سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
16جنوری 2024
قرآن میں مسلمانوں کو انفرادی
اور اجتماعی زندگی کے آداب بتائے گئے ہیں۔ انفرادی زندگی کے آداب میں اخلاق ، کردار
، کنبے کے افراد کے حقوق اور مومنانہ صفات کو شامل کیا گیا ہے تو اجتماعی زندگی کے
آداب میں سماجی ، سیاسی اور بین مذہبی قوانین کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ قرآن میں کسی
خاص طرز حکومت کی وکالت نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی خاص طرز حکومت مسلمانوں پر فرض
کیا گیاہے ۔ لیکن چونکہ ابتدائی چار صحابہ کی حکومت کو خلافت راشدہ کہا گیا چنانچہ
مسلمانوں میں یہ عقیدہ رائج ہو گیا کہ مسلمانوں کے لئے خلافت ہی واحد طرز حکومت ہے
جس کو قرآن کی تائید حاصل ہے۔جبکہ قرآن میں کہیں بھی خلافت کو واضح طور پر مسلمانوں
کے لئے مثالی طرز حکومت کی حیثیت سے پیش نہیں کیا گیا ہے۔ خلافت کے تئیں مسلمانوں کی
جذباتی وابستگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے دوران مسلمانوں نے سیاسی، معاشی
اور مذہبی طور پر اقوام عالم پر برتری حاصل کی اور آدھی دنیا پر اپنی حکومت قائم کی۔
لہذا ، مسلمانوں میں یہ عقیدہ مستحکم ہو گیا کہ خلافت ہی وہ طرز حکومت ہے جس کو تائید
غیبی حاصل ہے۔
کچھ علماء نے بھی مسلمانوں کے اس
عقیدے کو استحکام بخشنے کے لئے رسائل اور کتابیں لکھیں ۔ ان میں ہندوستان کے شاہ ولی
اللہ محدث دہلوی بھی ہیں جنہوں نے خلافت پر دو حصوں میں ایک پوری کتاب ہی ازالة الخفا
عن خلافة الخلفاء لکھ دی۔ اس کتاب نے ہندوستان کے مسلمانوں میں اس عقیدے کو استحکام
بخشا کہ مسلمانوں کے لئے صرف اور صرف خلافت ہی مثالی طرزحکومت ہے۔
قرآن کسی خاص طرز حکومت پر
زور نہیں دیتا بلکہ اچھی حکومت پر زور دیتا ہے۔ قرآن ایک ایسی طرز حکومت پر زور دیتا
ہے جو آپسی مشورے سے چلتی ہو ۔امرھم شوری بینھم۔قرآن مطلق العنانیت یا ڈکٹیٹرشپ کی
تائید نہیں کرتا کیونکہ اس میں شوری کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ قرآن طرز حکومت پر نہیں
بلکہ حاکم یا حکمراں کے کردار اور طرز عمل پر زیادہ زور دیتا ہے۔قرآن میں خلافت اور
بادشاہت دونوں کا ذکر ہے۔ خدا نے حضرت داؤد علیہ السلام کو خلافت عطا کی اور حضرت سلیمان
علیہ السلام کو بادشاہت ۔حضرت سلیمان علیہ السلام خدا کے پیغمبر تھے اور انہوں نے خود
اللہ سے دعا کی تھی کہ انہیں ایسی بادشاہت عطا ہو جو ان کے بعد کسی کو نہ عطا ہو۔ حضرت
سلیمان علیہ السلام ایک لائق اور رعایا پرور بادشاہ تھے۔
قرآن خلافت یا بادشاہت کے
لئے بادشاہ یا خلیفہ میں علم اور جسمانی صحت کو بھی مقدم قرار دیا ہے۔ طالوت کو جالوت
کے خلاف اسی لئے بادشاہ چنا گیا کہ وہ جسمانی طور پر دوسروں سے بہتر تھے اور علم بھی
رکھتے تھے اگرچہ وہ غریب تھے۔
جدید علمائے اسلام خصوصاً
محمد اسد نے اس سلسلے میں کافی غور و خوض کیا اور موجودہ دور کے صدارتی طرز حکومت کو
قرآن میں پیش کردہ تصور حکومت کے موافق قرار دیا۔ اس طرز حکومت میں ایک منتخب قائد
ہوتا ہے اور پارلیامنٹ کی شکل میں مجلس شوری ہوتی ہے۔ محمد اسد کا نقطہء نظر یہ ہے
کہ خلفائے راشدین نے ابتدائی دور میں اس دور کے تقاضوں اور وسائل کے مطابق اسلامی حکومت
قائم کی۔ موجودہ دور کے تقاضے کچھ اور ہیں اور ایک حکومت کو بہت سارے بیرونی اور اندرونی
چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ اس لئے جدید اسلامی خلافت یا حکومت جدید دور کے تقاضوں اور
چیلنجز کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کرنی ہوگی۔ نیز اس میں ثکثیری معاشرے کے تقاضوں کو
بھی قرآن کی قائم کردہ حدود کی روشنی میں ہورے کرنے ہوں گے۔
قرآن نے ایک اسلامی حکومت
میں حلال وحرام، جرم وسزا اور حقوق کا تعین کردیا ہے۔ لہذا، طرزحکومت جو بھی ہو انہی
قوانین و اصول کی پابند ہوگی۔
قرآن کے پیش کردہ اسلامی حکومت
میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی حفاظت کی گئی ہے۔ انہیں اپنے مذہبی صحیفوں کے مطابق زندگی
گزارنے کی آزادی دی گئی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
"اور چاہئے کہ حکم کریں انجیل والے موافق اس کے جو کہ اتارا اللہ
نے اس میں اور جو کوئی حکم نہ کرے موافق اس کے جو اتارا اللہ نے سو وہی لوگ ہیں نافرمان
۔اور تجھ پر اتاری ہم نے کتاب سچی تصدیق کرنے والی سابقہ کتابوں کی اور اس کے مضامین
پر نگہبانی سو توحکم کر ان میں موافق اس کے جو کہ اتارا اللہ نے اور توان کی خوشی پر
مت چل چھوڑ کر سیدھا راستہ جو تیرے پاس آیا۔ ہر ایک کو تم میں سے دیا ہم نے ایک دستور
اور راہ اور اللہ چاہتا تو تم کو ایک دین پر کردیتا۔ لیکن تم۔کو,آزمانا چاہتا ہے اپنے
دئیے ہوئے حکموں میں سو تم دوڑ کر لو,خوبیاں۔"(المائدہ:48)۔
"اور اگر وہ قائم رکھتے توریت اور انجیل کو اور اس کو جو کہ نازل
ہوا ان پر ان کے رب کی طرف سے تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے۔ کچھ
لوگ ہیں ان میں سیدھی راہ پر اور بہت سے ان میں برے کام کررہے ہیں۔۔"(المائدہ:66)۔
لہذا، ایک اسلامی ریاست چاہے
وہ خلافت ہو یا بادشاہت مذہبی اقلیتوں مذہبی آزادی دیتی ہے۔ حکومت پر یہ فرض کردیا
گیا ہے کہ وہ عوام کی فلاح کے لئے کام کرے ظلم کو روکے، ملاوٹ رشوت اور جمع اندوزی
کے خلاف کارروائی کرے۔فتنہ فساد کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔ہمسائیگی
کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی فلاح کے لئے اقدامات
کرے۔ مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے وغیرہ۔
لہذا، قرآن طرز حکومت پر زور
نہیں دیتا بلکہ بلکہ ایسے سیاسی نظام کی تشکیل کی ہدایت دیتا ہے جس میں اس کے احکام
کی پابندی ہوتی ہو اور سماج کے تمام طبقوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism