ڈاکٹر مشتاق احمد
24دسمبر،2023
وطن عزیز میں سب سے بڑی
اقلیت مسلمان ہیں۔دیگر اقلیتوں میں سکھ، عیسائی ،بودھ ، جین، پارسی او ریہودی بھی
ہیں ۔ہمارے آئین میں مذہبی او رلسانی اقلیتوں کو خصوصی مراعات دیئے گئے ہیں اور
یہی وجہ ہے کہ ملک میں الگ الگ اقلیتیں اپنی مذہبی، لسانی اور تہذیبی وثقافتی
شناخت کو قائم رکھتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ یہ اور بات
ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں وطن عزیز کی فضا قدرے مکدّر ہوئی ہے اور اقلیتوں کے
تئیں ذہنی تعصبات وتحفظات میں اضافے بھی ہوئے ہیں۔
واضح ہوکہ عالمی سطح پر
ہر سال 18 دسمبر کو یوم حقوق اقلیت منایا جاتاہے ۔اپنے وطن میں بھی سرکاری او رغیر
سرکاری اداروں میں اقلیتوں کے آئینی حقوق پرسیمنار ومذاکرے منعقد ہوتے ہیں۔جہاں تک
ہندوستان میں یوم حقوق اقلیت منانے کا سوال ہے تو 18دسمبر 1992 ء سے منایا جارہا
ہے۔ ہم سب اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا
علمبردار ہے او رہمارے آئین کے آئینی حقوق کے تحفظ کی وکالت کی گئی ہے او راسی
آئینی اختیارات کی بدولت ملک کی اقلیتوں کے ہزاروں تعلیمی ادارے چل رہے ہیں اور جب
کبھی اقلیتوں کے آئینی حقوق کو پامال کرنے کی مذموم کوششیں ہوتی ہیں تواقلیتیں
عدالت اعظمیٰ کا رخ کرتی ہیں اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کی خاطر آخری دم تک
قانونی جنگ لڑتی ہیں۔ حال کے دنوں میں بھی کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے
اقلیتوں کے آئینی حقوق پر کاری ضر ب لگی ہے او راس کے خلاف متاثرہ افراد عدالت تک
پہنچے ہیں۔ جہاں تک موجودہ مرکزی حکومت کا سوال ہے تو وزیر اعظم اپنا عہدہ
سنبھالنے کے پہلے دن سے یہ نعرہ دے رہے ہیں کہ ‘‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’’ ظاہر ہے
کہ جب سب کا ساتھ او رسب کا وکاس کرنے کی وکالت ہورہی ہے تو ان سب میں اقلتیں بھی
شامل ہیں۔
ملک کی دیگر اقلیتوں کو
دیکھیں تو وہ اتنے مسائل سے نبرد آزما نہیں ہیں جتنے کہ مسلم اقلیت ہیں۔ دراصل ملک
کی دیگر اقلیتیں یعنی سکھ، عیسائی ، پارسی ، بودھ اور جین نے اپنے معاشرتی ترجیحات
کے خطوط مرتب کررکھے ہیں او ران خطوط میں اولیت تعلیم ہے جب کہ مسلم اقلیت نے اپنے
معاشرتی ترجیجات میں تعلیم کو پس پشت ڈال رکررکھا ہے۔ ہماری پسماندگی کا خلاصہ
خواہ سچر کمیٹی ہو یا جسٹس مشرا کمیشن میں عیاں ہوتا رہتاہے او رہم اپنی پسماندگی
کا سارا ٹھیکرا حکومت کے سر پھوڑ تے رہتے ہیں۔جب کہ دیگر اقلیتوں نے اپنی ترجیحات
میں نہ صرف تعلیم کو اولیت دی ہے بلکہ قومی سطح پر ان کے تعلیمی اداروں کی شناخت
ایک معیاری اور عصری تقاضوں سے لیس اداروں کے طو رپر ہوتی ہے۔ جب کہ مسلم اقلیت کے
تعلیمی اداروں کی فہرست دیکھ کر نہ صرف مایوسی ہوتی ہے بلکہ ان کے معیار ووقار پر
بھی رونا آتاہے۔ البتہ حالیہ دوتین دہائیوں میں جنوبی ہند کی مسلم اقلیت نے اس
شعبے میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں لیکن شمالی ہند کی حالت بدتر سے بدتر ہے
۔بالخصوص بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، راجستھان ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش ،چھتیں گڑھ
اور اڑیسہ میں ہمارے حصے میں کیا کچھ ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ہمارے معاشرے میں نہ
جانے کب سے یہ مفروضہ عام ہوگیا کہ تعلیم کو دینی او ردنیاوی تعلیم میں منقسم
کردیا گیا جب کہ تعلیم غیر منقسم حقیقت ہے اوراسلام نے کبھی بھی تعلیم کو دنیا وی
اور دینی تعلیم کا تصور نہیں دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا ‘‘
الطبوالعلم ولو بالصین’’ یعنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اگر چین جانا پڑے تو جاؤ
۔ظاہر ہے کہ اس وقت چین میں قرآن وحدیث کی تعلیم نہیں ہورہی تھی بلکہ جدید تکنیکی
تعلیم کے لئے چین مشہور تھا اور صنعت وترفت میں اس کا بول بالا تھا۔تاریخ کے اوراق
شاہد ہیں کہ ہمارے مدارس کے فارغین نے منطق ،فلسفہ ، لسانیات، حکمت او رطب جیسے
شعبے میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ
حالیہ برسوں میں تعلیم کے تئیں مسلم معاشرے میں قدرے بیداری آئی ہے مگر منزل ابھی
بہت دور ہے۔ملک کی دیگر اقلیتوں کے مقابلے مسلم اقلیت تعلیم کے شعبے میں اپنی
موجودگی کا احساس کرانے میں ناکام ہے۔حال ہی میں مجھے ایک خاص مقصد کے تحت شمالی
بہار کے سیمانچل جن میں مسلم اکثریت والے اضلاع ارریہ، پورنیہ، کشن گنج ، کٹیہار
اور سوپول کے دورہ کرنے کا موقع ملا او ر لوگ باگ سے گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ان
مسلم اکثریت والے اضلاع میں آبادی کے لحاظ سے تعلیمی اداروں کا بڑا فقدان ہے۔
البتہ کشن گنج میں توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ نے اپنی کوششوں سے ایک بڑا تعلیمی کیمپس
بنایا ہے جس میں لڑکوں او رلڑکیوں کے لئے الگ الگ مدارس ،پرائمری اسکول، ہائی
اسکول کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لئے کالج بھی قائم کررہے ہیں بلکہ انہوں نے ایک
پرائیویٹ یونیورسٹی بنام ‘‘امام بخاری یونیورسٹی’’ بھی قائم کی ہے۔ اس ٹرسٹ کے روح
رواں ڈاکٹر مطیع الرحمن کی ہمت کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے آندھیوں کے زور پر
چراغ جلانے کا کام کیا ہے۔کشن گنج جیسے مسلم اکثریت والے ضلع میں ایک ہی کیمپس میں
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کو پورا کرنے والے تکنیکی ادارے بھی قائم کئے
ہیں او ریونیورسٹی بنانے کا جوان کا خواب ہے وہ بھی پورا ہونے والا ہے۔ دوسرا ایک
ادارہ مظفر پور ضلع کے سگھہری رام پور میں مدرسہ دارالملت ہے جس کے احاطے میں دینی
تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری نصابوں کی تعلیم بھی دی جارہی ہے او ر سوطلبہ کے لئے
حکومت بہار کی جانب سے ہاسٹل تعمیر ہوا ہے۔گزشتہ دنوں وہاں امتیاز احمد کریمی کی
کوششوں سے سہ روزہ تعلیمی اجلاس منعقد ہوا جس میں مدارس کے اساتذہ کے لئے تربیتی
پروگرام کا بھی اہتمام تھا جس میں امیر شریعت بہار، جھارکھنڈ واڑیسہ حضرت مولانا
احمد ولی فیصل رحمانی نے نہ صرف شرکت کی بلکہ تربیتی پروگرام میں دینی تعلیم کو
معیاری بنانے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کو بھی اپنانے کی وکالت کی۔ظاہر ہے کہ
مولانا رحمانی عصری علوم بالخصوص کمپیوٹر سائنس کے ماہر ہیں ۔لہٰذا انہوں نے اس
اجلاس میں اس بات کی تلقین کی کہ ہمارے تعلیمی اداروں کو معیاری تعلیمی ادارہ
بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
مختصر یہ کہ شمالی ہند
میں اقلیت طبقے کو تعلیم کے تئیں نہ صرف سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے بلکہ تقاضہ عہد
کے مطابق اپنے تعلیمی اداروں کو معیار ووقار کے لحاظ سے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے بغیر اس دور عالمیت میں ہماری شناخت مستحکم نہیں ہوسکتی او رہمارے معاشرے کی
تصویر وتقدیر نہیں بدل سکتی۔
24دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism