عادل فراز
17جنوری، 2025
رواں ہفتے اسرائیل وزیراعظم نے گریٹر اسرائیل کانقشہ جاری کرکے تمام ہم نواعرب ملکوں کو حیران کردیا۔ اب تک جو عرب ملک اسرائیل کی حمایت میں کمر بستہ اور اس کو بحیثیت ایک ریاست کے تسلیم کرچکے تھے، ان سے بھی جواب دیتے نہیں بن رہا ہے۔ خاص طور پر اُردن، مصر، عرب امارات اور ترکی جیسے ملکوں کے لئے سخت گھڑی ہے جو اسرائیل کے ناجائز وجود کو جائز ٹھہراتے رہے ہیں۔ شام میں اقتدار کی کا یا پلٹ ہوچکی ہے اور اب ہئیت تحریر الشام کے روح رواں الجولانی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے، انہوں نے بھی اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح اردن جو اسرائیل پر حملے کے لئے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کے خلاف تھا، اس کا وجود ہی زیر سوال آگیا۔ گریٹر اسرائیل کے تازہ نقشے میں فلسطین،شام، لبنان اور اردن کے کچھ علاقے کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیاہے۔ چونکہ فی الوقت جنگ اسی خطے میں جاری ہے لہٰذا تازہ نقشے میں’گریٹر اسرائیل‘ کے اصل تصور کو شامل نہیں کیا گیا جس میں ترکی، ایران، مصر، عراق اور عرب امارات بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے 2023 میں اسرائیلی وزیر بیزلیل سموٹر یچ نے گریٹر اسرائیل کانقشہ نشر کیا تھا جس میں اردن کو اسرائیل کا حصہ بتایا گیاتھا۔ اس کے باوجود اردن کے حکمراں خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے اور اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے۔البتہ اردن کے عوام اب مقاد متی محاذ کے ساتھ کھڑے ہیں اور غرب اردن میں مزاحمتی تحریک پنپ رہی ہے۔
’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کا جاری ہوناتھا کہ عرب ملکوں کے پیرو ں تلے سے زمین نکل گئی۔ اسرائیل جو اس وقت بارودکے ڈھیر پربیٹھا ہوا ہے اس سے اس اقدام کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ مگر دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ نقشہ جلد یا بدیر جاری ہونا ہی تھا۔ دوسرے یہ مکمل نقشہ نہیں ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور تو نیل سے فرات تک ہے لہٰذا یہ نقشہ نہ تو پہلا ہے او رنہ آخری ہوگا۔ سعودی عرب نے اس اقدام کو انتہا پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پراعلانیہ حملے جاری رکھنے او ر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ فلسطین اور اردن کی حکومتوں نے اس نقشے کی مذمت کی ہے۔ لیکن کیا ان کے مذمتی بیانات سے ڈر کر اسرائیل اپنے اس منصوبے سے دستبرار ہوجائے گا؟ ہر گز نہیں!اسرائیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عرب ملکوں میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ ا س کے فیصلوں کے خلاف سخت اور حتمی موقف اختیار کرسکیں۔ غزہ جنگ کے دوران اس نے مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی او ربزدلی کا اچھی طرح مظاہرہ کیا ہے۔
اس نقشے میں فلسطین کے ہونے پر تعجب نہیں ہوناچاہئے کیونکہ اصل جھگڑے کی جڑ تو فلسطین کی سرزمین ہی ہے جہاں اسرائیل بھی موجود ہے اور غزہ بھی۔ البتہ فلسطینی صدر محمود عباس کو،جو اسرائیل نوازی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، کو اپنے گریباں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف جہاں غزہ کے عوام مسلسل اسرائیلی جارحیت کے سامنے استقامت کامظاہرہ کررہے ہیں وہیں محمود عباس استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کاکھلونا بنے ہوئے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد حماس کا مقابلہ براہ راست عالمی طاقتوں سے تھا۔ مگر اس دوران اس کے جنگجو ؤں کو محمود عباس کی فوج نے بھی مارا جس کی تصدیق خود حماس کے ترجمان نے کی۔ غزہ کے عوام کی جنگ فقط غزہ کے لئے نہیں ہے۔ وہ فلسطینی سرزمین کی آزادی او رمظلوموں کی نجات کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر محمود عباس کی حکومت نے غزہ کو ایک الگ ملک تصور کرتے ہوئے اس کے مزاحمتی گروہ کو اپنا دشمن سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر محمود عباس کی یہی پالیسی رہی تو فلسطینی اسی طرح اسرائیل کے توسیع پسندانہ نظام کی زد میں رہے گا۔ سیاسی حریفوں کے خاتمے کے لئے پورے ملک کو اپنی خواہشوں کی بھینٹ نہیں چڑھا ناچاہئے،یہ بات محمود عباس کو سمجھنی ہوگی۔
’پرومسڈ لینڈ‘ کا افسانوی تصور اب آئیے سمجھتے ہیں کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور کیا ہے۔ ’گریٹر اسرائیل‘ دراصل ’ڈی پرومسڈ لینڈ‘ کے تصور پرمبنی ہے۔ اس تصور نے یہودیوں کی بجائے صیہونیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔صیہونیت کے بانی تھیورڈ ہرزل کے بانی کے مطابق ’پرومسڈ لینڈ‘ میں نیل سے فرات تک کے علاقے شامل ہیں۔ اس طرح فلسطین، اردن، مصر، لبنان، عراق، ترکی، ایران، شام اور سعودی عرب جیسے ملک بھی’گریٹر اسرائیل‘ کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ترک صدر اور خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کے خواب سجانے والے طیب اردوغان کو بھی اس پر واضح موقف اختیار کرناچاہئے۔ یا پھر ترک صدر نے شام کو الجولانی کے حوالے کرنے میں اسی لئے مدد کی ہے تاکہ اس کو گریٹر اسرائیل میں شامل کردیا جائے۔ توکیا اب اگلاہدف ترکیہ نہیں ہوگا؟ خیر! یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گاکہ شام کے سقوط کے نتائج کیا ہوں گے اور آیا ترکیہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ نظام کی زد میں آئے گا یا نہیں!
صیہونیو ں کا ماننا ہے کہ ان کی مذہبی کتاب’بائبل‘ اور قدیم تاریخی حوالو ں کے تناظر میں نیل سے فرات تک کے تمام علاقوں پر ان کا حق ہے۔ جب کہ بعض دانشور’گریٹر اسرائیل‘ کو افسانوی تصور مانتے ہیں۔ ان کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد مشرق وسطیٰ میں موجود ہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے او رجہاں یہودی بستے تھے۔غرض کہ ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور متنا زعہ بھی ہے اور موجب فتنہ فساد بھی۔ اسرائیل نے جو نقشہ سرکاری اکاؤنٹ پر جاری کیا اس میں دعویٰ کیا گیاہے کہ اسرائیلی ریاست تقریباً تین ہزار سال قبل قائم ہوئی تھی۔ اس کے پہلے تین بادشاہوں میں شاہ شاؤول، شاہ داؤد اور شاہ سلیمان شامل ہیں جنہوں نے مجموعی طور پرایک سو بیس سال تک حکومت کی۔انہی کے دور میں یہودی تہذیب وثقافت او رمعیشت میں ترقی ہوئی جس کی بازیافت کی کوشش اس وقت اسرائیل کررہاہے۔صیہونیوں کاکہنا ہے کہ نوسواکتیس سال قبل مسیح شاہ سلیمان کی وفات کے بعد داخلی تنازعات اوربھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مملکت یہودہ۔شمالی مملک اسرائیل 209سال بعد آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور جنوبی مملکت یہودہ 345سال بعد بابل کے بادشاہ بخت النصر کے ذریعہ (568 قبل مسیح) ختم ہوگئی۔ یہ تقسیم صدیوں تک تنازعات کا شکار رہی او ریہودی جلاوطنی کی زندگی گذارتے رہے۔مگر 1948 میں انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر مختلف حیلوں اور سازشوں کے ذریعہ قبضہ کرکے اپنی مستقل ریاست کااعلان کردیا۔فلسطین اور اسرائیل کی اس تقسیم کو آج تک مسلمان تسلیم نہیں کراسکے۔ فلسطینی بھی 1947 میں ہوئی اس تقسیم کو قبول نہیں کرتے۔
فلسطینی کاز کے حامی اسرائیل کو ناجائز ریاست مانتے ہیں جس کے خلاف اس کے قیام کے فوراً بعد جدوجہد شروع ہوگئی تھی۔ مگر عرب ملکوں کی منافقت اور استعماری نوازی کے فوراً بعد جدوجہد شروع ہوگئی تھی۔مگر عرب ملکوں کی منافقت اور استعمارنوازی نے اسرائیل کے وجود کو جواز بخشا۔’صدی معاہدہ‘ کے بعد، جو ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز کے ذریعہ پیش کیا گیا تھا، یروشلم کو امریکی حمایت سے اسرائیلی پایہ تخت قرار دیدیا گیا جس کو اب تک اکثر مسلمان ملکوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اس راہ میں صیہونی کاز مسلسل کوششیں کررہا تھا او رکامیابی کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے تھے مگر طوفان الاقصیٰ نے اس کی امید وں پرپانی پھیر دیا۔ مسئلہ فلسطین جوصیہونیوں کی سازشوں او رمنصوبہ بندی کی بنا پر فراموشی کی نذر ہورہا تھا حماس نے ایک بار پھر اس کو دنیا کے سامنے زندہ کردیا۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ مسئلہ فلسطین کے حل پر گفتگو ہورہی ہے جس کا اسرائیل کو بھی شدت سے احساس ہے گریٹر اسرائیل کا تازہ نقشہ اس کے عدم تحفظ اور نفسیاتی کشمکش کو بھی ظاہر کرتاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی اس توسیع پسندانہ فکر کے خلاف عرب ملک اپنی غیرت کامظاہرہ کریں گے یا نہیں!
17 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
-------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/concept-greater-israel-nile/d/134387
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism