New Age Islam
Sun May 18 2025, 07:36 PM

Urdu Section ( 29 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Constitution and Shariat آئین اور شریعت

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

26 جولائی،2024

ہندوستان آئین کی رو سے ایک سیکولر ریاست ہے جس کا اپنا کوئی مذہب نہیں! اس آئینی موقف کی دستاویزی حیثیت ہے اس سے رسمی طور پر انکار یا انحراف کسی کے لئے ممکن ہی نہیں تا وقت یہ کہ آئین ہی تبدیل کردیا جائے؟ البتہ حقیقت کے آئینے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کسی بھی امور مملکت میں معاملات اور فیصلوں میں اکثریت کی نفسیات، ترجیحات اور توقعات فطری طور پر غالب رہتی ہیں۔ جمہوریت کی تو خفی تعریف ہی یہ ہے!

نوآباد یاتی نظام میں مٹھی بھر قابض اکثریت اپنی چلاتی تھی جو اب ممکن نہیں!

آج کے ماحول میں چوطرفہ اکثریت کی جارحانہ بالادستی نظر آتی ہے اب تونرم اور سخت ہندوتو کی ظاہری مقابلہ آرائی رہ گئی ہے۔ یہ بھرم بھی کب ٹوٹ جائے کوئی نہیں جانتا؟ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو معاملہ فہمی او رٹکراؤ سے بچ کر تو کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔ راست تصادم، مخالفت ومخاصمت کے راستے میں یکطرفہ خسارہ یقینی ہے! نہ بھولیں کہ جمہوریت میں ووٹ کا مساوی حق ہونے کے باوجود بھی ہر جنگ اکثریت ہیسر کرتی ہے!

آخری کتاب آسمانی القرآن الحکیم ہے اب نہ کوئی کتاب نازل ہوگی او رنہ ہی کسی نبیؐ ورسولؐ کی بعثت! اللہ رب العزت نے اسلام کی نعمت بنی نو انسان کو عطا کرکے اپنے انعام کو انتہا بخش دی! مکمل وغیر مشروط اتباع دین عین فریضہ قرار پایا۔ اس  طرح عقیدہ او راس کے تقاضے واضح ہوگئے۔ دوسری بات اسلام کی عمل داری سے تعلق رکھتی ہے۔ اسلامی ریاست میں یہ فریضہ حکمراں طبقے کاہے، سیکولر ریاست میں جتنا آئین اور معاشرت گنجائش دے اتنے پر حکمت ومصلحت کے ساتھ عمل کرلیں بقیہ نجی طور پر اپنے عقیدے کو درست رکھیں۔

سوویت یونین کی 25فیصد مسلم آبادی نے 1917 سے 1991 تک ایسا ہی کیا۔ آج چین میں بھی کچھ اسی طرح کی ملی جلی کیفیت ہے۔مغربی دنیا جہاں ان کے اپنے کامن سول کوڈ نافذ ہیں وہاں مسلمان شہریت کے زیادہ خواہشمند ہیں!

تمام مسالک کو اگر کہیں پناہ اور آزادی سے پر امن ماحول میں متضاد ومتصادم مسلکی سرگرمیاں چلانے کی اجازت ہے تویہاں ہے، دین اسلام کی تبلیغ کا مرکز ہندوستان ایک ہندو اکثریتی ریاست ہے، اظہار رائے کی جو آزادی یہاں ہے اس کی کوئی نظیر دنیا ئے اسلام میں کہیں نہیں ملتی! اسلام کے نام پر قائم ریاست کا حشر سامنے ہے!

کئی مسلم ریاستوں میں فحاشی کی کھلی اجازت ہے، داڑھی پر پابندی ہے، نکاح سرکار کی اجازت کے بعد اور قریبی رشتوں میں نکاح ممکن نہیں وغیرہ وغیرہ۔ حاکم وقت خدا بنے ہوئے ہیں لیکن مجھے اور آپ کو یہاں خلافت چاہئے۔ ہوش کے ناخون لیں، جتنا ملاہواہے اس کی تقابلی سمجھ پیدا کرتے ہوئے موجود ہے اسے بچائیے، ہر جگہ قرآن وشریعت کو بیچ میں نہ لائیے، عدالتی فیصلوں پر خداراسوال اٹھانا بند کریں ورنہ یہ فتنہ کہاں تک چلاجائے گا میں کہنانہیں چاہتا! مخصوص نفسیات سب جگہ سراعت کرچکی ہے!

عقیدے کاہر پہلو حکمت عملی کا طالب ہے! فاسق ادھر ادھر جھانکتا ہے جب کہ مومن اپنا اساس کی بقا خاموش حکمت عملی سے یقینی بناتاہے۔عبادت تشہیر نہیں بلکہ اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ عدلیہ کے مسلم امور سے متعلق فیصلوں کو کبھی تسلیم او رکبھی منظور کا رویہ اسکولوں، کالجوں میں پڑھنے والے بچوں، مخلوط بستیوں میں رہنے والوں،ملازمت کرنے والوں، کاروباری لوگوں، سڑک پر سامان بیچنے والوں کے لئے پہاڑ سا سوال بنتا جارہاہے”تم دستور کو نہیں مانتے،اسلامی قانون لانا چاہتے ہو، وندے ماترم تم نہیں گاتے، بھارت ماتا کی جے کہنے میں تمہیں دقت ہے‘‘ آپ کی اپنی تاویلیں اپنی جگہ مگر اکثریتی نفسیات! اس مزاج نے ہندوستان کے مسلمانوں کو کہاں لاکھڑا کردیاہے؟

آپ مسئلہ اٹھاتے ہیں نہ خود حل کرپاتے ہیں، نہ کرواپاتے ہیں، نہ اس کے حق میں حلیف جٹاپاتے ہیں بس پوری قوم کو دلدل میں دھنسا تے جارہے ہیں۔ یہی زمینی حقیقت ہے! کہاتو جائیگا؟ مجھے بتائیے کس مسلم ریاست میں کس دھرم کی تبلیغ ودعوت کی اجازت ہے؟ یہ اس قوم کاہی گروہ ہے جس نے اسلام اور مسلمان سے اپنے رشتے کی شروعات 1400 برس پہلے خود تین مسجد یں گجرات، کیرالہ اور تامل ناڈو میں تعمیر کروا کر کی۔ اس خطے میں 65کروڑ مسلم آبادی ہے جو لگ بھگ کنورٹ ہے! معاملہ فہمی کاتقاضہ حکمت ہوتا ہے جس پر وعظ بہت ہے مگر عمل۔۔۔۔

شریعت کا تعلق 99 فیصد معاملات میں آئین سے ہے جو شرعی بنیاد پر نہیں بناہے وہ سیکولر آئین ہے جس کو اس وقت کے علماء جو آج کے بالمقابل کہیں زیادہ علمیت، فہم اور ادراک پر قدرت ومہارت رکھتے تھے انہوں نے اس کو تسلیم کیا اور دستخط کئے۔محض ایک ڈائریکٹو پرنسپل میں کامن سول کوڈ کو قومی ہدف تسلیم کرتے ہوئے عارضی طور پر شادی، طلاق، وراثت، گود اور نان نفقہ جیسے مضامین کو ہر مذہبی وحدت پر چھوڑ دیا۔ البتہ ریاست کی ذمہ داری یکساں سول کوڈ کے حوالے سے فریقین کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرکے اس ہدف کو حاصل کرنے کی لگائی گئی ہے۔

مسلم قیادت کبھی کہتی ہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کے پابند ہیں کبھی نہیں! پتہ نہیں کون اس کو یہ سمجھا دیتا ہے کہ ہر مسلم امور سے متعلق فیصلہ شریعت اسلامی کے تحت ہوگا پھر جب فیصلہ دیگر آتاہے تو آپ کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔یہ شریعت میں مداخلت ہے! اس طرح ہم من حیثیت القوم مستقل یکے بعد دیگرے کچھ نہ کچھ کھوتے اور گنواتے ہی آرہے ہیں اب ضرورت ہے کہ اس سلسلے کو تھاما کیسے جائے اس پر غور کیجئے؟

بدگمانیوں سے باہر آئیے اور حقیقت خود بھی سمجھئے اور قوم کو بھی سمجھائیے! کوئی کچھ بھی کہتارہے، کتنے ہی حوالے دیتا رہے زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اب بھارت بن چکاہے جس کا سیدھا پیغام یہ ہے کہ یہ ہندو اکثریتی قومی وحدت ہے، اس ملک کا قومی دھرم سناتن ہے، وید، گیتا، رامائن، مہابھارت، منواسمرتی اس راشٹر کے ’قومی گرنتھ‘ ہیں اور سناتن /دراوڑ یہاں کی اصل سنسکرتی ہیں۔ میں نے 1998میں جو آج آپ دیکھ رہے ہیں سب لکھ دیا تھا۔ اس دور کے تمام بڑے ارد و اخبار ات بطور ریکارڈ موجود ہیں، ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔آج پھر لکھ رہاہوں۔

اب ہندوستان جس طرح چل پڑاہے اس میں سیکولر سیاسی جماعتوں او ران کی دی جانے والی مسلم نمائندگی کاجائزہ بھی لے لیجئے تاکہ میری بات میں کتنا دم ہے اس کااندازہ ہوجائے؟آپ تو انڈیا الائنس کی 234 او ربی جے پی کی 240 میں کہیں اپنی جیت اور آئندہ خلافت کا خواب لے کر بیٹھے ہیں میں توکل کچھ اور ہی دیکھ رہا ہوں 2019 میں کانگریس نے 36مسلم لوک سبھا میں اپنے امیدوار میدان میں اتارے جب کہ 2024 میں 19،ممتا بنرجی نے اس ریاست میں جس میں 30 فیصد مسلم آبادی ہے جس کا کم از کم 90 فیصد مسلم ووٹ ان کی جماعت ترنمول کانگریس کو ملتاہے۔ اس نے 2019 میں 13 کو امیدوار بنایا تھا اس بار صرف 6 کو! سماجوادی پارٹی جس کی سیاست میں مسلم ریڑھ کی ہڈی ہے اس نے 2019 میں 8مسلم کو ٹکٹ دیئے۔ اس بار صرف 4!2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی 14فیصدی آبادی مسلم ہے۔ اس تناسب سے 75 مسلم لوک سبھا میں اراکین ہونے چاہئیں مگر صرف 24میں لوک سبھا کی 543 میں محض 4ء4 فیصد ہے۔2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ”سیکولر سیاسی جماعتوں“ نے 115 مسلم امیدوار میدان میں اتارے جنکی اس مرتبہ تعداد گھٹ کر 78رہ گئی۔کتنی ریاستوں سے ایک بھی مسلم نمائندہ نہیں!

مسلمانان ہند نے ہمیشہ اکثریتی فرقے میں اپنی قیادت تلاش کی،اسی کو طاقت دی، مذہب سے اوپر اٹھ کر ہندو امیدوار وں کو ہر دور میں جم کر جتایا مگر مسلم امیدوار وں کو اس تناسب سے ہندوووٹ کبھی نہیں ملا آج تو ٹکٹ ہی ملنا محال ہے تو آگے کی بات ہی کیا کریں؟ 2019 میں مسلم امیدوار کی تعداد 115 سے 2024 میں محض 78 رہ گئی۔دلیل یہ ہے کہ اگر آپ کو زیادہ ٹکٹ دیئے تو ہندو سیکولر وو ٹ بھی ہمیں نہیں ملے گا۔ بھاجپا پر آپ کا ایک موقف ہے!

اب وطن عزیز کے مزاج میں کچھ ایسی بنیادی تبدیلیاں آچکی ہیں جن کے پس منظر میں راست یا بالواسطہ مسلمانان ہند کی بنیادی اکائیوں کو چھیڑا جانا ممکن بن گیاہے۔ان کی مذہبی، تعلیمی،ثقافتی اور ادارہ جاتی تعمیری سرگرمیاں اس گرفت میں ہیں۔ مدارس اور خانقاہیں بھی نشانے پر ہیں۔ آئین اور شریعت راست تصادم او رٹکراؤ میں آچکے ہیں۔ تصور کریں کن جملوں سے آج ہمارا سامناہے؟ ملک کے پہلے کہ مذہب! آئین پہلے کہ اسلام! دیش پہلے کے دھرم! یہ تمام سوالات اکثریتی طبقے کے بچے بچے کی رگوں میں پیوست ہوچکے اور گھر گھر میں عام ہیں۔

26جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/constitution-shariat/d/132815

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..