New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 04:13 PM

Urdu Section ( 18 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Need To Connect Islamic Literature With Contemporary Demands اسلامی لٹریچر کو عصری تقاضوں سے مربوط کرنے کی ضرورت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

18 جون 2025

قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ شواہد وحقائق تو یہ بتاتے ہیں کہ قومیں اور معاشرے وہی زندہ رہتے ہیں جن کے کارنامے مثبت اور تعمیری ہوتے ہیں۔ انسانی فلاح و بہبود جن کا شیوہ ہوتا ہے۔ جو معاشرے اپنے تحقیقی فن اور تخلیقی کارناموں میں یا مذہبی ورثہ کی ترویج واشاعت کے وقت جدید تقاضوں اور عصری اسلوب وہم آہنگ کو مدنظر رکھتے ہیں ایسے معاشرے زندہ رہتے ہیں اور ان کا تخلیق کردہ  ادب و لٹریچر بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے لٹریچر کی پہچان ہوتی ہے ، لوگ خود بخود اس سے جوڑتے جاتے ہیں۔ کیوں کہ ایسا لٹریچر ذہنوں کو اپیل کرتا ہے۔ دلوں کو متاثر کرتاہے ۔ آ ج ہمارے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی لٹریچر کی تدوین وترتیب کا کیا منہج و اسلوب اختیار کیا جائے۔ یوں تو اسلامی لٹریچر کے تمام شعبوں میں بے شمار تصنیفات وتالیفات ہیں، سیرت ، قرآن، حدیث ، فقہ ،تاریخ اسلام ، تاریخ مسلم وغیرہ پر لاکھوں کتب موجود ہیں ان کی اپنی جگہ اہمیت وافادیت ہے۔ لیکن سر دست سوال یہ ہے کہ موجودہ دور کے جو تقاضے اور ضروریات ہیں کیا موجودہ اسلامی لٹریچر سے ہم ان کو پورا کررہے ہیں یا نہیں؟ جبکہ ہمارے مذہبی ودینی ورثہ میں ان گنت ایسے دلائل و براہین موجود ہیں جو عصری تقاضوں کی تکمیل میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔  اس لیے لازمی طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ہم اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کے لیے ایسے مسائل و مباحث پر گفتگو کریں اور ایسے موضوعات پر قلم اٹھائیں جن سے عہد حاضر کی جملہ ضروریات کا احاطہ ہوسکے۔ نئی نسل کو راست رہنمائی مل سکے۔ آ ج ہم نے غیروں سے زیادہ خود اپنی تاریخ و تہذیب اور روشن روایات وتعلیمات کو مخدوش کیا ہے۔ ہمارے آ ج کے تصنیفی کارناموں یا اسلامی موضوعات پر لکھی گئیں تحریروں کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام جو ایک آ فاقی اور عالمگیر دین ہے وہ کسی محدود پیرائے کے لے ہے۔ اسی طرح سیرت وتاریخ کے موضوعات پر کتب پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام صرف جنگ کرنے آ یا ہے۔ یقین جانیے ان چیزوں سے عالمی سطح پر جو نظریہ اور فکر قائم ہوتی ہے اس سے معاشرے میں منفی اثر قائم ہوتا ہے ۔ یقینی طور پر اس نظریہ سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مصنفین و محققین اور اسکالرس کو ان اسالیب و نظریات پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے معاشرے میں بقائے باہم اور رواداری کی فضا ہموار ہوسکے۔ یاد رکھئے ہمارے پاس پورا نظام  موجود ہے۔ اس میں عدل وانصاف، بقائے باہم، رواداری، اکرام واحترام  کرنے کی واضح ہدایات و ارشادات موجود ہیں ۔ نیز اسلام نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ نوع انسانی کی  ایسے خطوط پر رہنمائی کی کہ آ پ دنیا کی کسی بھی کمیونٹی میں رہیں، حاکم ہوں یا محکوم ہر طرح سے متوازن اور معتدل  رہیں۔ انسانی حقوق اور سماجی رابطوں اور تکثیری سماج کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے پر امن زندگی گزاریں۔ اس کے باوجود بھی ہمارے رویے میں کجی ہے ۔ انسانی رشتوں کو مضبوط کرنے اور انسانیت کی بقاؤ وسلامتی کے لیے مل جل کر کاوش کرنے کی ضرورت ہے۔

چنانچہ یہ سب جانتے ہیں کہ آ ج کے حالات کا جو تقاضا ہے وہ اب سے پہلے نہیں تھا یا مستقبل میں جو چیزیں در پیش ہونگی وہ اب نہیں ہیں۔ اس لیے ضرورت  کے تحت خود کو علمی و فکری طور پرمسلح کرنے کے ساتھ ساتھ اب اسلامی لٹریچر کے شاندار ذخیرہ میں سے ان چیزوں کو عام کرنے اور ترویج واشاعت کرنے کی ضرورت ہے جن سے معترضین کے اعتراضات کا علمی طور پر جواب بھی مل جایے اور وقت و حالات کے تقاضے بھی پورے ہوسکیں۔ اب ذرا ماضی پر نگاہ ڈالیے اور عصر حاضر کو دیکھیے اور پھر موازنہ کرنے کے بعد بتایے کہ اب جو سوالات اور جو چیلیجیز ہیں ان کی اپنی حقیقت اور سچائی ہے۔ اس لیے دانشمند قومیں کبھی بھی صداقت اور حقائق سے پہلو تہی نہیں کرتی ہیں بلکہ ان کا مشن اور منصوبہ ہوتا ہے کہ زمانے کے جدید تقاضوں کو جن کی ضرورت ہے ان کو اختیار کیا جائے اور اگر کوئی قابل اعتراض بات ہے تو پھر اس کا معقول انداز میں رد کرنا چاہیے۔ حقائق کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ ان کا عقلی اور نقلی طور پر دفاع کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مسلم کمیونٹی کے پاس وہ اصول و روایات موجود ہیں جن کی اتباع کرکے معاشرے کو پر اعتماد بنایا جاسکتا ہے۔ اب پوری دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ معاشرتی اور سماجی سطح پر چیزوں کو الگ زاویے اور نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ایسے میں علماء، خطباء، مصنفین اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہایت سنجیدگی سے چیزوں کا ادراک کر کے آ گے بڑھیں۔ کہیں خطاب کرنے، کوئی تحریر قلمبند کرنے اسی طرح کوئی نظریہ یا رائے پیش کر نے سے قبل دوہرانا بہت ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوجایے جو معاشرے میں کسی بھی طرح کی بد امنی یا بدعنوانی پھیلادے۔ جبکہ یہ سچ ہے کہ آ ج ہماری نظروں سے ایسی بہت سی تحریریں، بیانات اور غیر سنجیدہ آ راء  گزرتی رہتی ہیں جو بہت حدتک  سماج میں منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ سماج کو خطرہ صرف چور اچکوں اور بد معاشوں سے ہی نہیں ہے بلکہ ایسی تحریروں اور بیانات سے زیادہ ہے ۔

 آ خر میں یہ بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آ ج ہمارے تعلیمی اداروں، تحقیقی مراکز میں اسلام یا دین ودھرم کے نام پر جو لٹریچر تیار کیا جارہاہے ، اسی طرح واعظین معاشرے کی اصلاح و تربیت کے نام پر جو خطبات دے رہے ہیں  اور کسی بھی مفکر ومدبر کی رائے سے ،معاشرے کے تقاضوں کی تکمیل ہوپا رہی ہے یا ابھی  ہماری اصل ضرورت باقی ہیں یہ سوال ہر حساس فرد کے ذہن میں رہنا چاہیے۔

اگر جواب مثبت ہے تو پھر مزید اس میں نکھار پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اپنے منہج واسلوب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے۔ اس وقت سماج کو ایجابی طور پر آ گے بڑھانے اور اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے پراگندہ سوالوں کا مسکت جواب دینا بہت ضروری ہے۔

 تحریر تحریر ہوتی ہے خواہ وہ مثبت اسالیب سے آ راستہ ہو یا منفی نظریات سے ، اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن پائدار  ادب و لٹریچر وہی ہوتا ہے جو انسانیت کی فکر میں واقع خلل وخلجان کو زائل کر سکے اور اس کو مجموعی طور راہ راست پر لے آ ئے۔  خاص طور پر اسلامی علوم و معارف پر لکھنے، بولنے اور سمجھنے والوں کو اپنے ہر ہر لفظ پر غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/connect-islamic-literature-contemporary-demands/d/135902

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..