شفقؔ سوپوری
28جولائی،2024
میرؔ کا دیوان’’کم از
گلشنِ کشمیر (ہی) نہیں‘‘ بلکہ یکے از عجائباتِ روز گار بھی ہے۔ یوں ہی میرؔ کے
شعرِ شور انگیز نے ’’روئے زمیں تمام (نہیں)لیا‘‘ ہے۔ زبان و بیان ہو یا مضمون
آفرینی، ذات و کائنات کے درمیان اسرار کا کشف و اکتشاف ہو یا رسمِ نوحہ گری واقعی
میرؔ کا’’مقدور سے زیادہ مقدور ہے‘‘۔ میرؔ نہ ہوتے تو بے شک’’ریختہ بے شورش و
کیفیت و معنی‘‘ ہوتا۔ میرؔ بد دماغ نہیں عالی دماغ تھے۔ نازک مزاج تر تھے۔ یہی وجہ
ہے کہ ان کی شاعری نازک خیالی اور نازک بیانی سے تعبیر ہے۔میرؔ کا سب سے بڑا کمال
یہ ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر نہ صرف روزمرہ سے سروکار رکھا بلکہ فارسی زبان کے
الفاظ اور تراکیب کو اس میں اس طور پر ہم آہنگ کیا کہ اجنبیت کا احساس ہی نہیں
ہوتا۔
کلیاتِ میرؔ میں کچھ ایسی
فارسی تراکیب ملتی ہیں جن سے عقل حیران ہوجاتی ہے۔ ’’دامن سوار‘‘ ایسی ہی تراکیب
میں ایک ہے۔ میرؔ نے کئی مقامات پر اس ترکیب کو برتا ہے جیسے؎
میر تقی میر
-------
تھا کب گماں ملے گا وہ
دامن سوار میرؔ
کل راہ جاتے مفت ہوئے
پائمال ہم
کیا بدبلا ہے لاگ بھی دل
کی کہ میرؔ جی
دامن سوار لڑکوں کے ہوکر
نفر ہوئے
(دیوانِ دوم)
ہمیشہ ساتھ ہے دامن سوار
لڑ کوں کے
مگر کہ خاکِ وفا سے بنا
ہے میرا غبار
(قصیدہ در مدحِ امام حسینؓ)
آئے کس کس رنگ سے دامن
سوار
باد کے رنگوں جنہوں کا
تھا گزار
(دربیانِ ہولی)
دورو تھے خیال و سوانگ
آئے
گھوڑے دامن سوار کیا لائے
(در جشنِ ہولی و کتخدائی)
[کلیات میرؔ مرتبہ عبادت
بریلوی: اردو دنیا کراچی ۱۹۸۵]
دامن سوار جیسا کہ عرض کیا
جاچکا ہے کہ فارسی کی ترکیب ہے۔ اسے سعدیؔ، رومیؔ، بیدل ؔ اور صائب وغیرہ نے برتا
ہے جیسے؎
چوں کودکان کہ دامن خود
اسب کردہ اند
دامن سوار کردہ و میدانت
آرزوست
(سعدیؔ)
با ہمہ بی دست و پایی
اندکی ھمت گمار
آسماں می بالد اینجا
کودک دامن سوار
( بیدل)
کودکان را حرص می آرد
غرار
تا شوند از ذوق دل دامن
سوار
(رومیؔ)
از صف مردان جگر داری نمی
آید برون
ورنہ گردون کودک دامن
سواری بیش نیست
( صائب)
فرہنگِ آنند راج(جلد دوم)
نولکشور ۱۸۹۴کے
صفحہ ۱۶
پر دامن سوار کا اندراج موجود ہے۔ بعد کی فارسی لغات میں لگ بھگ یہی معنی بیان کیے
گیے ہیں:
’’ طفلے کہ سر دامن را از
دو پای خود بر آوردہ بازی کنند و خود راسوار تصور نماید۔ ‘‘
یعنی دامن سوار اس بچے کو
کہتے ہیں جو اپنے دامن کو ٹانگوں میں سے نکال کر دوڑتا ہے اور خود کو سوار تصور
کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا کھیل ہوا کرتا تھا۔ چونکہ اہل فارس عام طور پر جبہ’’ جامۂ
کشادہ و بلند کہ برروی جامہ ہائے دیگر پوشند‘‘(عمید) پہنتے تھے اس لیے وہاں کے
بچوں میں یہ کھیل عام تھا۔ اہل کشمیر بھی سردی کے ایام میں پھیرن( پیرہن) پہنتے
ہیں ۔ میرے بچپن تک یہ کھیل بچے بلکہ لڑکے بالے کھیلتے تھے۔ عام طور پر یہ ترکیب
کم عمر معشوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
دامن سوار کی ہی طرح ایک
ترکیب’’ نے سوار‘‘ ہے۔ میرؔ نے یہ ترکیب بھی استعمال کی ہے؎
لب آب جاکر جو کھیلے
شکار
اسد واں کے تھے کودک نے
سوار
(شکار نامہ)
ناسخ نے تو کمال ہی کیا
ہے۔ کیا لطیف مضمون باندھا ہے؎
چمن میں کوئی گلِ تر جو
شاخ پر دیکھا
تو مجھ کو یاد وہ محبوبِ
نے سوار آیا
فرہنگِ آنند راج کے صفحہ ۶۵۷پر نے سوار کے معنی یوں
درج ہیں:
’’طفلے کہ مرکب از نے
کنند‘‘۔
یعنی وہ بچہ جو بانس پر
سوار ہو۔ اس کا طریقہ کا بھی وہی ہے کہ بانس کے ڈنڈے کو ٹانگوں کے بیچ میں رکھ کر
اسے گھوڑا اور خود کو سوار تصور کیا۔ یہ کھیل بھی ہم نے بچپن میں خوب کھیلا ہے۔
بلکہ بعض بچے تو چابک بھی ہاتھ میں لہراتے تھے۔ فارسی شعراء نے ’’نے سوار‘‘ سے
اچھے مضامین پیدا کیے ہیں؎
قدم بہ صد دشت و در
گشادی، ز نالہ در گوشہا فتادی
عناں بہ ضبط نفس ندادی
طبیعت نی سوار خود را
بہ گردون نی سوار کہکشان
باشی چہ فخر است این
تلاش اوج جاھت بازی
طفلانہ ای دارد
قطع جہات کردہ ام از انس
بور
افتادگی بہ ہر طرفم نی
سوار برد
اگر مطلق عنان گردد سپاہ
اضطراب دل
دو عالم شوخی یک نی سوار
نالہ می گیرد
چہ نغمہ ہا کہ ندارد ز
خود تہی شدن من
بہ ذوق آنکہ نفس نی سوار
گردد و نالد
چہ تماشاست درین کوچہ کہ
طفلان سرشت
نی سوار مژہ از خانہ برون
می آیند
دم نایی بہ ذوق نالہ
آسودن نمی داند
نفسہا در قفای نی سوار
خویش می سوزم
(بیدل)
کس نی سوار دید کہ باشد
مصاف دار
وزنی ستور دید کہ در رہ
غبار کرد
(خاقانی)
نرمی ز حد مبر کہ چو
دندان ما رریخت
ہر طفل نی سوار کند
تازیانہ اش
زھد خشک از خاطرم ھرگز
غباری برنداشت
مرکب نی بار شد بر نی
سوار خویشتن
چون طفل نی سوار بہ میدان
روزگار
در چشم خود سوارہ ولیکن
پیادہ ایم
(صائب)
میرؔ کے پہلے شعر؎
تھا کب گماں ملے گا وہ
دامن سوار میرؔ
کل راہ جاتے مفت ہوئے
پائمال ہم
میں ’’کودک‘‘ یا ’’
لڑکا‘‘ اگرچہ استعمال نہیں ہوا ہے لیکن خود دامن سوار کی ترکیب ہی یہ سمجھنے کے
لیے کافی ہے کہ معاملہ کم سن محبوب کا ہے۔ لفظ ’’ گماں‘‘ غور طلب ہے۔ چونکہ ’’دامن
سوار‘‘ کو بھی اس بات کا گماں ( ظن، وہم، رائے، اندیشہ، خیال، وہم، فرض(کرنا)،
تصور (کرنا)،باور وغیرہ)کہ وہ گھوڑے پر سوار ہے اس واسطے میرؔ نے اس بات سے رعایت
پیدا کی ہے۔ دامن سوار کی مناسبت سے پائمال کا تلازمہ غضب کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔
پائمال [زبوں، پست، خستہ، ’’چیزے کہ زیر پا مالیدہ شدہ(عمید) ]ہونا یعنی پاؤں سے
روندا جاتن۔ ’’کب‘‘ [ ظرف و زماں جو محل استہفام میں آتا ہے] یعنی کس وقت؟ کس دن؟
کیسے؟ کس طرح۔ کس زمانے میں؟]یعنی کس زمانے میں یہ گماں ہوا کہ مجھے وہ دامن سوار
ملے گا۔ دامن سوار چونکہ اپنے گماں میں گھوڑے پر سوار ہوکر خاک اڑاتا ہے اس واسطے
میرؔ نے خاک کا تلازمہ استعمال کیا ہے؎
ہمیشہ ساتھ ہے دامن سوار
لڑ کوں کے
مگر کہ خاکِ وفا سے بنا
ہے میرا غبار
’’ کب‘‘ کی رعایت سے’’
کل‘‘ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک زمانے میں میرؔ کا غبارِراہ بننا سود
مند تھا کیونکہ اسے ’’دامن سوار‘‘ یعنی اس کا کم عمر معشوق اپنی ٹھوکروں سے اڑاتا
تھا۔ لیکن اب وہ بڑا ہوچکا ہے اور اس نے دامن سواری چھوڑ دی ہے لہٰذا ’’کل‘‘ مفت
میں یعنی کسی فائدے کے خود کو خاک راہ بنا دیا۔
کیا بدبلا ہے لاگ بھی دل
کی کہ میرؔ جی
دامن سوار لڑکوں کے ہوکر
نفر ہوئے
اس شعر میں میرؔ نے نہایت
درجہ لطیف مضمون باندھا ہے۔ بد کو اگر برا کے معنی میں لیں گے تو بری بلا کے معنی
خراب، نکمی، ناقص ، نازیبا بلا ہوجاتے ہیں۔ بد کے ایک معنی فسادی کے بھی ہیں۔ یہاں
مراد وہی ہے۔ یعنی لاگ( یہاں لاگ محبت یا انس وغیرہ کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا
ہے بلکہ چسکے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے) یعنی دل کو جو دامن سوار لڑکوں ( کم
عمر معشوق) کی صحبت کا چسکا پڑا ہے وہ فساد برپا کرنے والی بلا ہے۔ اسی فسادی بلا
کی وجہ سے ہم دامن سوار لڑکوں کے نفر(یعنی غلام یا نوکر ) بن کر رہ گیے۔ لطف کی
بات یہ ہے کہ دامن سوار اپنا دامن اٹھا کر یوں
دوڑتا ہے جیسے گھوڑے پر
سوار ہو۔ جب کوئی صاحب اختیار آدمی گھوڑے پر سوار ہوتا ہے تو اس کے پیچھے پیچھے
ایک نوکر چلا آتا ہے۔ دامن سواری تو ایک فرضی اور بچگانہ عمل ہے۔ دامن سوار کا
نوکر ہونا اس سے بھی بڑھ کر فرضی اور پچگانہ عمل ہے۔ اسی لیے میر نے اس لاگ کو بد
بلا کہا ہے۔
28جولائی،2024، بشکریہ:روزنامہ چٹان سری نگر
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism