New Age Islam
Wed Nov 19 2025, 12:59 PM

Urdu Section ( 27 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

No Concern for Urdu, Yet a Desire for Reward اردو کی فکر نہیں، مگر انعام کی خواہش ہے

شمیم طارق

25اکتوبر،2025

تین چار ماہ پہلے مہاراشٹر میں ہندی کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش ہوئی تھی مگر وزیراعلیٰ دیویندرفرنویس نے یہ بیان دے کرکہ سہ لسانی فارمولہ نئی ایجوکیشن پالیسی کاحصہ ہے او رمہاراشٹر ا س سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتا، پورے تنازع کوختم کردیا تھا۔ اس کے بعد خبر آئی کہ جون 2025ء سے ریاست مہارشٹر کے سیکڑوں آشرم اسکول تدریسی عملے یعنی اساتذہ کے بغیر کام کرہے ہیں جس سے قبائل (آدیباسیوں) سے تعلق رکھنے والے طلباء کی تعلیم بری طرح متاثر ہورہی ہے۔بعض قبائلی علاقوں میں تو والدین اپنے بچوں کو اپنے ساتھ واپس لے گئے ہیں اور اسکولوں میں تالا ڈال دیا گیا ہے کیونکہ وہاں یا ان اسکولوں میں اساتذہ او رمعاونین نہیں ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 229/ ہائر سیکنڈری، 455 / سکینڈری، 8090 / مراٹھی پرائمری اور انگلش اسکولوں میں متعدد آسامیاں یعنی اساتذہ او رمعاوین کی تقرریاں نہیں کی گئی ہیں۔ 4اکتوبر 2025 ء کی ایک خبر نے جو روزنامہ نوبھارت میں شائع ہوئی ہے مطلع کیاہے کہ 394/ اسکولوں میں ایک بھی طالب علم نہیں ہے۔ دوسری تفصیلات کے ذریعہ ریاست مہاراشٹر میں تعلیمی صورتحال پر سوال اٹھاتے ہوئے UDISE یعنی یونیفائڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کے دس ہزار اسکولوں میں 10/ سے کم طلبہ ہیں۔ 52573/ اسکولوں میں 11 / سے 100 /طلبا ہیں، ریاست میں 21186943 /طلبا کا داخلہ کیلئے اندراج کیا گیا ہے جو اگرچہ پچھلے سال کے مقابلے تقریباً 7/ہزار زیادہ ہے مگر 5/لاکھ طلباء کے ناموں کا اندراج چونکہ ادھورا ہے اس لے داخلے کی تعداد کو اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔عبرتناک بات یہ ہے کہ پونے کے 37/اسکولوں میں ایک بھی طالب علم نے داخلہ نہیں لیاہے۔ اسی رتناگیر ی میں 24، ممبئی میں 5، ناگپور میں 19، تھانے میں 15، رائے گڑھ میں 12/اسکول ایسے ہیں جہاں ایک بھی طالب علم نہیں ہے۔دیہی علاقوں میں طلباء کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔

اُردو اسکولوں میں بھی اساتذہ کی تقرری نہیں کی جارہی ہے مگر ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ ایس ٹی اور اوبی سی کی جگہ جنرل کیٹیگری کے امیدوار وں کی تقرری کومنظوری دی گئی ہے جس سے اردو اساتذہ کی تقرریوں کا راستہ صاف ہواہے۔ یہ بھی اچھی خبر ہے کہ برطانیہ کی 9 / یونیورسٹیاں ہندوستان میں اپنے کیمپس کھول رہی ہیں۔ان تفصیلات سے ظاہر ہورہاہے کہ ملک میں بنیادی یا ابتدائی تعلیم کا ڈھانچہ بری طرح چر مرا رہا ہے۔ استثنائی صورتوں کے علاوہ اردو تعلیم کا معاملہ تونیچے سے اوپر تک بگڑا ہوا ہے۔ اچھے اساتذہ کے وجود سے ہمیں انکار نہیں مگر یونیورسٹی کی سطح پربھی ایسے اساتذہ اردو پڑھارہے ہیں جو پرائمری کے طلباء کو پڑھانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اردو نہ جاننے والوں کو اردو کی طرف راغب کرنے کی فکر تو کسی کونہیں ہے۔ اسکے باوجود ’سرُ نہ تال مگر دعویٰ ہے کہ تان سین کے وطن کے ہیں“ کے مصداق بہتوں کی خواہش ہے کہ ان کو اردو ادب یا اکیڈمی کے انعام یا عہدے سے نوازا جائے۔ سابق وزیر نواب ملک صاحب نے اردو اکیڈمی کے حالیہ جلسے میں اچھی بات کہی کہ سیکڑوں لوگ ان کے پاس آئے کہ انہیں اردو اکیڈمی کارکن یا وائس چیئرمین بنایا جائے مگر وہ قسطنطنیہ بھی نہیں لکھ سکے۔ جو بات انہوں نے نہیں کہی مگر بیشتر افراد جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اردو اکیڈمی کا سیاسی انعام پاکر فوٹوں چھپوانے اور استقبال کروانے والے تقریباً 200/ لوگوں میں بیشتر ایسے ہیں جنہیں نہیں معلوم کہ الف سے اللہ ہے یا ایشور،یا ایٹم یا ایرشا (حسد) انہیں انعام اس لئے نہیں دیا گیا کہ وہ ادب کی خدمت کررہے ہیں بلکہ انہوں نے معاوضے کے طور پر انعام اس لئے ہڑپ لیا کہ وہ کسی سیاستداں کی خدمت کررہے تھے۔ خاکسار راقم الحروف کاشمار ایسے لوگوں میں نہیں ہے اس کو اکیڈ می نے انعام دیا تو ایک حاسد نے فیس بک پرلکھا کہ ان کو انعام نہیں لینا چاہئے تھا۔ اس نے یہ نہیں لکھا کہ اردو اکیڈمی کے جلسے میں جنہوں نے نظامت کی، جنہوں نے نظمیں سنائیں، جنہوں نے سیاسی معاوضے کے طور پر انعام حاصل کیا اور غلط اردوبولتے رہے انہوں نے ظلم کیا۔ اس نے یہ بھی نہیں لکھا کہ اخبار کے دفتر میں وہ کام کرنے والے جو جمال گوٹہ کھاکر کیا جاتاہے اب سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس کے اندر شعورہوتا تووہ سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کمار اورجسٹس آلوک ارادھے کی بینچ کے اس فیصلے کی تشہیر کرتا کہ جنسی تعلیم ہائر سیکنڈری اسکولوں کے نصاب کا حصہ ہوناچاہئے تاکہ بچے اورنوجوان ہارمونل تبدیلیوں کے بارے میں واقفیت حاصل ہے۔ اللہ ان کا اجر دے۔ شمیم طارق کو مشورہ دینے والا وہ کون ہے؟ شمیم طارق کو اس کی اور اس کے گاڈفادر کی سازشوں کے باوجود انعام ملا ہے۔اسی لئے کھسیانی بلی کی طرح دونوں کھمبا نوچ رہے ہیں۔

اردو میں اگرچہ اُمّی شاعروں کی روایت ہے مگر یہ بھی حق ہے کہ زبان، اس کے معنوی امکانات اور لفظوں کے لغوی، عرفی، تخلیقی معانی نہ سمجھنے اورترکیب، اصلاح، فقرہ۔۔۔ کے فرق کو خاطر میں نہ لانے والے اردو ادب کے ذخیرے میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ اس سال ادب کانوبیل انعام جنہیں ملا ہے وہ ہنگری کے رہنے والے ہیں مگر ہنگری کے وزیراعظم کے زبردست نکتہ چیں ہیں۔سویڈش اکاڈمی نے بیان دیا ہے کہ لاس زلو(جنہیں انعام دیا گیاہے) کی تخلیقات خوف اور دہشت کے ماحول میں بھی آرٹ یا فن کی طاقت کا احساس دلاتی ہیں۔ مہاراشٹر اکیڈمی ایک دو کو چھوڑکر شایدہی کسی کے بارے میں یہ بیان دے سکے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ تقریباً 200/انعام پانے والوں میں کون کس کی جوتیاں اٹھاتاہے۔ اردو تعلیم کا یہ حال ہے کہ اسکولوں میں کہیں طلباء نہیں ہیں او رکہیں اساتذہ نہیں ہیں۔ ادب کا یہ حال ہے کہ اسکولوں میں کہیں طلباء نہیں ہیں اور کہیں اساتذہ نہیں ہیں۔ ادب کا یہ حال ہے کہ ادب ’ع‘ سے لکھنے والے بھی انعام سے نوازے جارہے ہیں۔بابائے ارد ومرگئے، دادائے اردو قسم کے لوگ اپنی ستائش کا ایک موقع بھی ہاتھ سے گنوانانہیں چاہتے۔اردو کے کتنے شعبے او رکتنے ادارے تباہ ہورہے ہیں مگران کی نظر انعام پر ہے۔ کبھی کبھی تو خفت ہوتی ہے کہ اگر اردو لکھنے،بولنے اور اردو کے ادارے چلانے والے ایسے ہی لوگ ہیں تو پھرخاکسار کانام ان کے ساتھ کیوں لیاجاتا ہے؟ اس کے لئے گمنامی او ربدنامی ہی بھلی۔ وہ گدھوں سے مقابلہ کرنے کا قائل ہے نہ عادی۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/concern-urdu-desire-reward/d/137404

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..