سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
19 جون 2025
اس مضمون میں کشمیریت، کشمیر کی صوفی ازم، رشی ازم، اور مشترکہ روایات کے بھرپور امتزاج پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس سے بڑھتے ہوئے تنازعات کے اس دور میں امن، اتحاد، افہام و تفہیم اور مفاہمت کو فروغ دینے میں اس کا کردار واضح ہوتا ہے ۔
اہم نکات:
1. کشمیریت صوفی ازم، رشی ازم، سنسکرت ورثے اور اسلامی روایات کا ایک شاندار امتزاج ہے، جو مشکل اور تقسیم کے دور میں بھی کشمیر کے لوگوں کے درمیان نسل در نسل امن، اتحاد اور افہام و تفہیم کو فروغ دیتی رہی ہے ۔
2. صوفی سنتوں نے ہمدردی، عاجزی اور مفاہمت کو فروغ دینے، کشیدگی کو کم کرنے اور ثقافت اور مشترکہ تاریخ سے مالا مال اس ملک میں، معاشروں کو متحد کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
3. حضرت نند رشی اور للیشوری نے روحانیت اور ہمدردی کو ایک کیا، ایک طاقتور روایت کی تخلیق کی، جو آج کشمیر کی اجتماعیت میں جگمگا رہی ہے، جو عالمگیر امن، انصاف اور اخلاقی پاکیزگی کی عکاسی کرتی ہے ۔
4. بڑھتے ہوئے تنازعات، صوفی مزارات پر حملوں اور بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات نے، کشمیریت کو مخدوش کیا ہے، جس سے لوگوں کو ان کی مشترکہ روایات، کہانیوں اور تقریبات کے نام پر اکٹھا کرنے کی اس کی صلاحیت کو خطرہ لاحق ہے ۔
5. تعلیم کے ذریعے کشمیریت کا تحفظ، تاریخی مقامات کا تحفظ، دستکاری کو فروغ دینا اور بات چیت کو فروغ دینا، کشمیر میں مفاہمت کو فروغ دینے، گہری تقسیم کو دور کرنے اور آنے والی نسلوں کے لیے امن کے ماحول کو محفوظ بنانے میں معاون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف
کشمیریت، ایک اصطلاح ہے جو پورے کشمیر کی نمائندگی کرتی ہے، جو صرف ایک جغرافیائی یا نسلی پہچان سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ صوفی ازم، رشی ازم، کشمیر کی سنسکرت وراثت، اور اس کے بعد کی اسلامی اصلاحات کی بطن سے جنم لینے والی ایک جامع ثقافت کو بیان کرتی ہے ۔ کشمیریت تنوعات میں ہم آہنگی حاصل کرنے کی کشمیر کی صلاحیت کا ثبوت ہے، یہ ایک اجتماعی شعور ہے، جو اس کے فن پاروں، ادب، اداروں اور باہمی تعلقات سے نمایاں ہے ۔
یہ جامع ثقافت روایات اور تاریخی تعاملات کے زرخیز امتزاج کی پیداوار ہے ، جو ایک منفرد عمل کی نمائندگی کرتی ہے ، جس کے ذریعے مختلف مذاہب اور نسلی گروہوں نے زندگی گزارنے کا ایک مشترکہ طریقہ ایجاد کیا ۔ کشمیریت کو اس کی تاریخی جڑوں، اس کی عظیم شخصیات، اور سیاسی بدامنی اور بڑھتی ہوئی مذہبی بنیاد پرستی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے ، اس کے زوال کو جانے بغیر، جامع طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔
کشمیریت کا تاریخی پس منظر
کشمیر میں اسلام کی آمد سے قبل، یہ سرزمین سنسکرت کی تعلیم، شیو مت، اور یوگا کی بھرپور روایت کا گڑھ رہی تھی ۔ بدھ مت اور شیو مت دونوں کا کشمیر پر خاصا اثر تھا ، جس نے ایک زرخیز فکری بنیاد تشکیل کی ، جس میں بعد کی روایات اپنے ماقبل کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے میں کامیاب ہوئیں۔
اس پس منظر نے کشمیر کو ایک واحد ایسی سرزمین بنا دیا ، جہاں ہندو اور مسلم روایات ایک ساتھ ضم ہونے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت رکھتی تھیں ۔ سنسکرت ورثے نے ایک مضبوط لسانی اور فلسفیانہ بنیاد فراہم کی، جس کے بعد کے اسلامی روایات نے تصوف اور مذہبیت پر نئے تناظر کا اضافہ کیا ۔ اس امتزاج سے ایک بنیاد پڑی جس پر آج کشمیریت کھڑی ہے، جو کہ تنوعات میں اتحاد کے اظہار سے عبارت ہے ۔
صوفی ازم کی آمد اور اس کے اثرات
صوفی ازم 13ویں صدی کے بعد کشمیر میں داخل ہوئی ۔ صوفی سلاسل اور ان کے شیوخ نے کشمیر کی جامع ثقافت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ۔ کشمیر میں آنے والے بڑے سلاسل قادریہ، سہروردیہ، نقشبندیہ اور کبرویہ تھے ، ان تمام سلاسل نے اسلام اور تصوف کے بارے میں ایک متوازن لیکن عالمگیر تفہیم کو فروغ دیا ۔ اس آفاقی نقطہ نظر نے مکالمے ، مفاہمت اور امن کو فروغ دیا اور کشمیر کے جامع ورثے کو تقویت بخشی ۔ چودہویں صدی کے حضرت سید شرف الدین عبدالرحمن شاہ المعروف بلبل شاہ اس عمل میں مرکزی شخصیت تھے ۔ ان کے طرز زندگی - خدمت، سادگی، عاجزی اور سخاوت نے کشمیر کے اخلاقی ماحول پر بڑا گہرا اثر ڈالا ۔ ضرورت مندوں کے لیے ان کے بنائے ہوئے لنگر (مفت خوراک کی تقسیم) کے نظام نے، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا، جو کہ ایک سماجی رفاقت اور ہمدردی کا اظہار ہے ۔
اس کے علاوہ 14ویں صدی کے شاہ ہمدان حضرت میر سید علی ہمدانی نے بھی اس میں اپنا خاطر خواہ تعاون پیش کیا ۔ ایران اور وسطی ایشیا میں ان کے بڑے پیمانے پر سفر کے نتیجے میں، جدید دستکاری، زرعی اختراعات اور تعلیمی مراکز کا قیام عمل میں آیا ۔ ان کی پالیسی نے مفاہمت اور مشترکہ روایات کو فروغ دیا، اور کشمیر کے جامع کردار کو مضبوط کیا ۔
رشی تحریک: روایات کا امتزاج
کشمیر کی اجتماعی ثقافت میں سب سے نمایاں کارنامہ رشی تحریک ہے، جو مقامی روایات، یوگا، شیو ازم، اور سنسکرت کی تعلیم کے ساتھ صوفی ازم کا ایک شاندار امتزاج ہے ۔ اس تحریک کی سب سے بڑی شخصیت نند ریشی حضرت شیخ نور الدین (1377-1440) تھے ۔ حضرت نند رشی نے عالمگیر اخوت، محبت، عاجزی، امن اور فطری طرز زندگی کی تبلیغ کی ۔
انہوں نے اسلامی توحید اور کشمیر کی یوگا روایات دونوں کی طرف توجہ کیا ، اور ایک ایسا امتزاج پیش کیا جو مذہبی حدود سے بالاتر ہے ۔ ان کی شاعری، اخلاقی تعلیمات اور انسانیت پسندانہ موضوعات میں ڈوبی ہوئے ہے، جو کشمیریوں کے خوابوں خیالوں، ان کے رشتوں، تقریبات اور برادری کے تصور میں بھی سرایت کیے ہوئے ہے ۔
مزید برآں، للیشوری عرف لال دید، ایک 14ویں صدی کی شیوا سنت ہیں، جنہوں نے حضرت نند رشی کی فکر و نظر پر بڑا گہرا اثر ڈالا ۔ ان کی شاعری، جس میں سخت امتیازات کو چیلنج کیا گیا، اور کُل کی حتمی وحدت پر زور دیا گیا ہے، جو کشمیر کی جامع ثقافت کے لیے ایک طاقتور نظیر فراہم کرتی ہے ۔ دونوں نے مل کر اس تفہیم کو پروان چڑھایا، کہ تقویٰ کا تعلق کسی خاص مذہبی گروہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ اخلاقی کردار، ہمدردی اور انصاف پسندی کا نام ہے ۔
کشمیر کی ثقافتی زندگی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی
کئی دہائیوں سے کشمیریت کا مطلب ہندوؤں اور مسلمانوں کا پرامن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنا تھا ۔ اس کی عکاسی تقریبات میں ان کی مشترکہ شرکت، صوفی مزارات کے لیے ان کی اجتماعی تعظیم، ان کے کھانے اور کہانیوں کے اشتراک اور ایک دوسرے کے تہواروں کو منانے کی صلاحیت سے ہوتی تھی ۔
کچھ پرانے ادارے اس جامع ثقافت کی بہترین مثال ہیں ۔ کشمیر بدامواری میلہ، جو ہر سال بادام کے پھولوں کے ساتھ منایا جاتا ہے، اس میں دونوں برادریوں کے افراد شامل ہوتے ہیں ۔ صوفی مزاروں پر ہونے والی تقریبات، جیسے کہ نند رشی حضرت نورالدین یا حضرت شیخ حمزہ مخدومی کی تقریبات میں، اکثر ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے کشمیری شرکت کرتے تھے ۔
مزید برآں، کشمیر کے حکمرانوں، خاص طور پر غیاث الدین شاہ رخ شاہی خان عرف بڈھ شاہ (1470-1420) نے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا راستہ صاف کرنے کے لیے پالیسیاں نافذ کیں ۔ بدھ شاہ نے غیر منصفانہ ٹیکسوں کو ختم کیا، سبھی کے لیے تعلیم کی حمایت کی، اور ایسے شہری اداروں کی بات کی جہاں ہندو اور مسلمان دونوں مشترکہ فلاح و بہبود میں اپنی خدمات پیش کر سکتے تھے ۔ ان کا دور کشمیریت کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے، یہ وہ دور تھا جب فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی ۔
بیرونی عوامل اور بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی کا اثر
اگرچہ کشمیریت کئی نسلوں سے مضبوط تھی، لیکن اس کی تکثیری ثقافت بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ، اور 1989 کے بعد مذہبی عسکریت پسندی اور بنیاد پرستی کی آمد کے بعد، زوال پذیر ہونا شروع ہو گئی ۔ ظلم و ستم اور تشدد کی وجہ سے کشمیر کی پنڈت برادری کی بڑے پیمانے پر ہجرت نے، کشمیر کے روایتی اداروں اور امن کے قیام میں کشمیر کی قابلیت کو شدید دھچکا پہنچایا ۔
مزید برآں، انتہا پسند گروہوں کے صوفی مزارات پر حملے، مثال کے طور پر، 1995 میں چرارِ شریف کا انہدام، بھی اس بات کا ایک ٹھوس ثبوت ہے کہ سخت گیر قوتیں کشمیر کی جامع ثقافت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ ان مقامات کی تباہی نے کشمیر کے شاندار ماضی سے ایک جسمانی تعلق کو منقطع کر دیا، جس سے کشمیری برادریوں کے درمیان بڑھتی ہوئی درار میں اضافہ ہوا ۔
یہ عمل جغرافیائی و سیاسی دباؤ اور پالیسی سازی سے بھی متاثر ہوا، جس میں کشمیر کی فرقہ وارانہ بقائے باہمی کی منفرد تاریخ کو نظر انداز کیا گیا ۔ شکوک و شبہات کی بڑھتی ہوئی فضا، فرقہ وارانہ پولرائزیشن، اور بڑھتے ہوئے تشدد نے ان میکانزم کو شدید نقصان پہنچایا، جن کے ذریعے کشمیریت نے تاریخی طور پر افہام و تفہیم اور امن کو فروغ دیا تھا ۔
کشمیریت کا مستقبل: تحفظ اور احیائے نو
کشمیر آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے ۔ اس کی جامع ثقافت کو، جو کئی صدیوں پر محیط ہے، خطرہ لاحق ہے، لیکن ابھی وہ ضائع نہیں ہوا ۔ کشمیریت کی یادیں اور روایات اس کے لوگوں، ان کی کہانیوں، ان کے کھانوں، ان کی رسومات، ان کے مزارات، ان کی شاعری، ان کی دستکاری اور ان کے مشترکہ افکار و خیالات میں اب بھی زندہ ہیں ۔
کشمیریت کی بازیابی اور اسے محفوظ کرنے کے لیے شعوری پالیسی سازی اور زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کچھ اہم اقدامات یہ ہو سکتے ہیں:
1. صوفی مزارات اور مشترکہ زیارت گاہوں کی بحالی اور تجدید کاری ۔
2. کشمیر کے شاندار زبانی لٹریچر اور شاعری کی تالیف اور اشاعت جو مذہبی تفریق کے درمیان اتحاد اور ہمدردی کو فروغ دے ۔
3. مشترکہ تاریخ، مفاہمت اور امن پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کشمیر کے نوجوانوں، اور اس کے تارکین وطن دونوں کے لیے تعلیم اور مکالمے کے اقدامات کو فروغ دینا ۔
4. ثقافتی اداروں، دستکاری، روایتی فنون، اور مشترکہ سماجی رسومات کے لیے تعاون جو تنازعات کے بجائے باہمی تعلقات کو فروغ دینے میں معاون ہوں ۔
نتیجہ
کشمیر کی جامع ثقافت، جو صدیوں میں تیار ہوئی ہے، مختلف عقائد کے امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی صلاحیت کا ایک مضبوط ثبوت ہے ۔ کشمیریت کوئی تاریخی چیز نہیں ہے ۔ یہ ایک زندہ روایت ہے جو آج بھی کشمیریوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔
اگرچہ سیاسی دباؤ اور تشدد نے اس کے اظہار میں رکاوٹ پیدا کی ہے، لیکن اس کی بنیادیں مفاہمت کا ایک طاقتور ذریعہ بنی ہوئی ہیں ۔ کشمیریت کا احیاء، ایک ایسا احیاء جس میں اس کے عصری بحرانوں کو حل کرتے ہوئے اس کی بھرپور تاریخ کا احترام کرنا شامل ہے، کشمیر میں امن، استحکام اور اتحاد کا سب سے حقیقت پسندانہ راستہ ہے ۔
حوالہ جات
(24 مارچ 2009) فاروق عبداللہ نے 'کشمیریت' کی تعریف کی۔ دی ہندو۔
تاک، تورو (20 اپریل 2013)۔ "کشمیریت کی اصطلاح" اقتصادی اور سیاسی ہفتہ وار
ہنس کلاس روم (19 مارچ 2018)۔ "کشمیریت" ہنس انڈیا۔
-----
English Article: Reviving Kashmir’s Composite Culture called Kashmiriyat: Sufism, Rishism and the Hope for Peace
URL: https://newageislam.com/urdu-section/composite-culture-kashmiriyat-sufism-rishism-peace/d/135974
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism