ سے سینکڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگی اور کیریر تباہ ہوگیا۔لیکن اس مسئلے کو اردو فکشن میں جو جگہ ملنی چاہئے تھی وہ نہیں ملی۔اردو کے فکشن نگاروں نے اس مسئلے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جس کا وہ متقاضی تھا۔ دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر اردو میں کوئی قابل ذکر افسانہ یاناول گزشتہ بیس برسوں میں نہیں لکھا گیا کچھ افسانہ نگاروں نے معصوم مسلم۔نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے کیسوں میں ہھنسانے کے موضوع پر افسانے ضرور لکھے لیکن ان میں تصویر کا صرف ایک ہی پہلو دکھایا گیا۔انتہا پسند تنظیموں کے ذر یعہ مسلم۔نوجوانوں میں انتہا پسندی کی ترغیب اور اس کے دوررس اثرات پر فکرانگیز افسانے یاناول نہیں لکھے گئے۔ اس طرح اکیسویں صدی کے فکشن نگاروں نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر اثرانداز ہونے والے اس مسئلے کو شاید اس لئے نظرانداز کیا کہ انہیں چند مذہبی تنظیموں اور انتہا پسند طبقے کے عتاب کا شکار ہونا پڑتا اور ان پر جانبداری کا الزام لگتا۔اسی لئے اردو فکشن نگاروں نے اس موضوع سے دامن بچانے میں ہی عافیت سمجھی۔ جبکہ اردو کے افسانہ نگار دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے انسداد میں مؤثر کردار ادا کرسکتے تھے لیکن شاید ان میں منٹوآور عصمت جیسی بے باکی نہیں تھی۔
کچھ افسانہ نگاروں نے مسلمانوں میں مسلکی انتہا پسندی اور دہشت گردی پر افسانے ضرور لکھے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان میں بھی مذہبی طبقوں کے ردعمل کے خوف سے رمزیہ اور علامتی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے جو عام مسلمانوں کی فہم سے بالاتر ہے۔ ان افسانوں میں کھل کر انتہا پسند طبقوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا ہے۔ لہذا، یہ افسانے مطلوبہ طبقے تک نہیں پہنچ سکے اور اپنے مقصد کو پورا نہ کرسکے۔
آج جس طرح دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی نے پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور نوجوانوں کو گمراہی کے دلدل۔میں دھکیل رہی ہے اس کے پیش نظر یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ اردو کے شاعر اور فکشن نگار دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف قلمی تحریک چلائیں اور سماج کی آئینہ داری اور رہنمائی کا حق ادا کیں۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/contemporary-urdu-literature-terrorism/d/133104
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism