ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
30نومبر،2023
یہ ہرکوئی جانتا ہے کہ
اسلام کائنات میں حقیقی امن کا خواستگار ہے۔ اس کے باوجود مستشرقین بے سرپیر کی
باتیں کرتے ہیں او ردین اسلام پر اعتراضات کررہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے ان کے
توسل سے جو شکوک وشبہات سماج میں پیدا ہورہے ہیں ان کے ازالہ کے لیے اہل عالم وفضل
اور ارباب دانش وبینش نے بھی پیہم کاوشیں کی ہیں۔ اسی حوالے سے ایک تازہ
تصنیف،اسلام: اہل مغرب کی نظر میں، کے عنوان پر معروف اسکالر پروفیسر عبدالرحیم
قدوائی کی آئی ہے، اس کو ترتیب مولانا رفیق احمد رئیس سلفی نے دیا ہے۔ اس کتاب میں
قرآن مجید، سیر، طیبہ اور انگریزی ادب کے حوالے سے مغربی فضلاء کی تصانیف کا تجزیہ
پیش کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات عرض کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ آج پوری دنیا میں
آزادی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اظہاررائے کی حریت کے نام پر معاشرتی وتہذیبی
او ر دینی اقدار کو پامال کرتے ہیں۔
مغرب میں تو یہ سلسلہ بہت
عام ہوچکاہے افسوس یہ ہے کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں بھی اب اس طرح کی باتیں
ہورہی ہیں۔جب کہ ہم اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ اظہاررائے کی آزادی اور حرہت
کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی بھی دین ودھرم اور عقیدہ ونظر یہ پر چوٹ کی جائے اس
کے جذبات واحساسات کو مشتعل کیا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ اس گیتئی ہستی میں ہورہا ہے۔
یقینا ان عوامل او ر محرکات سے نہ صرف انسانی رشتوں اور سماجی بہبود پرآنچ آرہی ہے
بلکہ قومیں اور معاشرے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آرہے ہیں۔اس لیے اظہاررائے
کی حریت کے نام پر ہمیں کسی کو کسی بھی نوعیت سے آزاد وتکلیف نہیں پہنچانی چاہئے۔
اسلام: اہل مغرب کی نظرمیں، کے مرتب مولانا رفیق احمد رئیس سلفی لکھتے ہیں:”مغرب
کے ماہرین اسلامیات ایک طویل عرصے سے اظہاررائے کی آزادی،معروضی مطالعہ اور
آزادانہ تحقیق کے نام پر قرآن مجید، سیر طیبہ اور اسلام کی دیگر تعلیمات کے تعلق
سے جو کچھ لکھ رہے ہیں، اس سے دنیا میں مسلمانوں کی تصویر بری طرح مسخ ہورہی ہے،
انہیں انسانیت کا دشمن اور تمام اعلیٰ انسانی اقدار سے عاری بتایا جارہا ہے۔
عورتوں کے سلسلے میں کتاب و سنت کی جملہ تعلیمات کو نظر انداز کرکے یہ جتانے کی
کوشش کی جارہی ہے کہ ایک عورت کی زندگی نہ صرف اجیرن بنی ہوئی ہے بلکہ وہ ذلت
واذیت سے دوچار ہے۔ ان تمام حرکات شنیع کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کو دشمن انسانیت
بتا کر ان کے خلاف ہر کارروائی کو جائز قرار دیا جائے اور دنیا کو یہ یقین دلایا
جائے کہ اسلام او رمسلمانوں کے خلا ہر قسم کے اقدامات انسانیت کی خدمت اور اس کی
مسیحائی ہے“۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس وقت جو کچھ عالمی سطح پر ہورہاہے وہ
اسی متعصب اور جانب دار نظریہ کی دین ہے۔ مستشرقین نے اپنی تحریروں او رکتابوں میں
اسلام کا جو آدھا ادھورا یا منفی تصور پیش کیا بیشتر لوگوں نے است سچ جان لیا اور
اسلام کے خلاف باریں بنانے لگے۔
بہر حال مستشرقین کی یہ
دانستہ سازش ہے جسے ہمارے فضلاء اور اصحاب علم ونظرکو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر
عبدالرحیم قدوائی نے عزم مصمم کیا ہے کہ مستشرقین اسلام ومسلمانوں کے خلاف علم
ودانش او ربحث و تحقیق کے نام پر جو بھی مذموم سعی کریں گے اس کا پوری دیانت داری
اور علمی طور پر رد کیا جائے۔ افسوس اس بات کاہے کہ آج ہمارے حلقوں میں علم وتحقیق
کے نام پر جو ادارے چل رہے ہیں یا پھر جو سرمایہ منصہ شہود پر آرہاہے اس میں مسلکی
رجحان غالب ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ان میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ارباب
مدارس یا دینی تعلیمی ادارے مستشرقین کی حرکتوں اور ان کی علمی وتحقیقی خیانتوں سے
واقف نہیں ہیں۔ جس زبان میں مستشرقین کام کرتے ہیں اس زبان سے ہمارے مدارس عموماً
واقف نہیں ہیں ان تمام وجوہات کی بناء پر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ
ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہمارے پاس آج کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جو
منظم ومرتب طور پر اسلام پر اعتراضات کا ازالہ کررہاہو۔جب کہ دعوتی تبلیغی تناظر
میں بھی ضروری ہے کہ اسلام پر اٹھنے والے
اعتراضات کا رد کیا جائے تاکہ اسلام پوری طرح صاف رہے۔بناء بریں ضرورت اس بات کی
ہے کہ ہمیں اس جانب توجہ مبذول کرنی چاہئے۔
پروفیسر عبدالرحیم قدوائی
کی کتاب اسلام: اہل مغرب کی نظر میں،مطالعہ کرنے کے بعد انداز ہ ہوتاہے کہ
مستشرقین نے اسلامی اقدار کو بری طرح داغ دار کیا ہے۔ ان کے مزعومات نہایت خطرناک
ہیں۔ یہ کتاب ان کی ریشہ دوانیوں سے پوری طرح پردہ اٹھاتی ہے۔اسی طرح بعض مغربی
مفکرین متوازن اور معتدل بھی رہے ہیں انہوں نے اسلام کی ہر طرح کے تعصب سے اوپر
اٹھ کر سمجھنے کی سعی کی ہے مورس بکاولی وغیرہ اس کی واضح مثال ہے۔ آج کا جو علمی
وتحقیقی منظر نامہ ہے اس کے اندر توسع اور اعتدال کم نظر آتاہے، تقریباً ہر ایک
کہیں نہ کہیں وابستہ ہے اسی تناظر میں وہ چیز وں اور مسائل کو سمجھنے کی کاوش
کرتاہے چنانچہ استشراق باقاعدہ ایک تحریک ہے اس سے جو بھی وابستہ ہوتاہے وہ اسلام
کو اسی چشمہ سے دیکھتا جس سے اسے اس کے اکابر دیکھنے کے لیے کہہ گئے ہیں۔ اس لیے
یہ کتاب یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ آج ارباب تحقیق کو اپنے علمی کارناموں میں اعتدال
وتوازن اختیار کرنا چاہئے،حق کا برملا اعتراف ہونا چاہئے خواہ وہ متوازن تحقیق
ہمارے اپنے نظریات اور فکر وعمل کے متضاد ہی کیوں نہ ہو۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی
علمی وادبی ہم آہنگی اورمعاشرتی وسماجی تعدد کے بھی حامی ہیں اس لیے وہ کتاب کے
پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں۔ دیگر مذاہب کے پیروؤں کا ہمارے بارے میں کیا تاثر ہے،
ان کی اسلام فہمی کی سطح کیا ہے، ان کے اہداف کیاہیں، ان کے مطالبات کے اغراض
ومقاصد اور اثرات کیا ہیں، یہ خود احتسابی کے لیے ایک آئینہ ہے۔
نوجوان مسلم طلبا ء اور
محققین کو اس ضمن میں ریاضت کی ضرورت ہے اور ایسے علمی منصوبوں میں شرکت لازم ہے
جو بین مذہبی او ربین ثقافتی افہام اور تفہیم میں ممدہوں او رجو بنی نوع انسانی
میں باہمی یگانگت اور احترام کو فروغ دیں، اس طرح ایک پرمسرت دنیا میں امن و آشتی
کے ساتھ ہم سب زندگی بسر کریں گے۔قرآن مجید مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب کے اکرام
کو تسلیم کرتاہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے تعصبات،مزعومات اور تحفظات کو ترک
کریں اور ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں مشغول ہوں۔
30 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism